’سالم نے میری بازیابی کے لیے بھرپور جدوجہد کی، اب وہ خود جبری گمشدگی کا شکار ہو گیا ہے‘

’صبح چار بجے وردی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار سالم بلوچ کے گھر میں داخل ہوئے۔ پہلے انھوں نے گھر کی تلاشی لی۔ اس کے بعد وہ سالم کو اٹھا کر لے گئے۔‘

’گھر والوں کے پوچھنے پر اہلکاروں نے کہا وہ پوچھ گچھ کے لیے لے کر جا رہے ہیں، پوچھ گچھ کے بعد ان کو چھوڑ دیا جائے گا۔ لیکن اب تک معلوم نہیں ہو رہا ان کو کہاں منتقل کیا گیا ہے۔‘

یہ کہنا ہے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع کیچ سے مبینہ طور پر لاپتہ ہونے والے سالم بلوچ کے چچا زاد بھائی بیبگر امداد بلوچ کا۔

بیبگر بلوچ خود بھی ایک ایسے ہی تجربے سے گزر چکے ہیں۔

بیبگر امداد بلوچ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میری اغوا نما گرفتاری کے بعد سالم بلوچ نے میری بازیابی کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔ ان کی اور دوسرے بلوچ طلباء کی کوششوں سے میں تو بازیاب ہوا لیکن اب سالم خود جبری گمشدگی کا شکار ہوگئے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آنے کے بعد وہ اور سالم بلوچ پڑھائی چھوڑ کر آبائی علاقے واپس آنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’تاحال ہم نے ایف آئی آر کے اندراج کے لیے پولیس سے رابطہ نہیں کیا کیونکہ ہم اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔‘

جب ضلع کیچ میں پولیس کے سربراہ محمد بلوچ سے رابطہ کیا گیا اور ان سے پوچھا گیا کہ پولیس نے اس سلسلے میں کیا تحقیقات شروع کی ہیں تو انھوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔

دوسری جانب بلوچستان کے وزیر داخلہ میرضیاء اللہ لانگو سے جب اس واقعے کے بارے میں موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کیس کے بارے میں معلومات حاصل کریں گے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سالم بلوچ کی گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ انھیں فوری رہا کیا جائے یا کسی سول عدالت میں پیش کیا جائے۔

’سالم کو ان کے گھر والوں کے سامنے سے سکیورٹی اہلکار اٹھا کر لے گئے‘

بیبگر بلوچ نے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 3اور 4 جولائی کی درمیانی شب وردی اور بغیر وردی والے سکیورٹی فورسز کے اہلکار سالم کے گھر میں داخل ہوئے اور ان کو اپنے ساتھ لے گئے۔

بی بی سی نے سالم بلوچ کی جبری گمشدگی کے الزامات پر فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر سے رابطے کی کوشش کرنے کے علاوہ واٹس ایپ پر پیغامات بھی بھجوائے تاہم تاحال جواب موصول نہیں ہوا۔

بیبگر بلوچ کا کہنا تھا کہ ’کسی کی گمشدگی سے اس کے خاندان کے لوگ جس اذیت سے دوچار ہوتے ہیں اس کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہوتے۔‘

’سالم کی والدہ، بہنیں اور ہمارے خاندان کے تمام افراد ان کی جبری گمشدگی کے بعد ایک تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہیں۔‘

بیبگر بلوچ نے کہا کہ ’ہمارا مطالبہ بس یہی ہے کہ اگر سالم پر کوئی الزام ہے تو ان کو عدالت میں پیش کیا جائے اور اگر وہ بے گناہ ہیں توان کو رہا کیا جائے۔ اگر کوئی ملزم ہے اور ان کے خلاف شہادتیں ہیں، تو ان کو عدالتوں میں پیش کیا جائے۔‘

انھوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ لمحہ اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے جب سالم نے گزشتہ سال مئی میں پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں میری اغوا نما گرفتاری کو ناکام بنانے کے لیے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالنے سے گریز نہیں کیا۔‘

’لیکن جب سکیورٹی اہلکار مجھے اٹھا کرلے گئے تواس کے بعد انھوں نے میری بازیابی کے لیے بھرپور تحریک چلائی۔‘

’ان کی اور دوسرے بلوچ طلباء کی کوششوں سے میں تو بازیاب ہوا لیکن اب سالم خود جبری گمشدگی کا شکار ہو گئے ہیں۔‘

سالم بلوچ کون ہیں؟

سالم بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ایران سے متصل ضلع کیچ کے علاقے آبسر سے ہے۔

بیبگربلوچ نے بتایا کہ 23 سالپ سالم نے میٹرک تک تعلیم ایک نجی ہائی اسکول سے حاصل کی اور پھر عطا شاد ڈگری کالج تربت سے گریجوئیشن کے بعد ان کو سکالرشپ پر پنجاب یونیورسٹی لاہور میں داخلہ مل گیا۔

