اہم خبریں

زیلینڈیا: بحر الکاہل کے پانیوں میں ڈوبا ’آٹھواں براعظم‘ جسے ڈھونڈنے میں 375 سال لگے

زیلینڈیا کو ماضی میں ایک خیالی بر اعظم جانا جاتا تھا۔ کلاسیکی یونانیوں کے مطابق اس خیالی بر اعظم کو علم ہندسہ کے اصولوں کی بنیاد پر دنیا کے دوسری جانب ہونا چاہیے تھا۔

ہالینڈ کے مہم جو ایبل تسمان نے 1642 میں ایک نئی سرزمین کو ڈھونڈا لیکن یہ سرزمین جزائر کا مجموعہ تھی جسے اب ہم نیوزی لینڈ کے نام سے جانتے ہیں تاہم جس کی تلاش میں ایبل تسمان تھے اس سے انھیں یہ بہت ہی چھوٹا لگ رہا تھا۔

اور پھر اس بات کی تصدیق کرنے میں 375 سال لگ گئے کہ زیلینڈیا خیالی نہیں بلکہ حقیقتاً وجود رکھتا تھا۔

پہلی نظر ڈالیں تو گویا یہ پورا کا پورا بر اعظم آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا تقریباً 94 فیصد حصہ زیر آب موجود ہے۔

اب ایک نیا مطالعے میں زیلینڈیا کا حتمی نقشہ مکمل کرنے میں کامیابی کا دعویٰ کیا گیا ہے جسے ماویوی (قدیم مقامی باشندے) شمالی علاقے کے طور پر جانتے تھے۔

سائنسی تحقیقی ادارے جی این ایس سائنس کے سائنسدانوں نے زیلینڈیا کی حدود کا ایک نیا تفصیلی نقشہ بنایا ہے جسے ’ٹکٹونکس‘ میگزین میں شائع کیا گیا ہے۔

تحقیق کار سمندر کی تہہ سے کھودی گئی چٹانوں کے نمونوں کی بدولت اس نقشے کو کھینچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

وہ براعظم کا مکمل سطحی رقبہ بھی سامنے لے کر آئے ہیں جو تقریباً پانچ ملین مربع کلومیٹر پر محیط ہے لیکن تقریباً مکمل طور پر سمندر کی لہروں کے نیچے موجود زیلینڈیا کو ایک براعظم کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ اس کا تعلق علم ارضیات سے ہے۔

تحقیق کاروں کے ممطابق اس کی تاریخ قدیم جنوبی براعظم گونڈوانا سے جڑی ہوئی ہے جس نے لاکھوں سال پہلے تقسیم ہونے پر ان براعظموں کو تخلیق کیا جنھیں ہم آج جانتے ہیں۔

زیلینڈیا تقریباً آٹھ کروڑ سال پہلے الگ ہوا تھا تاہم انٹارکٹیکا یا اوشیانا کے پڑوس میں واقع براعظموں کے برعکس اس کا زیادہ تر علاقہ زیر آب آ گیا تھا۔

براعظم کا واحد حصہ جو سطح پر رہ گیا تھا وہ نیوزی لینڈ کے جزائر، نیو کیلیڈونیا کا فرانسیسی علاقہ اور جزیرے لارڈ ہوو آئی لینڈ اور بالز پیرامڈ کے چھوٹے آسٹریلیائی علاقے تھے۔

زیر آب ہونے کی وجہ سے زیلینڈیا کا بہت کم مطالعہ کیا گیا، جس نے اس کی شکل اور حدود کے بارے میں مختلف تضادات کو جنم دیا ہے۔

اب تک اس براعظم کے جنوب کا نقشہ بنایا گیا تھا۔ ماہر ارضیات نک مورٹیمر کی سربراہی میں ہونے والی اس نئی تحقیق نے براعظم کے بقیہ دو تہائی حصے کے نقشے مرتب کرنے کی اجازت دی ہے۔

تحقیق کے مطابق ’یہ مطالعہ پورے 50 لاکھ مربع کلومیٹر زیلینڈیا براعظم کے آن لینڈ اور آف شور جاسوسی ارضیاتی نقشہ سازی کو مکمل کرتا ہے۔‘

