اہم خبریں

ریکھا بائی: ’میری ماں ایک طوائف تھیں اور انھیں اس پر کوئی شرمندگی نہ تھی‘

’میں نے اندھیرے میں رقص کیا۔ میں کمرے میں موم بتیاں جلا کر پرفارم کرتی تھی۔ اندھیرے میں میرے نصیب نے چمک اٹھنا تھا۔‘

مستقبل کے متعلق لوگ کافی پریشان تھے لیکن یہ ریکھا بائی کو منظور نہیں تھا کہ خوف ان کی تقدیر کا فیصلہ کرے۔

دوسری طوائفوں کی طرح اپنا کاروبار بند کرنے کے بجائے وہ خوبصورت ساڑھی پہن کر اپنے کوٹھے پر ہر رات مردوں کے لیے گانے گاتیں اور رقص کرتیں۔

زندگی سے انھوں نے یہ سبق حاصل کیا تھا، مشکلات یا تو مواقع فراہم کرتے ہیں یا زندہ رہنا سکھا دیتے ہیں۔ ریکھا بائی کی ہنگاموں بھری زندگی اب ایک کتاب کا موضوع بن گئی ہے ’دی لاسٹ کورٹسن‘ یعنی آخری طوائف جسے ریکھا بائی کے بیٹے منیش گایکواڈ نے ان کی یاد میں لکھا۔

منیش گایکواڈ کہتے ہیں کہ ’میری والدہ ہمیشہ اپنی کہانی بتانا چاہتی تھیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ انھیں اپنی والدہ کی کہانی بتانے میں کوئی شرمندگی نہیں ہوئی، والدہ کی زندگی ان سے چھپی ہوئی نہیں تھی کیونکہ ان کا بچپن والدہ کے ساتھ کوٹھے پر ہی گزرا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’کھوٹے پر بچہ بہت کچھ دیکھتا ہے، ایسی چیزیں بھی جو اسے نہیں دیکھنی چاہیے۔ میری والدہ کو یہ بات معلوم تھی لہذا انھوں نے مجھ سے کچھ نہیں چھپایا۔‘

انھوں نے اپنی کتاب میں اپنی والدہ کی بیان کی گئی داستان لکھی، جو پڑھنے والوں کو 1900 کی دہائی کے وسط میں طوائفوں کا کام کرنے والی خواتین کی زندگی کے بارے میں حیران کن کہانی سناتی ہے۔

’کورٹنگ ہندوستان‘ کی مصنف اور اوڑیسی ڈانسر مادھر گپتا کہتی ہیں کہ طوائف وہ خواتین تھیں جن کا کام شاہی خاندانوں کی تفریح کے لیے رقص کرنا تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ برصغیر پر برطانیہ کے قبضے سے پہلے طوائفوں کو قابل عزت فنکار مانا جاتا تھا، وہ اپنے فن کی ماہر تھیں، دولت مند تھیں اور اس وقت کے طاقتور ترین مردوں سے انھیں قربت حاصل تھی۔

مادھر گپتا کہتی ہیں ’لیکن معاشرہ اور مرد ان کا استحصال بھی کرتے تھے‘۔

انھوں نے بتایا کہ طوائفوں کا زوال برطانیہ کے آنے کے بعد شروع ہوا۔ ان کی نظر میں یہ ’ناچ گرلز‘ محض سیکس ورکرز تھیں۔ انگریزوں نے ایسے قانون لاگو کیے جو ان کے کام کو روک سکیں۔

ان کے مقام میں مزید کمی 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد آئی جب بہت ساری طوائفوں کو زندہ رہنے کے لیے جسم فروشی کا کام کرنا پڑا۔

اب طوائف اور کوٹھے تقریباً ختم ہو گئے ہیں لیکن مقبول طوائفوں اور ان کی کہانیاں کتابوں اور فلموں کے زریعے زندہ ہیں اور ان میں سے ایک ایسی کہانی ریکھا بائی کی ہے۔

انھوں نے اپنی آنکھ پونے شہر کے ایک غریب خاندان میں کھولی۔ وہ دس بہن بھائی تھے۔ ریکھا بائی کو تاریخ اور سال یاد نہیں۔ پانچ بیٹیوں کو پالنے سے تنگ آئے ریکھا بائی کے باپ نے مبینہ طور پر پیدا ہونے کے بعد انھیں پانی میں ڈبونا چاہا۔

نو یا دس سال کی عمر میں خاندان کے قرض کو معاف کروانے کے لیے ان کی شادی کر دی گئی۔ ان کے سسرال نے انھیں کولکتہ کے باؤ بازار میں موجود ایک کوٹھے میں بیچ دیا۔ ابھی وہ بچی ہی تھیں کہ انھوں نے طوائف بننے کی مشق شروع کردی، انھوں نے گانے گانا اور رقص کرنا سیکھا لیکن ان کی کمائی ان کی ایک خاتوں رشتہ دار کے ہاتھ میں جاتی تھی جو خود بھی وہاں ایک طوائف تھی۔

انڈیا چین کی جنگ کے دوران یہ رشتہ دار وہاں سے چلی گئیں اور ریکھا بائی کو اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے کا موقع مل گیا۔ موم بتی کی روشنی میں رقص کرنے سے وہ خود مختار بن گئیں اور انھیں اس بات کا احساس ہوا کہ اگر وہ نڈر ہو جائیں تو وہ خود کما سکتی ہیں اور اپنی حفاظت کر سکتی ہیں۔

