اہم خبریں

ریپ کا نشانہ بننے والی بیٹی کو ’انصاف دلانے میں ناکامی پر‘ باپ کی خودکشی

اتر پردیش کے ضلع جالون میں ایک نابالغ لڑکی کے ریپ کا معاملہ سامنے آنے کے بعد خاندان والوں کا دعویٰ ہے کہ متاثرہ لڑکی کے باپ نے پانچ جون کو پولیس رویے سے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کر لی تھی۔

لواحقین کا کہنا ہے کہ مقامی پولیس کے ریپ سے متعلق مقدمے میں لاپرواہی اور بے حسی سے متاثرہ لڑکی کا باپ مایوس ہو گیا تھا اور اس نے دل برداشتہ ہو کر خودکشی کر لی۔

اہل خانہ کے الزام پر جالون کے پولیس سپرنٹنڈنٹ کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں پولیس پر لاپرواہی کے الزامات کے خلاف محکمانہ انکوائری جاری ہے۔

سات جون کو 17 سالہ ریپ کا نشانہ بننے والی لڑکی کے والد کی موت کا تیسرا دن تھا، لیکن پورا خاندان ان کی یاد میں ماتم بنانے کی حالت میں نہیں تھا۔

جب ہم ان کے گھر پہنچے تو لڑکی صبح سات بجے اورائی جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی کیونکہ مجسٹریٹ کے سامنے اس کا بیان ریکارڈ ہونے والا تھا۔

ان کے والد کی نوبر (ایک موت کے بعد کی رسم) بھی اسی دن گھر میں رکھی ہوئی تھی۔

ایک طرف لواحقین کو پولیس تفتیش مکمل کرانا تھی تو دوسری طرف موت کے بعد ضروری رسومات بھی مکمل کرنی پڑیں۔ اس سب کے درمیان گھر میں پولیس کی موجودگی کی وجہ سے گھر والے ایک دوسرے سے زیادہ بات نہیں کر رہے تھے۔

متاثرہ لڑکی نے چھت کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر بی بی سی سے بات کی۔

متاثرہ لڑکی نے کیا کہا؟

ریپ کا نشانہ بننے والی لڑکی نے کہا کہ ’اس واقعے کے بعد سے مجھے ماہواری نہیں ہوئی تھی۔ میں نے یہ بات اپنی دوست کو بتائی، جو دیویندر اور لکشمی (شریک ملزم) کی بیٹی ہے۔ اس نے یہ بات اپنی ماں لکشمی کو بتائی۔ پھر انھوں نے مجھے گھر بلایا اور پریگنینسی کٹ سے میرا ٹیسٹ کیا اور مجھے بتایا کہ میں حاملہ ہوں۔ پھر 25 مئی کو وہ میرے لیے دوا لے کر آئی اور مجھے کھلائی۔ ‘

یہ بتاتے ہوئے وہ رونے لگیں۔

آپ نے اپنے گھر کب بتایا؟ متاثرہ لڑکی کا کہنا تھا کہ ’مجھے دوا دینے کے بعد لکشمی (شریک ملزم) نے پورے گاؤں میں یہ بات پھیلا دی کہ میں ماں بننے والی ہوں، اس کے بعد میں نے اپنی بڑی بہن کو فون کیا اور بتایا۔ دیدی نے میری ماں کو دوبارہ بلایا۔ مجھے دوا لینے کے بعد ماہواری ہو گئی۔ ہم نے یہ بات پولیس سٹیشن میں بھی بتا دی۔‘

تاہم انتظامیہ نے اسے نہ تو کھلے عام قبول کیا اور نہ ہی انکار۔

ایف آئی آر میں اس حمل کا کوئی ذکر نہیں ہے جس کے بارے میں متاثرہ لڑکی کہہ رہی ہے۔ پولیس سے موصول ہونے والی معلومات کے مطابق میڈیکل رپورٹ میں وہ حاملہ نہیں تھی۔