ماہرین ارضیات اور زلزلہ کے ماہرین نے جزیرے کے ساحلوں پر پائے جانے والے نمونوں کے ساتھ سمندر کی تہہ سے سوراخ کر کے برآمد ہونے والے پتھروں کے نمونوں اور ریت کا مطالعہ کیا۔

سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ ریت کے پتھر 95 ملین سال پہلے کے آخریکریٹاسیئس عہد کے ہیں اور یہ کہ ان میں ابتدائی کریٹاسیئس (130 سے 110 ملین سال پہلے) کے گرینائٹ کی چٹانیں اور آتش فشاں کی کنکریاں موجود تھیں۔

علاقائی مقناطیسی بے ضابطگیوں کے ڈیٹا اور دیگر مطالعات سے حاصل کردہ معلومات اور نتائج کے ساتھ سائنسدانوں کو شمالی نیوزی لینڈ کے زیر آب ارضیات کا نقشہ بنانے میں مدد ملی۔

چٹانوں کی بناوٹ اور مقناطیسی بے ضابطگیوں کی تشریح نے سائنسدانوں کو شمالی زیلینڈیا میں بڑے ارضیاتی اکائیوں کا نقشہ بنانے میں مدد دی تب سے ہی پہلی بار 1642 میں ایبل تسمان کے ذریعہ ان یورپی نظاروں کو ریکارڈ کیا گیا تھا۔

اس براعظم کو تلاش کرنے والے بہت سے مہم جو اور سائنسدان درحقیقت اس کے پانیوں کے اوپر سفر کرتے رہے اور وہ اس حقیقت سے غافل رہے کہ وہ جس کی تلاش کر رہے ہیں دراصل وہ اس کے اوپر تیر رہے ہیں۔

زیلینڈیا کے وجود کے حقیقت پر مبنی پہلے سراغ کو جمع کرنے میں سکاٹش ماہر فطرت سر جیمز ہیکٹر مدد شامل رہی جنھوں نے سنہ 1895 میں نیوزی لینڈ کے جنوبی ساحل پر جزیروں کی ایک سیریز کا سروے کرنے کے لیے ایک سفر میں شرکت کی۔

وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ’نیوزی لینڈ ایک پہاڑی سلسلے کی باقیات ہیں جس نے ایک عظیم براعظمی علاقے کی چوٹی بنائی جو جنوب اور مشرق تک پھیلی ہوئی تھی اور اب ڈوب چکی ہے۔‘

براعظم کی زیر زمین پرت عام طور پر 40 کلومیٹر گہرائی میں ہوتی ہے جو سمندری پرت سے نمایاں طور پر موٹی ہوتی ہے جس کی گہرائی تقریباً 10 کلومیٹر تک ہوتی ہے۔

گونڈوانا سے الگ ہونے پر تناؤ کا شکار زیلینڈیا پھیل گیا۔ ریسرچ کے مطابق اس کی پرت 20 کلومیٹر نیچے تک پھیل گئی۔ اتنا پتلا ہونے کی وجہ سے یہ بالآخر ڈوب گیا او رسمندر کے نیچے غائب ہو گیا۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس کی موٹائی اور چٹانوں کی قسم زیلینڈیا کو ایک براعظم بناتی ہے۔ اس کے مضمرات محض سائنسی دلچسپی سے خالی نہیں۔

سمندر کے قانون سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن میں کہا گیا ہے کہ تمام ممالک اپنے قانونی علاقوں کو اپنے خصوصی اقتصادی زون سے آگے بڑھا سکتے ہیں جو ان کے ساحلی خطوں سے 200 ناٹیکل میل (370 کلومیٹر) تک پہنچتے ہیں تاکہ وہ اپنے توسیع شدہ براعظمی شیلف کا دعوی تمام معدنیات کے ساتھ کر سکیں اور دولت اور تیل اس میں شامل ہیں۔

اگر نیوزی لینڈ یہ ثابت کر سکے کہ وہ ایک بڑے براعظم کا حصہ ہے، تو وہ اپنے علاقے میں چھ گنا اضافہ کر سکتا ہے اور دراصل اس کا مطلب سمندری تلاش کے لیے دستیاب فنڈز میں اضافہ ہے۔