زمانے کی اپنی چال ہے اور چال کی چاپ وہی سُنائی دیتی ہے جن پیروں میں جان ہو اور جان بھی ایسی کہ نشان باقی رہیں۔ افسانے حقیقت بنیں گے اور خواب سے پہلے تعبیر ہو گی، شعر میں لفظوں کی جگہ اعداد بولیں گے، روح کے بنا جسم اور دل بغیر احساس، مصنوعی ذہن نقلی شخصیتیں بنائیں گے اور کمپویٹر گفتگو کریں گے، ہو بہو آپ کا لہجہ ہو گا، آپ کا چہرہ ہو گا اور آپ کی شخصیت ہو گی۔
لفظ باتیں کریں گے مگر باتوں سے خوشبو نہ آئے گی، لب ہلیں گے مگر چاشنی نہ ہو گی، آنکھیں ہوں گی مگر عکس نہ ہو گا۔۔۔ محبوب محبت کے بغیر، چاہت بغیر ضرورت اور عشق بنا عین ہو گا۔۔۔ بھلا اس دُنیا میں اور کیا کام ہو گا؟ جناب! زمانہ اپنی چال چل گیا ہے۔
ابھی گذشتہ ہفتے ٹی وی پر خبریں پڑھتا اصلی سے بہتر اطلاعات دیتا مگر نقلی اینکر دیکھا۔ گوشت پوست کا انسان سوال پوچھ رہا تھا اور روبوٹ درست جواب دے رہا تھا یعنی روبوٹ میں فیڈ کی گئی اطلاعات یا گوگل سرچ کا انجن دھڑا دھڑ زبان کا انجن چلا رہا تھا۔
انسانی ذہن کے موافق رفتار روبوٹ کے دماغ کی اصلیت پر کوئی شُبہ بھی ظاہر نہ کر رہی تھی۔ ابھی ورطۂ حیرت میں تھے کہ ایک خبر نے چونکا دیا، روبوٹ ریسٹورنٹ میں کام کریں گے، آرڈر لیں گے، ڈیلیور کریں گے اور تن دہی سے کام سرانجام دیں گے، نہ چھٹی کی جھنجھٹ نہ ہی کوئی کِل کِل۔۔۔ نہ تنخواہ کا مسئلہ نہ کوئی میڈیکل اور دیگر لوازمات۔
جس تواتر سے مصنوعی ذہانت کی اصل مصنوعات منظر عام پر آ رہی ہیں خوف کا احساس ہوا کہ کیا انسان بھی اپنی عقل استعمال کر پائیں گے لیکن پھر طفل تسلی دی کہ اس ذہانت کے پیچھے بھی تو اصل دماغ انسان کا ہی ہے بھلا اُس کو کون پچھاڑ سکتا ہے۔
ایک خبر نظر سے گزری کہ ایک روبوٹ میں فیڈ کردہ پروگرام خود سائنسدان کی جان لے گیا کیونکہ روبوٹ کے خودکار نظام نے کنٹرول ہاتھ میں لے لیا اور یوں پروگرامر اُسی روبوٹ کے ہاتھوں کام آیا۔ یہ خبر چونکا دینے والی بالکل نہ لگی کیونکہ ہمارے ہاں حقیقتاً ایسا ہو چکا۔
وطن عزیز میں یہ تجربہ یوں ہوا کہ سیاسی روبوٹ تیار کرنے والوں نے یہاں بھی خودکار نظام کا بٹن دبا دیا اور یوں اب سیاسی روبوٹ گذشتہ تقریبا ڈیڑھ سال سے ’پروگرامر‘ کو ناکوں چنے چبوا رہا ہے۔
اب جب دُنیا چیٹ جی پی ٹی اور مصنوعی ذہانت کے شاہکار تجربوں سے مستفیض ہو رہی ہے، ہم دُنیا سے اس معاملے میں کہیں آگے نکل چکے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے تیار شدہ اینکر و صحافی اب منظر عام پر آ رہے ہیں جبکہ ہم گذشتہ کم از کم دو دہائیوں سے الیکٹرانک اور پرنٹ میں اس سے کہیں پہلے مصنوعی ذہانت کے طور پر ’پروگرامڈ‘ صحافت کا ’فائدہ‘ اُٹھا رہے ہیں اور مسلسل فیکٹریوں میں ایسے دماغ تیار کر رہے ہیں جو فیڈڈ اطلاعات دے کر مخصوص نقطہ نظر کے لیے مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔
اب جب چیٹ جی پی ٹی کے تجربے ہو رہے ہیں ہمارے ہاں ایسے دانشور مخصوص حالات کے پیش نظر تیار کرنے کی صلاحیت موجود ہے جن کا نقطہ نظر مذہب سے لے کر عورت اور سماج سے لے کر معیشت تک صرف فیڈڈ پروگرام کے گرد گھومتے ہیں اور ہمارے ہاں مقبول بھی ہیں۔
وطن عزیز میں فیکٹریاں تو دور کی بات ایسی نرسریاں اور گملے تک موجود ہیں جہاں سیاسی نظریے، بیانیے اور نقطہ نظر کی خاص عینکیں اور خاص لب و لہجے تک تراشے جاتے رہے۔
خارجہ پالیسی سے لے کر معاشی پالیسیوں اور نگران حکومتوں سے لے کر منتخب حکومتوں یہاں تک کہ نگران وزیراعظم سے لے کر منتخب وزرائے اعظم تک تراشے گئے اور انھیں مقبولیت کا درجہ بھی ملتا رہا۔ ایسے ایسے منصف تخلیق کیے گئے کہ جن کی ذہانت اوطاق میں رہی اور ’خودکار انصاف‘ دستیاب ہوتا رہا۔ ان مصنوعی منصفوں نے کبھی کسی کو سرِ دار چڑھایا اور کبھی کسی کو سر بازار۔
مصنوعی ذہانتوں، روبوٹوں اور نقلی ذہنوں کے اس دور میں ہم نے نقلی نظریے، نقلی چہرے، نقلی راہنما، جعلی ڈاکٹر، جعلی پائلٹ، مصنوعی اینکر، نقلی صحافی و دانشور اور چھوٹے دماغوں کی بڑی شخصیتیں تو بنائیں مگر اصلی ذہن رکھنے والوں کو اصل مقام نہیں دے سکے۔
اب جب ملک میں نگران حکومتوں کی تشکیل کا وقت آ رہا ہے تو نہ جانے کیوں میرا دھیان نقلی ذہانت کے شاہکار روبوٹس کی جانب جا رہا ہے۔ کیوںکہ اس بار روبوٹس کو نگران حکومتیں چلانے کا اختیار دے دیا جائے کیونکہ اس بارے آئین کی کوئی رکاوٹ موجود نہیں۔