تاریخ اور ادب سے دلچسپی کی وجہ سے انھوں ایم اے کے لیے شعبہ تاریخ کا انتخاب کیا۔

بیبگر بلوچ نے بتایا کہ وہ نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں انگریزی ادب کے طالب علم تھے اور گزشتہ سال مئی کے مہینے میں اسلام آباد سے لاہور گئے تاکہ چچازاد بھائی سالم کے ساتھ عید منانے کے لیے اکھٹے تربت جاؤں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں سو رہا تھا کہ مجھے خفیہ اداروں کے اہلکار لے جانے کے لیے آئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ‘سحری کے بعد کا وہ لمحہ بالکل میرے آنکھوں کے سامنے ہے جب میری اغوا نما گرفتاری کو ناکام بنانے کے لیے سالم نے ہر ممکن کوشش کی ۔لیکن جب وہ اس میں ناکام ہوئے تو وہ اس گاڑی تک بھی پہنچ گئے جس میں اہلکار مجھے بٹھا کرلے گئے۔‘

’سالم دھمکیوں اور نازیبا الفاظ کے باوجود ویڈیو بناتے رہے جس کامقصد یہ تھا کہ اس ویڈیو کو شہادت کے طور پر پیش کیا جاسکے۔‘

’جب بازیابی کے بعد سالم نے مجھے دیکھا توان کی خوشی کی انتہا نہیں رہی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بعد میں ’ہم دونوں کے لیے پنجاب اور اسلام آبادمیں تعلیم حاصل کرنا مشکل ہوگیا کیونکہ ہم دونوں اپنے آپ کو غیرمحفوظ محسوس کر رہے تھے۔ ہم اپنی تعلیم مکمل نہیں کر سکے اور ہمیں تعلیمی اداروں کو چھوڑنا پڑا۔‘

بیبگر بلوچ نے بتایا کہ ’میری گرفتاری کے بعد وہ واپس تربت آئے اور اپنے خاندان کو معاشی سہارا دینے کے لیے چھوٹا موٹا کام شروع کیا۔‘

دوسری جانب بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا کہنا ہے کہ بلوچستان سے لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

تنظیم کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ رواں سال کے چھ ماہ کے دوران مجموعی طور پر ایک سو 66 افراد کے نام تنظیم کے ساتھ لاپتہ افراد کے طور پر رجسٹرہوئے جن میں 27 طالب علم تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے 23افراد اب تک بازیاب ہوئے ہیں۔

تنظیم کی جانب سے لوگوں کی جبری گمشدگی کا الزام سکیورٹی اداروں پر عائد کیا جاتا رہا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آفس پاکستان تربت ریجنل آفس کے ترجمان کے بیان میں سالم بلوچ کی مبینہ جبری گمشدگی کو ایک غیرآئینی اور غیر انسانی فعل قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’سالم بلوچ کا اب تک کوئی قابل اعتراض عمل سامنے نہیں آیا اور نہ ہی ان کا کسی غیرقانونی اورک العدم تنظیم سے کوئی تعلق ہے۔‘

سرکاری حکام کا کیا کہنا ہے؟

جب بلوچستان کے وزیرداخلہ میرضیاء اللہ لانگو سے سالم بلوچ کی جبری گمشدگی کے حوالے سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک ہونے کی وجہ سے انھیں اس کیس کے بارے میں علم نہیں ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’لاپتہ افراد کے حوالے سے لوگ بھی اکثر تعاون نہیں کرتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’لوگوں کا رابطہ اور تعلق کالعدم عسکریت پسند تنظیموں سے بھی ہوتا ہے۔ وہ کالعدم تنظیموں کے لیے کام بھی کرتے ہیں لیکن ان کو لاپتہ قرار دیا جاتا ہے تاکہ ملک کو بدنام کیا جائے۔‘

’ہو سکتا ہے کہ ایسے لوگوں کو تفتیش کے لیے سیکورٹی کے اداروں نے اٹھایا ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہیومن رائٹس کمیشن تفتیشی ادارہ نہیں ہے کہ کسی کو بے گناہ قرار دے۔ ہیومن رائٹس کمیشن کے بیان دینے سے یا کسی کے یونیورسٹی میں پڑھنے سے ضروری نہیں ہے کہ وہ دہشت گرد نہ ہو۔‘

’یہ بات کسی کے بیان سے ثابت نہیں ہوتی بلکہ تحقیقاتی اداروں کی تحقیق سے ثابت ہوتی ہے اس لیے ہمیں تفتیش کے عمل کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔‘

ماضی میں ایک اعلی سکیورٹی اہلکار نے بی بی سی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس معاملے پر موقف دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’مسنگ پرسن کا معاملہ بنیادی طور پر ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس کے تحت دشمن پاکستان کو بدنام کرنے اور عوام کو حکومتی اداروں کے خلاف کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘

انھوں نے دعوی کیا تھا کہ ’حکومت کے قائم کردہ کمیشن کی تحقیقات کے مطابق بہت سے لوگ دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہو جاتے ہیں اور انکے گھر والوں کو خبر بھی نہیں ہوتی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف چند لوگوں کو امن قائم رکھنےکیلئے گرفتار کرتے ہیں، جن کو تفتیش کے بعد بے قصور ہونے کی صورت میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔‘