اہم خبریں

زخم خوردہ ٹائیگرز بھی حیران کر سکتے ہیں: سمیع چوہدری کا کالم

سری لنکن کرکٹ کا مزاج رہا ہے کہ جب وہ کسی شمار قطار میں نہیں ہوتی، تب اچانک ابھر کر یوں سامنے آتی ہے کہ شائقین ششدر رہ جاتے ہیں۔

ایشیا کپ کی 39 سالہ تاریخ میں جب جب کبھی پاکستان انڈیا فائنل کے امکان روشن ہوئے ہیں، رنگ میں بھنگ سدا سری لنکن کرکٹ نے ہی ڈالا ہے۔

کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ جس ٹیم نے ایک ہی دن پہلے مضبوط پاکستانی الیون کو ریکارڈ شکست سے دوچار کیا تھا، وہ نوآموز سری لنکن سپنر دموتھ ویلالگے کے سامنے ڈھیر ہو جائے گی۔

وہ تو بھلا ہو انڈین بولنگ کا کہ قلیل ہدف کا دفاع کر کے ٹورنامنٹ کو کھلا رکھا، وگرنہ ایشیا کپ کے فائنلسٹس پہلے ہی طے ہو چکے ہوتے اور پاکستان بمقابلہ سری لنکا محض ایک کاغذی کارروائی رہ جاتی۔

مگر اب یہ مقابلہ سیمی فائنل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور ’کارنرڈ ٹائیگرز‘ زخم خوردہ بھی ہو چکے ہیں۔

نسیم شاہ اور حارث رؤف دونوں ہی ایشیا کپ سے باہر ہو چکے ہیں اور پاکستان کا مسلّمہ پیس اٹیک اب اہم ترین میچز میں جادو جگانے سے محروم رہے گا۔

مگر پیس کے معاملے میں پاکستان کے ذخائر یوں زرخیز ہیں کہ متبادل ڈھونڈنے میں سر نہیں کھجانا پڑا۔ اس نئی الیون میں بھی پیس اس قدر موجود ہے کہ اگر تجربے کی کمی آڑے نہ آئے تو زمان خان اور محمد وسیم بھی تگڑے سے تگڑے بلے بازوں کو مبہوت کر سکتے ہیں۔

فخر زمان کی پے در پے ناکامیوں نے بالآخر کچھ اعصاب پر دستک دے ہی ڈالی اور مہینوں سے پانی ڈھوتے محمد حارث کی قسمت جاگ اٹھی۔

پچھلی بار جب ورلڈ کپ میں وہ اہم مراحل پر ٹیم کا حصہ بنے تھے تب ان کی پہلی ہی اننگز نے سوئے ہوئے بھاگ جگا دیے تھے اور کسی گنتی میں نہ رہنے والی ٹیم کو فائنل کی راہ دکھلا دی تھی۔

پاکستان یہاں بھی حارث سے وہی امید رکھے گا، گو سری لنکن پیس اٹیک، اپنی تمام تر لو پروفائل کے باوجود، ان کا امتحان ضرور لے گا۔

جہاں کاسون راجیتا کی شکل میں ایک تجربہ کار ہاتھ دستیاب ہے تو وہیں متیشا پتھیرانا جیسا ہنرمند بھی موجود ہے جو پچھلے چند ماہ سے مسلسل سرفرازی کی سمت گامزن ہے۔

لیکن بڑا دردِ سر یہاں بھی سپن سے نمٹنا ہو گا۔

انڈیا کے خلاف میچ میں پاکستانی بلے باز کلدیپ یادو کی سبک خرامی کے خمار سے باہر نہ نکل پائے تھے۔ گو کلدیپ یادو اس شام واقعی ناقابلِ تسخیر تھے مگر سپن کے سامنے اس مڈل آرڈر کی کم مائیگی بھی پوری طرح آشکار ہوئی۔

دمتھ ویلالگے ایک ہی روز پہلے سپن کے خلاف موثر ترین بیٹنگ لائن کے طوطے اڑا چکے ہیں، سو کچھ ہول سے ضرور اٹھتے ہیں کہ وہ اور مہیش تیکشنا پاکستانی مڈل آرڈر سے کیا سلوک کریں گے مگر تشفی بخش پہلو یہ کہ خوش نصیبی سے پاکستان کو بھی یہاں سعود شکیل جیسا دماغ میسر ہو گا۔

اپنے مختصر سے کریئر میں سعود شکیل کئی ایک اننگز میں یہ ثابت کر چکے ہیں کہ موجودہ پاکستانی بیٹنگ ذخائر میں سے سپن کے خلاف سب سے موثر بلے باز وہی ہیں۔

سری لنکا ہی کے خلاف حالیہ ٹیسٹ میں ڈبل سینچری کے بعد ان کا اعتماد مختصر فارمیٹ میں بھی بار آور ہو سکتا ہے۔ اس پر طُرہ یہ کہ دباؤ کے ہنگام میں وہ اپنے اعصاب بھی منتشر نہیں ہونے دیتے۔

کافی عرصے سے پاکستان نے شکست کا ذائقہ چکھا نہیں تھا اور انڈیا سے شرمناک شکست بھی ورلڈ کپ سے پہلے ایک عمدہ سبق ہے کہ رنز کے لیے ہمیشہ ٹاپ آرڈر اور وکٹوں کے لیے ہمیشہ پیس کی راہ تکنے والی ٹیم کو اب اپنے مڈل آرڈر اور سپن بولنگ کا قبلہ درست کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

حسبِ روایت بارش کل کے میچ میں بھی خلل ڈال سکتی ہے اور توقع یہی رہے گی کہ اپنے چنیدہ مہروں سے محروم بابر اعظم ٹاس جیتنے کی صورت میں پہلے بولنگ سے گریز کریں گے۔

ثانیاً اب تک یہ بھی واضح ہو چکا کہ سری لنکن پچز دوسری اننگز تک پہنچتے پہنچتے سست تر ہو جاتی ہیں، سو ہدف کے تعاقب سے گریز ہی بھلا۔

یہاں سعود شکیل کی موجودگی سے پاکستان کے امکانات کچھ روشن نظر آتے ہیں کہ اگر وہ سری لنکن سپن کا بار جھیل گئے تو شاید نسیم شاہ اور حارث رؤف کی عدم دستیابی بھی سری لنکن بیٹنگ کو کچھ خاص فائدہ نہ دے پائے گی۔