اہم خبریں

’زندگی تماشا‘ کو یوٹیوب پر ریلیز کرنے کا اعلان: ’ ناکامی اور نقصان کا احساس ہے اور یہ ناکامی نظام کی ہے‘

پاکستان میں مذہبی حلقوں کی جانب سے مخالفت کے بعد تین برس سے سنیماؤں میں ریلیز کی منتظر فلم ’زندگی تماشا‘ جمعے کو یوٹیوب پر ریلیز کی جا رہی ہے۔

فلم کی ویڈیو سٹریمنگ ویب سائٹ پر ریلیز کا اعلان فلمساز اور ہدایت کار سرمد کھوسٹ نے سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے ایک پیغام میں کیا۔

اس پیغام میں سرمد کھوسٹ کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کی آزادی کے مہینے میں اپنی فلم کو ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر آزاد کر رہے ہیں اور فلم سے جڑے جتنے بھی تنازعات ماضی میں سامنے آئے وہ ان پر ’مٹی ڈال رہے ہیں۔‘

سرمد کا کہنا تھا کہ اب جبکہ وہ فلم کو یوٹیوب پر ریلیز کر رہے ہیں، ایک ناکامی اور نقصان کا احساس موجود ہے اور یہ ناکامی صرف خود ان کی نہیں بلکہ نظام کی ناکامی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے اس فلم کی ریلیز کے لیے درکار تمام ضروری اور قانونی ذمہ داریاں انھوں نے ادا کیں لیکن ان کی فلم ناانصافی کا شکار ہوئی۔

سرمد کھوسٹ نے یہ بھی کہا کہ فلم کو ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر ریلیز کرنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ فلم دیکھے بغیر اس کے ساتھ جو زیادتی کی گئی اب ناظرین فلم دیکھ کر اس کے بارے میں خود فیصلہ کریں۔

’زندگی تماشا‘ میں مرکزی کردار ادا کرنے والے عارف حسن کا کہنا تھا اس فلم کو لوگوں کو سنیما میں ہی دیکھنا چاہیے تھا لیکن اب جب لوگ اسے یوٹیوب پر دیکھیں گے تو انھیں علم ہو گا کہ اس فلم میں ایسا کچھ نہیں جس پر اعتراض کیا جا سکے۔

’یہ ہمارے آج کے معاشرے کی تصویر ہے، جس سے ہر فرد واقف ہے کہ ہم ایک برداشت سے عاری معاشرہ بن چکے ہیں۔ ہم کسی نقطۂ نظر کو، کسی سوچ کو، کسی اختلاف کو برداشت نہیں کرتے۔ یہ فلم اس بارے میں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ یہ فلم دیکھیں ممکن ہے کہ یوٹیوب پر فلم کی ریلیز اور لوگوں کے ردعمل کے بعد حکومت بھی شاید یہ فیصلہ کر سکے کہ اسے بڑے پردے پر دکھانا چاہیے۔

زندگی تماشا سنیما میں کیوں ریلیز نہ ہو سکی؟

’زندگی تماشا‘ کو ابتدائی طور پر جنوری 2020 میں ریلیز کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ جب ستمبر 2019 میں فلم کا ٹریلر جاری کیا گیا تو اس پر ایک مذہبی جماعت کی جانب سے اعتراضات سامنے آئے اور فلم بنانے والوں کو دھمکیاں ملنے کے علاوہ اس کی ریلیز کے موقع پر احتجاج کی کال بھی سامنے آئی۔

اس صورتحال میں جہاں پہلے فلم کا ٹریلر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے ہٹا دیا گیا وہیں جنوری 2020 میں سنسر بورڈ کی جانب سے نمائش کی اجازت دیے جانے کے باوجود اس کی نمائش ممکن نہیں ہو سکی اور مؤخر کر دی گئی۔

کورونا کی وبا کے خاتمے کے بعد فلم کا ٹریلر دوبارہ جاری کرتے ہوئے اسے مارچ 2022 میں نمائش کے لیے پیش کرنے کا اعلان کیا گیا لیکن یہ اعلان بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔

اس دوران ’زندگی تماشا‘ کی نمائش متعدد عالمی فلمی میلوں میں کی گئی جہاں اس نے ایشین فلم فیسٹیول اور بوسان فلم فیسٹیول کے علاوہ اور چھٹے ورلڈ فلم فیسٹول میں بہترین فلم کا ایوارڈ بھی جیتا۔

خیال رہے کہ سنیماؤں میں نمائش نہ ہونے کے باوجود سنہ 2021 میں یہ فلم آسکرز کے لیے پاکستان کی ’آفیشل انٹری‘ تھی۔