یہ ان کی باقی زندگی میں ان کا اصول بن گیا۔ ریکھا بائی نے فلموں میں مشہور ہونے والی طوائف کردار امراؤ جان اور پاکیزہ کی طرح کبھی کسی مرد کو اتنا نہیں چاہا۔

باوجود اس کے کہ ان کے جاننے والے مردوں کی بڑی تعداد تھی انھوں نے دوبارہ شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فہرست میں جرائم پیشہ افراد سے لے کر امیر شیخ اور مشہور موسیقار بھی تھے۔ شادی نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ریکھا بائی کو طوائف کا کام اور کوٹھا چھوڑنا پڑتا۔

چھوٹا سا کوٹھا، جہاں انھوں نے رقص کیا، زندگی گزاری، بچے کی پرورش کی اور مختلف اوقات میں اپنے رشتہ داروں کو جگہ دی ان کی آزادی اور طاقت کا استعارہ بن گیا۔

لیکن اس کے باوجود اسی جگہ پر مشکلات، تنازعات، ایسے حالات جو معصومیت چھین لیتے ہیں، انسانیت ختم کردیتے ہیں اور غصہ، ڈر اور مایوسی جیسے تباہی جذبات کو جنم دیتے ہیں۔

کتاب میں منیش گایکواڈ اپنی والدہ کی کافی پریشان کر دینے والی کہانی لکھتے ہیں جیسے کہ ایک بار ایک غنڈے نے ان پر بندوق تان لی کیونکہ انھوں نے اس سے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

ایک اور واقعے کے متعلق ریکھا بائی بتاتی ہیں کہ کوٹھے کی دیگر خواتین ان سے حسد کرتی تھیں اور ان کے ساتھ برا سلوک کرتی تھیں۔ کچھ خواتین نے غنڈوں کو ان کے کمرے کے باہر ٹہلنے کے لیے پیسے دیے تاکہ ان کو ڈرایا جا سکے۔ کچھ ان کو جسم فروش کہتی تھیں جبکہ وہ یہ کام نہیں کرتی تھیں۔

کوٹھے نے انھیں ایک مضبوط خاتون بھی بنا دیا۔ یہاں پر انھیں رقص میں اپنی مہارت کے بارے میں پتا چلا اور اسے مردوں پر کیسے استعمال کرنا ہے اس کے بارے میں بھی معلوم ہوا۔ ایسے مرد جو زندگی کی تھکاوٹ اور اداسی سے بچنے کے راستے تلاش کر رہے تھے۔

اس جگہ پر انھوں نے مردوں کو پڑھنا سیکھا، غضب ناک مردوں کو ٹھنڈا کیسے کرنا ہے اور ضرورت پڑنے پر کب ان کی انا کو ریزہ ریزہ کرنا ہے۔

ریکھا بائی نے بتایا کہ ’میں نے کوٹھے کی زبان پر عبور حاصل کر لیا۔ میں تب بولتی تھی جب ضرورت ہوتی تھی۔‘

لیکن کوٹھے نے اس پرجوش اور دلکش فنکار ریکھا بائی کو ایک پیار کرنے والی، حفاظت کرنے والی ماں میں تبدیل ہوتے دیکھا جو اپنے بیٹے کو بہتر زندگی دینے کے لیے جو کچھ کر سکتی تھی، اس نے وہ سب کچھ کیا۔

رقص کے دوران جب انھیں شک ہوتا تھا کہ ان کا بچہ رو رہا ہے تو وہ بھاگ کر اسے دیکھنے پہنچ جاتی تھیں۔ بعد میں ریکھا بائی نے اپنے بیٹے کو بورڈنگ سکول میں بھیج دیا اور انھیں ایک اپارٹمنٹ خرید کر دیا تاکہ انھیں اپنے دوستوں کو اپنے گھر لاتے ہوئے شرمندگی نہ ہو۔

انھیں اپنے بیٹے پر فخر تھا باوجود اس کے کہ وہ انگریزی میڈیم میں پڑھے تھے اور بورڈنگ سکول کی پرورش نے انھیں اپنی ماں سے بہت مختلف بنا دیا تھا۔

وہ ایک خوبصورت یاد بتاتی ہیں۔ جب ان کا بیٹا چھٹیوں میں ان کے پاس آیا تو انھوں نے انگریزی میں چمچ اور کانٹا مانگا۔

انھوں نے کتاب میں بتایا ’مجھے پتا تھا اسے ہندی میں کانٹا کہتے ہیں لیکن میں نے انگریزی میں اس کا نام کبھی نہیں سنا تھا۔‘

منیش گایکواڈ کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی ماں، ان کے حوصلے، ہنر اور زندگی کے لیے جوش کو یاد کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ ’امید کرتا ہوں مرد یہ کتاب پڑھیں گے۔‘

وہ کہتے ہیں انڈین مردوں کے ذہن میں والدہ کو خاندان کی پاکیزگی کی علامت ہونا پڑتا ہے۔

انھوں نے کہا ’لیکن مجھے امید ہے کہ یہ کتاب لوگوں کو اپنی ماؤں کی انفرادیت کو پہچاننے اور اسے قبول کرنے میں مدد کرے گی۔‘