اہم خبریں

’سرجن نے تجربے کر کے میری زندگی برباد کر دی‘ وہ ڈاکٹر جس کی غفلت نے 100 مریضوں کو نقصان پہنچایا

لیان سدرلینڈ جب 21 برس کی تھیں تو انھیں ’آدھے سر کا درد‘ رہتا تھا اور ایسے میں انھیں ایک مقبول سرجن نے آپریشن کی پیشکش کی۔

انھیں بتایا گیا کہ وہ کچھ دن ہسپتال میں ہی ہوں گی اور اس آپریشن کے نتیجے میں ان کے صحت یاب ہونے کے امکانات 60 فیصد ہیں۔

جب پروفیسر سیم الجامل نے سات بار ان کا آپریشن کیا تو پھر انھیں ہسپتال میں کئی دن کے بجائے کئی مہینوں تک رکنا پڑا۔

یہ سرجن نیشنل ہیلتھ سروسز ٹائیسائیڈ میں میں نیورو سرجری کے سابق سربراہ ہیں، جو کئی برسوں سے مریضوں کی جان سے کھیل رہے تھے اور انھیں شدید خطرے سے دوچار کر رہے تھے۔ مگر اس کے باوجود ہیلتھ بورڈ نے انھیں روکا تک نہیں۔

این ایچ ایس ٹائیسائیڈ نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے پروفیسر سیم الجامل سے متعلق جون 2013 سے شکایات موصول ہونا شروع ہوئیں جس کے بعد کارروائی شروع کی گئی۔ مگر این ایچ ایس کے ایک ’وِسل بلور‘ نے بی بی سی کو بتایا کہ ہیلتھ بورڈ کو ان سے متعلق سنہ 2009 سے یہ سب پتا ہے کہ ان سے متعلق بہت سنجیدہ خدشات پائے جاتے ہیں۔

بی بی سی سکاٹ لینڈ نے ایسے تین سرجنز سے بات کی جو ٹائیسائیڈ میں ڈاکٹر الجامل کی نگرانی میں کام کر چکے ہیں۔ ان کے مطابق ڈاکٹر الجامل بہت رعونت والے سرجن تھے جنھیں مریضوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی تھی۔

ان تینوں ڈاکٹرز کا یہ کہنا ہے کہ محکمے میں احتساب کے فقدان کی وجہ سے یہ سب ہو رہا تھا۔ ان کے مطابق ڈاکٹر الجامل کا رویہ ایسا تھا ’جیسے بس وہ خدا ہوں کہ جو چاہیں کرتے پھریں۔‘ ان کے نزدیک اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ہسپتال کے اس شعبے کے لیے فنڈنگ کا بھی ایک اہم ذریعہ تھے۔

ہیلتھ بورڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ سکاٹ لینڈ کی حکومت کے ساتھ اس معاملے پر کام کر رہا ہے تاکہ ڈاکٹر الجامل کے مریضوں کی دیکھ بھال کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے ایک آزادانہ تحقیقات میں مدد فراہم کی جا سکے۔

تاہم ہیلتھ بورڈ کا کہنا تھا کہ وہ کسی انفرادی معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے۔

’کسی چوہے کی طرح مجھ پر تجربے کیے گئے‘

سنہ 2011 میں اپنے آپریشن سے قبل لیان سدرلینڈ معمول کے مطابق کام کرتی تھیں اور وہ چھٹیوں میں اپنے دوستوں کے ہمراہ بیرون ملک جاتی تھیں۔ مگر آدھے سر کے درد نے ان کی زندگی اجیرن کر دی۔

ڈاکٹر الجامل، جن کی سکاٹ لینڈ میں ایک بہترین نیوروسرجن کے طور پر شہرت تھی، نے انھیں بتایا کہ وہ ان کی اس درد سے نجات میں مدد کر سکتے ہیں۔