فلم کی کہانی میں کیا ہے؟

فلم کے بارے میں ماضی میں بی بی سی اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سرمد کھوسٹ نے بتایا تھا کہ ان کی فلم کسی فرقے یا مسلک کے بارے میں نہیں بلکہ اس فلم کا مرکزی موضوع صرف عدم برداشت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مذہب ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہے اور ’کیسے ممکن ہے کہ جب آپ ایک کہانی مکمل طور پر سنائیں، تو اس کا ذکر نہ آئے، ہم چیزوں کی طرف اشارہ ضرور کر رہے ہیں مگر بالکل صاف ہے کہ وہ فلم کا مرکزی خیال نہیں۔‘

سرمد کھوسٹ نے کہا کہ یہ کہانی فلم کے مرکزی کردار کے اندرونی احساسِ زیاں کے بارے میں ہے۔

’جب آپ کسی حقیقی صنف میں کام کرتے ہیں تو اس کردار کے ہر پہلو پر بات ہوتی ہے۔ (اس فلم کا مرکزی کردار) ایک پراپرٹی ایجنٹ ہے، وہ ایک باپ ہے، وہ ایک لاہوری پنجابی ہے، وہ ایک خیال رکھنے والا شوہر ہے اور وہ شوقیہ طور پر، پیشہ وارانہ طور پر نہیں، ایک نعت خواں بھی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا ’یہ ایک مکمل جیتے جاگتے زندہ کردار کی کہانی ہے۔ پھر اس کی زندگی میں ایسا بہت معمولی سا کچھ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ان تمام پہلوؤں پر تنازعات اٹھتے ہیں، اس کے کام پر تنازع ہوتا ہے، جہاں وہ شوقیہ طور پر کام کرتا ہے اس کے حوالے سے بھی تنازع ہوتا ہے مگر زیادہ اور مرکزی طور پر یہ اس کے ذاتی زیاں کی کہانی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کی فلم کا مرکزی کردار ذاتی عدم برداشت کا شکار تو ہوتا ہی ہے، ’وہ ہمسایوں کی عدم برداشت کا بھی شکار ہوتا ہے اور سائبر سپیس میں بھی عدم برداشت کا شکار ہوتا ہے۔‘

’یہ ملک کبھی فن اور سچے فنکاروں کی حمایت نہیں کرے گا‘

سرمد کھوسٹ کی جانب سے سوشل میڈیا پر فلم زندگی تماشا کو یوٹیوب پر ریلیز کرنے کا اعلان کرنا تھا کہ سوشل میڈیا صارفین نے جہاں ایک طرف انھیں اس دلیرانہ اقدام پر سراہا وہیں ان کے ’نظام کی ناکامی‘ سے متعلق بات پر ان کی انتھک محنت پر بھی بات کی۔

یوٹیوب پر کھوسٹ فلمز کے آفشیل چینل پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک صارف نے لکھا کہ ’مجھے پورا یقین ہے کہ آرٹ کا یہ ماسٹر پیس اور فنکار اس محبت، احترام، تعریف اور قبولیت کو حاصل کرنے جا رہے ہیں جو روایتی ریلیز کے طریقہ کار کے ذریعے حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔‘

ایک اور صارف حمل خان نے لکھا کہ ’ اس نے مجھے واقعی اداس اور مایوس کیا لیکن ساتھ ہی مجھے سکون بھی محسوس ہوا کہ آخر کار آپ اسے آزاد کرنے والے ہیں۔ مجھے آپ پر فخر ہے سرمد کھوسٹ۔ آپ ایک حقیقی فنکار اور ایک حساس روح ہیں۔ یہ ملک کبھی بھی دیانتدار فن اور سچے فنکاروں کی حمایت نہیں کرے گا لیکن ہم جو کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ آگے بڑھتے رہیں، فن بناتے رہیں اور اپنا اظہار کرتے رہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی فلم ’زندگی تماشا‘ کی ریلیز سے آپ کو ایک شاندار فیڈ بیک اور پہچان ملے گی جس کے آپ مستحق تھے۔‘

فاطمہ سجاد شاہ نے لکھا کہ ’سرمد کھوسٹ کی ایک انتہائی افسوسناک ویڈیو دیکھی جس نے ایک طویل جنگ کے بعد زندگی تماشا کو سینما گھروں میں ریلیز کرنے سے دستبردار ہو کر اسے آن لائن ریلیز کرنے کا انتخاب کیا۔ ٹی ایل پی، ٹی ٹی پی، اور ان کے حامیوں کو، جشن آزادی پیشگی مبارک ہو۔‘

سارہ خان نامی صارف نے لکھا کہ ’سرمد مجھے آپ کے لیے دکھ ہو رہا ہے، آپ بہت اچھے طریقے سے اس سے نمٹ رہے ہیں۔ آپ کی بہت ہی دلیرانہ کوششوں میں آپ کے لیے مزید کامیابی کی دعائیں۔‘