باپ نے اپنی جان لے لی

پچھلے کئی دنوں سے جالون ضلع کا یہ ریپ کیس میڈیا کی سرخیوں میں ہے۔ متاثرہ کے اہل خانہ نے الزام لگایا ہے کہ پولیس ان پر راضی نامہ کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔

ان کا الزام ہے کہ پولیس نے سمجھوتہ نہ کرنے کی صورت میں انھیں جھوٹے مقدمے میں پھنسانے کی دھمکی دی تھی۔

لواحقین کا کہنا ہے کہ متاثرہ لڑکی کے والد نے دلبرداشتہ ہو کر مجبوری میں خودکشی کی ہے۔

معاملے کے طول پکڑنے اور میڈیا پر آنے کے بعد مقامی سیاسی رہنماؤں نے بھی ہلچل شروع کر دی ہے۔ لواحقین صرف ہر آنے والے سے انصاف دلانے کی بات کر رہے ہیں۔

دروازے کے پاس بیٹھی متاثرہ لڑکی کی دادی اپنے اکلوتے بیٹے کی موت کو قبول نہیں کر پا رہی ہیں۔

وہ ہر گزرنے والے سے پوچھتی رہی کہ ’کوئی کہے کہ وہ زندہ ہے اور جلد واپس آجائے گا۔ وہ میرا اکلوتا بیٹا تھا۔ اب سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔‘

باپ کے جوتے اور کپڑے دکھاتے ہوئے بڑی بیٹی کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ پانچ جون کی صبح کا بجھایا ہوا چولھا چھت پر پڑا ہے جو اس دن سے جلایا نہیں گیا۔

معاملہ ہے کیا؟

اہل خانہ کے مطابق 28 مارچ 2023 کو ایک 17 سالہ نابالغ لڑکی کا ریپ کیا گیا تھا۔

اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ملزم نے متاثرہ لڑکی کو دھمکی دی تھی کہ وہ اس معاملے پر خاموش رہے لیکن جب اس کے حمل کی خبر پورے گاؤں میں پھیل گئی تو اس نے اپنے گھر والوں کو بتایا۔

ریپ کا شکار ہونے والی لڑکی کے والدین اور دو چھوٹے بھائی دو ماہ قبل گول گپے کا کام کرنے پنجاب گئے تھے۔

یہ واقعہ سننے کے بعد وہ 30 مئی کو گھر آئے اور 31 مئی کو ایف آئی آر درج کرنے کے لیے ای ٹی پولیس سٹیشن گیے۔

پولیس پر الزام

پولیس پر الزام لگاتے ہوئے ریپ کا شکار ہونے والی لڑکی کی ماں نے کہا کہ ہم 31 مئی کو دوپہر دو بجے سے 11 بجے تک تھانے میں بیٹھے رہے لیکن ہماری ایف آئی آر تک درج نہیں ہوئی۔

انھوں نے صرف دھمکی دی اور کہا کہ ’درخواست لکھو اور دستخط کرو کہ ہم ملزم کو جھوٹے الزام میں پھنسا رہے ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہم تمھارے شوہر کو جھوٹے الزامات میں پھنسائیں گے۔‘

اہل خانہ اور گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ ریپ کا شکار ہونے والی لڑکی کے والد نے پولیس کی جانب سے کیس کی کوئی شنوائی نہ ہوتی دیکھ کر پانچ جون کو صبح 10 بجے کے قریب خودکشی کر لی تھی۔

اس معاملے کے آگ پکڑنے کے بعد تین ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

پولیس کے رویہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے متاثرہ لڑکی کی والدہ کہتی ہیں، ’اسٹیشن انچارج کے دباؤ میں آکر ہم نے ایک جھوٹی درخواست پر دستخط کیے، جس میں لکھا تھا کہ ہم نے ملزم دیویندر اور اس کی بیوی لکشمی کی گاؤں والوں کے گمراہ کیے جانے کے بعد غلط شناخت کی تھی۔ اس معاملے میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ریپ کرنے والا مرکزی ملزم ڈولو تھا۔ بعد میں ہمارے کزن بہنوئی نے آن لائن پورٹل پر شکایت درج کرائی۔ پھر پولیس سٹیشن کے لوگوں نے کہیں ایف آئی آر لکھوائی۔‘