انھیں بتایا گیا کہ ان کا ایک آپریشن ہوگا اور اس کے بعد وہ خیریت سے گھر پر ہوں گی۔

انھوں نے لیان کو بتایا کہ وہ دباؤ کم کرنے کے لیے ان کی کھوپڑی کے ایک چھوٹے حصے کو نکال دیں گے اور انھوں نے مزید بتایا کہ وہ اس زخم کو سِیل کرنے کے لیے ایک نئی گلو کا استعمال کریں گے۔

لیان نے بی بی سی کو بتایا کہ بدقسمتی سے انھوں نے زخم کو ٹھیک طریقے سے سِیل نہیں کیا اور وہ پھٹ گیا۔ ان کے مطابق ’جب زخم پھٹ گیا تو ایسے میں برین سے فلوئیڈ (مائع) میری گردن کے پیچھے سے بہنا شروع ہو گیا۔‘

انھوں نے بتایا کہ اگلے دن ان کا ہسپتال کا بستر ان کی ریڈ کی ہڈی کے مائع سے تر تھا۔ جب وہ واش روم کے لیے اٹھیں تو وہ گر گئیں اور ان کا کہنا ہے کہ فلوئیڈ فرش پر پھیل گیا۔ ایک نرس نے اس جگہ پر فرش گھیلا ہونے کا وارننگ سائن لگا دیا۔

لیان کا کہنا ہے کہ ان کی ماں ڈاکٹر الجامل کے پاس چلی گئیں کہ وہ ’آ کر مجھے دیکھیں تو مجھے پھر فوراً سرجری کے لیے لے جایا گیا۔‘

لیان کو ہسپتال میں کئی مہینے لگ گئے۔ انھیں اعصابی کیفیت سے گزرنے کے علاوہ گردن توڑ بخار ہو گیا۔ ڈاکٹر الجامل نے انھیں ’فور لُومبر پنکچر‘ لگانے کا حکم دیا مگر لیان کے میڈیکل نوٹ میں واضح لکھا ہے کہ انھیں یہ پنکچر نہیں لگانے چاہییں۔

لیان کو معلوم ہے کہ ان کے سرجن اس گوند کو ریسرچ ٹرائل یعنی تجرباتی بنیادوں پر استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق ’وہ مجھ پر تجربہ کر رہے تھے۔‘

ان کے مطابق ’سوائے تجربے کے، اس گوند کے استعمال کی کوئی اور وجہ نہ تھی۔ کسی چوہے کی طرح مجھ پر تجربہ کیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’انھیں میرے جسم پر مکمل اختیار تھا۔ وہ خدا بن کر میرے جسم کے ساتھ یہ سب تجربات کر رہے تھے اور این ایچ ایس نے بھی سات بار آپریشن کے لیے مجھے ان کے حوالے کیے رکھا۔‘

جب لیان نے عملے کو اپنی تشویش سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تو انھیں یہ بتایا گیا کہ ڈاکٹر الجامل نے ان کی زندگی بچائی ہے۔ انھیں یہ نہیں بتایا گیا کہ ڈاکٹر الجامل کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہیں اور یہ کہ بعد میں ان سے استعفیٰ لے لیا گیا۔

جب انھوں نے اس سے متعلق بی بی سی کی حالیہ تحقیق دیکھی تو انھیں یہ معلوم ہوا کہ وہ اس معاملے میں اکیلی نہیں ہیں۔

’میرا تو کیریئر تباہ ہو گیا ہے‘

لیان اب 33 برس کی ہو گئی ہیں۔ وہ اب مستقل درد میں مبتلا ہیں۔ انھیں چلنے کے لیے بیساکھیوں کی ضرورت پڑتی ہے اور ان کے جسم میں ایک ٹیوب ہے، جسے شنٹ کہتے ہیں، جو ان کے جسم کے ذریعے ریڑھ کی ہڈی کے فلوئیڈ کو کنٹرول کرتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اب سب کچھ بدل گیا ہے۔ پولیس افسر بننا میرا خواب تھا جس کی تعبیر اب ممکن نہیں رہی۔‘

