اہم خبریں

سائیکلون بپر جوائے: اس سمندری طوفان سے پاکستان کے کون سے علاقے متاثر ہو سکتے ہیں؟

بپر جوائے نامی سمندری طوفان انتہائی شدت اختیار کرنے کے بعد تقریبا سات کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پاکستان اور انڈیا کے ساحلی علاقوں کی جانب رواں دواں ہے۔

پاکستان کے میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ شمال کی جانب بڑھتا ہوا یہ طوفان اب کراچی سے تقریبا 600 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے جو 15 جون کی سہ پہر تک سندھ میں کیٹی بندر اور انڈیا میں گجرات کے علاقوں سے گزرے گا۔

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس طوفان کے مرکز میں اس وقت ہوا کی رفتار 200 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے جبکہ 35 سے 40 فٹ بلند سمندری لہریں بھی اس کے ہمراہ ہیں۔

محکمے کے مطابق موجودہ موسمی حالات، جن میں سمندر کی سطح کا درجہ حرارت شامل ہے، اس طوفان کی شدت کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔

محکمہ موسمیات کے ساتھ ساتھ این ڈی ایم اے کی جانب سے بھی تمام متعلقہ اداروں کو الرٹ رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔

بپر جوائے سے کون کون سے علاقے متاثر ہو سکتے ہیں؟

توقع کی جا رہی ہے کہ 14 جون کی صبح تک یہ طوفان شمال کی سمت میں چلتا رہے گا جس کے بعد یہ شمال مشرق کی جانب مڑے گا اور 15 جون کو پاکستان میں کیٹی بندر اور انڈیا میں گجرات کے ساحل سے گزرے گا۔

بیان کے مطابق اس طوفان کی ممکنہ آمد کے ساتھ ہی سندھ کے جنوب مشرقی علاقوں میں ہوا کے جھکڑ اور طوفانی بارش کا امکان ہے جبکہ 13 سے 17 جون تک ٹھٹھہ، سجاول، بدین، تھرپارکر، میر پور خاص اور عمر کوٹ کے اضلاع میں 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک کی تیز ہوائیں چل سکتی ہیں۔

14 سے 16 جون تک کراچی، حیدر آباد، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو اللہ یار، شہید بینظیر آباد اور سانگھڑ میں بھی بارش اور تیز ہواؤں کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ این ڈی ایم اے نے خبردار کیا ہے کہ بدین اور ٹھٹھہ کے ساحلی علاقوں میں بھی سیلابی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔

وزیر اعلی سندھ کے ترجمان کے مطابق اب تک بدین کے زیرو پوائنٹ کے گاوں بھگڑا میمن سے لوگوں کا انخلا کیا گیا ہے جبکہ شاہ بندر کے جزیروں سے رات دو ہزار لوگوں کو نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا ہے۔

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شاہ بندر، جاتی اور کیٹی بندر میں سمندر کے نزدیکی دیہات سے 50000 لوگوں کا انخلا ہو گا۔

انڈیا میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے وفاقی ادارے نے خبردار کیا ہے کہ کچ، دوارکا، پوربندر، جام نگر، موربی، جونا گڑھ اور راجکوٹ کے اضلاع متاثر ہوں گے۔

چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق بپر جوائے 1999 میں آنے والے سمندری طوفان کا ایکشن ری پلے ہے۔

اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ طوفان اسی روٹ پر سفر کر رہا ہے جس پر 1999 والے طوفان نے سفر کیا تھا۔

’اس کی اس وقت رفتار بھی وہ ہی ہے جو کہ 1999 میں تھی اور توقع کی جا رہی ہے کہ یہ طوفان کیٹی بندر سے ٹکرائے گا۔ 1999 والا طوفان بھی کیٹی بندر سے ٹکرایا تھا۔‘

ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق بپر جوائے بھی تقریبا اسی مقام پر وجود میں آیا جہاں 1999 والا طوفان وجود میں آیا تھا۔ ’ہمیں 1999 والے اور اب کے طوفان میں بہت سے مماثلتیں ملتی ہیں۔‘

واضح رہے کہ کہا جاتا ہے کہ 1999 والا سمندری طوفان اپنی تاریخ کا سب سے بدترین طوفان تھا۔ اس طوفان کے بعد اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ٹھٹھہ اور بدین کو ناقابل تلافی نقصاں پہنچا تھا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت 189 لوگ ہلاک جبکہ 150 لاپتہ ہوئے تھے اور 138,000 گھر تباہ ہوئے تھے۔ اس طوفان کی وجہ سے 256,000 ایکٹر زرعی زمین تباہ ہوئی تھی اور متاثرین کو کافی عرصے تکعارضی ریلیف کیمپوں میں رہنا پڑا تھا۔

معظم خان 1999 میں میرین اینڈ فشریز ڈیپارٹمنٹ میں ڈائریکٹر جنرل کی خدمات انجام دے رہے تھے اور اس وقت کراچی میں تعنیات میں تھے۔

ان کو 1999 والے سمندری طوفان کے واقعات ابھی بھی یاد ہیں۔ وہ بیپر جوائے کو بھی سیٹلائیٹ کے ذریعے سے مانیٹر کر رہے ہیں۔

معظم خان بتاتے ہیں کہ 1999 کے سمندری طوفان کی لہریں 28 فٹ اونچی تھیں جبکہ ’آج اس وقت تک جو کچھ سامنے آیا ہے اس کے مطابق لہریں اس وقت 30 سے 40 فٹ اونچی ہیں۔‘

1999 میں جب طوفان پاکستان کے ساحلی علاقوں سے ٹکرایا تو حفاظتی اقدامات کی کمی کی وجہ سے انڈس ڈیلٹا کے علاقے سے لے کر بدین تک بہت زیادہ نقصان ہوا تھا۔

معظم خان کا کہنا تھا کہ ’وہ طوفان مئی میں آیا تھا جب کہ یہ جون میں ہے۔ تاریخوں کا معمولی فرق ہے مگر میں سیٹلائیٹ کے ذریعے سے دیکھ رہا ہوں کہ یہ طوفان ان ہی راستوں پر چل رہا ہے جن راستوں پر 1999 کا طوفان چلا تھا۔‘

معظم خان کا کہنا تھا کہ 1999 کے طوفان نے پاکستان کو ماحولیاتی، معاشی، معاشرتی طور پر ناقابل تلافی نقصاں پہنچایا تھا جس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔

’یہ سمندری طوفان انتہائی خطرناک ہوتے ہیں، اگر ان سے بچاؤ کے لیے قبل از وقت مناسب اقدامات نہ ہوں تو نقصانات بڑھ سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اس وقت میرا خیال ہے کہ حکام اور لوگ ذہنی طور پر اس طوفان سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔‘

’پیشگی اطلاعات کی وجہ سے تیاری کرنا آسان ہوا ہے جبکہ 1999 میں بروقت اطلاعات دستیاب نہیں تھیں۔‘

بپر جوائے سے کیا نقصان ہو سکتا ہے؟

میٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق بپر جوائے کی وجہ سے تیز رفتار ہوائیں کچی عمارات اور سولر پینل جیسی اشیا کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ پاکستان کے میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے الرٹ کے بعد سول ایوی ایشن اتھارٹی نے کراچی ایئرپورٹ پرپیشگی اقدامات کے احکامات جاری کردیے۔

سی اے اے کے شعبہ ایئرسائیڈ نے متعلقہ اداروں کو الرٹ کردیا ہے اور تجویز کیا ہے کہ ہلکے وزن کے ہوائی جہازوں کو محفوظ مقامات پرمنتقل کیا جائے یا کسی مظبوط چیز سے باندھا جائے اور رن ویز اور ٹارمک ایریا کے آس پاس اشیا کو تصادم کے خدشے کا باعث محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے۔

طوفان کی آمد کی وجہ سے کیٹی بندر کے اردگرد آٹھ سے 12 فٹ بلند سمندری لہریں متوقع ہیں جو نزدیکی علاقوں کو زیر آب لا سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ این ڈی ایم اے نے خبردار کیا ہے کہ بدین اور ٹھٹھہ کے ساحلی علاقوں میں بھی سیلابی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔

سمندری طوفان کی وجہ سے بجلی، انٹرنیٹ کا نظام بھی متاثر ہو سکتا ہے اور این ڈی ایم اے نے کے الیکٹرک کو کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی ہے۔

اس کے علاوہ تیز رفتار ہواؤں کی وجہ سے بجلی کے کھمبے یا درخت اکھڑنے کاخدشہ موجود ہوتا ہے جو سڑکوں اور راستوں کو بند کر سکتے ہیں۔

تیز رفتار ہوائیں کھڑی فصلوں کو بھی کافی نقصان پہچا سکتی ہیں جبکہ طوفان کی وجہ سے آنے والی بارشوں سے سیلابی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔

این ڈی ایم اے نے اسی لیے تجویز دی ہے کہ شہری حکومت ندی نالوں اور شہر میں انڈر پاس کی صفائی اور نکاسی آب کا انتظام کرے۔

واضح رہے کہ 17 جون تک ماہی گیروں کو کھلے سمندر میں نہ جانے کی تلقین کی گئی ہے۔

کمشنر کراچی نے شہریوں کے سمندر کی طرف جانے، مچھلی پکڑنے اور نہانے پر 11 جون سے لے کر طوفان تھمنے تک پابندی عائد کی ہے۔