ایف آئی آر میں کیا ہے؟

ایف آئی آر کی کاپی کے مطابق چار جون کو رات 10.56 بجے ای ٹی پولیس سٹیشن میں تین لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔

اس میں مرکزی ملزم ڈولو عرف مانویندر پر ریپ کا الزام ہے۔

جب کہ لکشمی اور اس کے شوہر دیویندر پر متاثرہ لڑکی کو ورغلانے کا الزام ہے۔ انڈین قانون کے مطابق آئی پی سی کی دفعہ 376، اور 120بی کے دفعات لگائی گئی ہے۔

ایف آئی آر لکھے جانے کے بارے میں متاثرہ لڑکی کی ماں کہتی ہیں کہ ’مجھے معلوم ہوا کہ ایف آئی آر شوہر کی موت کے بعد لکھی گئی تھی۔ انھیں (ملزم لکشمی، دیویندر) کو ان کے (شوہر) کی موت کے بعد ہی گرفتار کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ ایک تو ہماری بیٹی کے ساتھ غلط کیا گیا اور اس کے بعد ہمیں سمجھوتہ کرنے کی دھمکی دی گئی جس سے میرے شوہر کی جان چلی گئی۔‘

پولیس کا کیا کہنا ہے؟

جالون کے سپرنٹنڈنٹ پولیس ایراج راجہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’لواحقین کے بیان کے مطابق تینوں ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مرکزی ملزم پہلے ہی تین جون کو ایک اور مقدمے میں جالون جیل میں بند تھا۔ اسے منشیات کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔ لڑکی کا میڈیکل کروایا گیا ہے۔ بدھ کو عدالت میں سی آر پی سی کی دفعہ 164 کے تحت بیانات بھی ریکارڈ کیے گئے۔

یہ معاملہ آپ کے علم میں کب آیا؟

اس پر ایس پی ایراج راجہ نے جواب دیا کہ ’مجھے اس معاملے کی معلومات آن لائن پورٹل کے ذریعے چار جون کو ملی تھی۔ اسی دن فوری طور پر ای ٹی پولیس سٹیشن میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ لواحقین کی جانب سے جن دو پولیس اہلکاروں پر لاپرواہی کا الزام عائد کیا گیا ہے انھیں پانچ جون کو ہی معطل کر دیا گیا تھا جبکہ ان کے خلاف محکمانہ انکوائری ابھی جاری ہے۔‘

سات جون کو متاثرہ لڑکی کے والد کے کزن نے ایک درخواست دکھائی، جو وہ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو دینے کا کہہ رہا تھا، جس میں اس نے معطل پولیس اہلکار نریندر گوتم پر الزام لگایا ہے کہ اس کے ہراساں کرنے کے بعد ہی اس کے بھائی نے خودکشی جیسا قدم اٹھایا۔ اس لیے نریندر گوتم کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے۔

اس سوال کے جواب میں جب ہم نے پولیس سپرنٹنڈنٹ سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ ابھی محکمانہ انکوائری جاری ہے، اگر وہ تحقیقات میں قصوروار پائے گئے تو ایف آئی آر درج کی جائے گی

پڑوسیوں نے کیا بتایا؟

ملزم دیویندر کے گھر کے قریب ایک سودا سلف کی دکان چلانے والے رام داس نے کہا کہ ’جس دن دیویندر کی اپنی چھوٹی بیٹی کی سالگرہ تھی (28 مارچ)، میں دکان پر تھا۔ وہاں ناچنے اور گانے کی بہت آوازیں آ رہی تھیں۔ محلے سے بہت سی لڑکیاں ان کے گھر اکٹھا ہوئی تھیں لیکن ریپ جیسا کچھ ہونے کی کوئی خبر نہیں ملی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ ’پولیس غریبوں کی کہاں سنتی ہے، اگر وہ سنتے ہوتے تو کیا بچوں پر سے ان کے باپ کا سایہ اٹھتا، جب پورا گاؤں ایک ہو گیا تو پولیس نے اس معاملے میں اتنی کارروائی کی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ متاثرہ لڑکی کا باپ ایک شریف آدمی تھا اور خاندان کا اکلوتا لڑکا تھا۔ پورا گاؤں اس کی موت سے سوگوار ہے۔ وہ محنت مزدوری کر کے خاندان کا پیٹ پالتا تھا۔ اب گھر والوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔‘

خاندان کی خراب مالی حالت

متاثرہ لڑکی اپنے چار بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہے۔ وہ اپنے دادا دادی کے ساتھ رہتی تھی۔ وہ گھر میں کھانا پکاتی تھی اور روزانہ مزدوری پر چلی جاتی تھی۔

ملزم دیویندر ٹھیکیدار کے طور پر کام کرتا ہے۔ گاؤں کے زیادہ تر مزدور اس کے پاس مزدوری کے لیے آتے ہیں۔

اس کی بڑی بہن کی شادی رواں سال 22 فروری کو ہوئی تھی جس میں خاندان کو اپنی ڈیڑھ بیگھہ زمین دو لاکھ روپے میں گروی رکھنی پڑی۔

قرض کی ادائیگی کے لیے والد دو ماہ قبل گول گپے کا سٹال لگانے پنجاب گئے تھے۔ اس کے ساتھ اس کی ماں اور دو چھوٹے بھائی (10 اور 12 سال کے) بھی گئے۔

متاثرہ لڑکی کے 60 سالہ دادا کا کہنا ہے کہ ’بڑی پوتی کی شادی کے لیے ڈیڑھ بیگھہ زمین گاؤں کے ایک پجاری کو دو سال کے لیے دو لاکھ روپے میں دی گئی تھی، اس پر ہر ماہ دو سو روپے کا سود ہے۔ وہ (بیٹا) اس قرض کی واپسی کے لیے بہت پریشان تھا، وہ یہ کہہ کر چلا گیا تھا کہ فکر نہ کرو، دو سال میں آہستہ آہستہ کما کر واپس کر دیں گے۔‘

اب تک پولیس نے کیا کارروائی کی؟

متاثرہ لڑکی کے رشتہ داروں نے چھ جون کو ای ٹی پولیس سٹیشن میں ایک درخواست بھی دی ہے، جس میں ملزم دیویندر اور اس کی بیوی لکشمی پر خودکشی کے لیے اکسانے کا الزام لگایا گیا ہے۔

جب بی بی سی نے اس بارے میں ای ٹی سٹیشن انچارج کرشنا پال سروج سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ ’آئی پی سی کی دفعہ 306 کے تحت ایک ہی دن دونوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔‘

ملزمہ لکشمی اور دیویندر کا گھر متاثرہ لڑکی کے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر ہے، جو ابھی تک بند ہے۔ ان کے گھر کے بالکل قریب ان کے خاندان کے ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہم سے بات کی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پولیس نے اسے ایک دن کے لیے پکڑا تھا اور اگلے ہی دن اسے چھوڑ دیا گیا۔ جب معاملہ بڑھ گیا تو پولیس نے اسے دوبارہ پکڑ لیا۔ جبکہ انصاف نہ ملنے کی وجہ سے وہ شریف آدمی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’جس دن متاثرہ لڑکی کے والد کی پھانسی کی خبر گاؤں میں پھیلی، پورے گاؤں نے مل کر پولیس کے خلاف نعرے بازی کی، ہم نے لاش کو اس وقت تک نہیں اتارا جب تک ایک اعلیٰ افسر نے آکر یقین نہیں دلایا کہ اس معاملے میں انصاف ہو گا۔‘

دوسری جانب متاثرہ لڑکی کے چچا جو پہلے دن سے اس پورے معاملے میں والد کے ساتھ تھے، کہتے ہیں کہ اگر پولیس تشدد نہ کرتی تو وہ کبھی خودکشی جیسا قدم نہ اٹھاتا، اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کے ہم اپنی بیٹی کو انصاف دلانے میں ناکام رہے ہیں۔‘