’اب میں ایک جہد مسلسل میں ہوں۔ اب میرا کیریئر وہ نہیں جو میں نے خواب دیکھ رکھا تھا۔ وہ لائف سٹائل نہیں جو میں چاہتی تھی اور نہ میں اب بچوں کی ماں بن سکوں گی۔ کسی قصور کے بغیر مجھ سے بہت کچھ چھن گیا۔‘

لیان ان 100 مریضوں میں سے ایک ہیں جو یہ چاہتی ہیں کہ ان کے معاملے پر یہ جاننے کے لیے عام تحقیقات ہونی چاہیں کہ ڈاکٹر الجامل نے انھیں حقیقت میں کیا نقصان پہنچایا ہے۔

انھیں اور دیگر مریضوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ مگر وہ یہ چاہتی ہیں کہ ہیلتھ بورڈ کا احتساب ممکن ہو سکے تاکہ آئندہ کوئی سرجن کسی کو ایسا نقصان نہ پہچنا سکے۔

ان کا کہنا ہے کہ انھیں بی بی سی سکاٹ لینڈ کی یہ سٹوری دیکھ کر معلوم ہوا کہ انھوں نے اور بھی مریضوں کو نقصان پہنچایا ہے۔

ان کے مطابق ’پہلے میرا یہ خیال تھا کہ میں ہی اکیلی ہوں جس کے ساتھ ایسا ہوا ہے مگر مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ 99 اور مریضوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کیسے اپنے ہاتھوں اتنے لوگوں کا خون کر کے وہ اب گھر جا رہے ہیں۔‘

’وسل بلور‘

اندورنی اور بیرونی تفتیش کے پیش نظر ڈاکٹر الجامل کو این ایچ ایس ٹائیسائیڈ نے سنہ 2013 میں معطل کر دیا اور اس کے بعد وہ کام کے لیے لیبیا چلے گئے۔

وہ تین لوگ جنھوں نے ڈاکٹر الجامل کے ساتھ کام کیا ہے، انھوں نے پہلی بار بی بی سی سے بات کی ہے۔

مارک، فرضی نام، کا کہنا ہے کہ وہ اس وجہ سے اب اس معاملے پر بول رہے ہیں کہ انھیں یہ ڈر ہے کہ ابھی بھی ہیلتھ بورڈ نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔

ان کے مطابق ’میں نے اس وقت بھی ان تحفظات کا اظہار کیا تھا مگر مجھے چپ کرا دیا گیا۔ مجھے اس کی شرمندگی بھی محسوس ہوتی ہے کہ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکا مگر میں اس وقت بہت جونیئر تھا۔‘

’ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ ہم پھر کبھی بھی اپنی ’ٹریٹنی شپ‘ جاری نہیں رکھ سکیں گے۔‘

ان کے مطابق نرسز، سینیئر سرجنز اور مینیجرز سنہ 2009 سے اس سے متعلق جانتے ہیں کہ کیسے ڈاکٹر الجامل اپنے نجی کام کے لیے ہسپتال سے باقاعدگی سے غیر حاضر رہتے تھے جبکہ اس وقت انھیں سرکاری ہسپتال میں مریضوں کے آپریشن کرنے ہوتے تھے۔

مارک کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر الجامل باقاعدگی سے جونیئر ڈاکٹرز کو بغیر نگرانی کے آپریشن کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔

ان کے مطابق ’ہسپتال میں عدم موجودگی اور کسی مریض پر کسی جونیئر کو کام کرنے دینا سنگین لاپرواہی ہے۔‘

مارک کا کہنا ہے کہ ’ڈونڈی میں این ایچ ایس ٹائیسائیڈ کافی عرصے تک اس طرح کی صورتحال پر پردہ ڈالتی رہی۔ یہ سب خبریں بورڈ تک پہنچتی رہیں اور وہ سب یہ جانتے ہیں۔‘

ناقابل احتساب

مارک کو یاد ہے کہ ایک موقع پر جب جونیئر سرجن نے سرجری کرتے ہوئے غلطی سے ڈاکٹر الجامل کے مریض کی ریڑھ کی ہڈی کاٹ دی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ ریڑھ کی ہڈی کا فلوئیڈ بہہ رہا تھا اور ان جونیئر سرجن کو ایک اور سینیئر سرجن کی تلاش کے لیے فوراً بھیجا گیا۔ وہ مریض ہمیشہ کے لیے معذور ہو گیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے سرجن نے ان مریضوں کے ساتھ یہ کیا۔ ’میرے خیال میں انھوں نے مریضوں کو بہت سنگین نقصان پہنچایا۔ مگر پھر بھی ان جرائم پر پردہ ڈالا گیا لہٰذا اب حکام کو ان تمام معلومات کی تحقیقات کرنی چاہیے۔‘

ان کے مطابق جب تک یہ کلچر تبدیل نہیں ہوتا تو صرف زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں ہوگا۔ ’مریضوں کی حفاظت کے لیے سب سے پہلے کلچر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔‘

ان تین سرجنز کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر الجامل بڑی رعونت سے اور محض پیسوں کی بچت کے چکر میں ایکس ریز کے استعمال کی اجازت تک نہیں دیتے تھے۔

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایکسرے کا سہارا نہ لینے کی وجہ سے ڈاکٹر الجامل نے کم از کم 70 مریضوں کی ریڈ کی ہڈی غلط جگہ سے آپریٹ کی جس سے وہ مستقل طور پر معذور ہو گئے۔

مارک کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر الجامل کو اس وجہ سے بھی کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا تھا کیونکہ وہ ریسرچ پروجیکٹس کے ذریعے ڈپارٹمنٹ کے لیے بہت فنڈنگ لے کر آتے تھے۔ ان ریسرچ پروجیکٹس میں سے متعدد عجیب اور قابل اعتراض قسم کے تھے۔

این ایچ ایس ٹائیسائیڈ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ’پروفیسر الجامل کے مریضوں کے ان تحفظات پر بات کرنے کے لیے این ایچ ایس ٹائیسائیڈ کے میڈیکل ڈائریکٹر اور چیف ایگزیکٹو نے سیکریٹری کابینہ اور مقامی ٹائسائیڈ ایم ایس پیز سے اپریل میں ملاقات کی۔‘

ان ملاقاتوں میں یہ طے ہوا ہے کہ این ایچ ایس ٹائیسائیڈ سکاٹ لینڈ کی حکومت کے ساتھ مل کر اگلے لائحہ عمل سے متعلق کام کرے گا۔ یعنی ایک ایسے عمل کے ذریعے جو ہیلتھ بورڈ اور حکومت سے آزاد ہو تاکہ فرداً فرداً ان مریضوں کی مدد یقینی بنائی جا سکے۔

ترجمان کے مطابق این ایچ ایس ٹائیسائیڈ پُرعزم ہے کہ وہ جو کچھ بھی ممکن ہو سکا ان مریضوں کے لیے وہ کرے گا۔

ان کے مطابق ’ہم انفرادی مریضوں سے متعلق کوئی تبصرہ نہیں کر سکے اور رازداری کر برقرار رکھنے کے لیے ان کے علاج سے متعلق بھی تفصیلات شیئر نہیں کر سکتے۔ تاہم ہم لیان سدرلینڈ کو یہ دعوت دیں گے کہ وہ این ایچ ایس ٹائیسائیڈ کی مریضوں سے رابطے والی ٹیم سے رابطہ قائم کریں تاکہ ان کے تحفظات پر عمل جلد یقینی بنایا جا سکے۔‘