’بپر جوائے‘ کا مطلب کیا ہے؟

سائیکلون کا نام ’بپر جوائے‘ بنگلہ دیش کی جانب سے رکھا گیا ہے جس کا بنگالی میں مطلب تباہی یا قدرتی آفت ہے۔

پاکستان کی طرح انڈیا کے محکمہ موسمیات کی جانب سے بھی پیشگوئی کی جا چکی ہے کہ یہ سمندری طوفان اگلے کچھ گھنٹوں میں ’انتہائی شدید سائیکلونک طوفان‘ میں بدل سکتا ہے۔

انڈیا کے محکمہ موسمیات کے مطابق آئندہ چند دنوں میں اس کی وجہ سے بحیرہ عرب میں ہوائیں 155 سے 165 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی ہیں اور آگے بڑھتے ہوئے ہوا کی رفتار 190 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ سکتی ہے۔

انڈین محکمہ موسمیات کے مطابق سمندری طوفان بِپرجوئے دھیرے دھیرے مضبوط ہو رہا ہے اور آنے والے دنوں میں گجرات کے ساحل کے بہت قریب آ جائے گا۔

سائیکلون یا سمندری طوفان کیسے بنتا ہے؟

سائیکلون گرم ہوا کی وجہ سے جنم لیتے ہیں اور ایک گول دائرے کی شکل میں آگے بڑھتے ہیں۔ ایسے طوفان اپنے ساتھ کافی تیز ہوائیں اور بارش لاتے ہیں جو سمندروں کے گرم پانی کے اوپر جنم لے کر آگے بڑھتے ہوئے شدت اختیار کرتے جاتے ہیں۔

جب سمندر کی گرم ہوا اوپر اٹھتی ہے تو اس کی حدت میں کمی آتی ہے اور یہ بادل کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اسے زیادہ دباؤ کا علاقہ کہا جاتا ہے۔

جیسے جیسے یہ ہوا بلند ہوتی ہے سمندری سطح کے قریب ہوا میں کمی ہوتی ہے۔ اسے کم دباؤ کا علاقہ کہتے ہیں۔

اس کم دباؤ والے علاقے کی جانب خلا کو پُر کرنے کے لیے اور ہوا حرکت میں آتی ہے جو گرم ہو کر ایک گول دائرے کی صورت میں گھومتی ہے۔

ایسے سمندری طوفان جو گھومتے ہیں، ان کا ایک مرکزی نقطہ ضرور ہوتا ہے۔ اسے طوفان کی آنکھ یعنی ’آئی آف دی سٹورم‘ کہا جاتا ہے جو پرسکون حصہ ہوتا ہے۔

یہاں ہوا کا دباؤ کم ہوتا ہے اور اسی نقطے کے گرد طوفان گھومتا ہے۔

سمندری طوفان تباہ کن کیوں ہوتے ہیں؟

پانی کی سطح پر سفر کے دوران سمندری طوفان کی شدت بڑھتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طوفان کے اوپر موجود گرم ہوا ایندھن کا کام کرتی ہے۔

جیسے جیسے یہ گرم ہوا بلند ہوتی ہے اس کی جگہ متبادل ہوا لے لیتی ہے اور اسی سے طوفان یا سائیکل بنتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ کئی سمندری طوفانوں کا حجم بڑھتا جاتا ہے۔

تاہم جب یہ سمندری طوفان زمین کے قریب پہنچتے ہیں تو ان کی شدت میں کمی آتی ہے کیوں کہ وہ گرم پانی پر سفر نہیں کر رہے ہوتے اور اسی لیے ان کا ایندھن کم ہوتا جاتا ہے۔

اس کے باوجود یہ طوفان تیز رفتار ہواؤں اور بارش سے کافی نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

تاہم یہ پیشگوئی کرنا کافی مشکل ہوتا ہے کہ سمندری طوفان کتنا طاقتور ہو گا اور زمین کے کس حصے سے ٹکرائے گا۔

ان کی سمت کا تعین کیا جا سکتا ہے اور وقت سے پہلے تیاری ان کے اثرات سے نمٹنے میں مدد فراہم کر سکتی ہیں۔

ایسے علاقے جو ساحل کے قریب ہوں، وہاں عمارات کی تعمیر میں اس بات کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ سمندری طوفان سے ان کو زیادہ نقصان نہ ہو۔

ایسے ہی ان علاقوں میں سائرن کے ذریعے مقامی افراد کو خبردار کیا جا سکتا ہے۔ چند ممالک میں شہریوں کو تاکید کی جاتی ہے کہ وہ ضروری سامان پہلے سے ہی خرید کر رکھ لیں جس میں خوراک، پانی اور طبی امداد کا سامان شامل ہوتا ہے۔