اہم خبریں

ریشم کے کیڑے پالنے والی خواتین: ’سالانہ 60 سے 80 ہزار روپے مل جاتے ہیں لیکن اب آمدن میں کمی آئی ہے‘

افغان سرحد پر واقع ضلع کرم کے علاقے پارہ چنار کی پچاس سالہ ذکیہ بی بی کے لیے کمائی کا واحد ذریعہ ہر سال گھر میں ریشم پیدا کرنے والے کیڑے پالنا ہے۔

ان کے شوہر ہر سال مارچ کے مہینے میں سرکاری فارم سے ستر ہزار کے قریب کیڑے گھر لے آتے ہیں جن کی دیکھ بھال وہ اور بچے کرتے ہیں۔ گھر کے چھ ماہ کے اخراجات اور بچوں کی تعلیمی ضروریات یہی ریشم کا دھاگہ بیچ کر پوری ہوتی ہیں۔

کرم میں نہ صرف ذکیہ بی بی بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں خواتین کے لیے کمائی ریشم پیدا کرنے والے کیڑے پالنے سے وابستہ ہے۔

حکام کے مطابق ہر سال علاقے کے پندرہ سو خاندانوں کو مفت کیڑے اور تربیت فراہم کی جاتی تھی تاہم اب یہ تعداد تین سو سے چار سو تک رہ گئی ہے۔

عباس علی کرم کے ایک کاشتکار ہیں اور پچھلے تیس سال سے ریشم پیدا کرنے والے کیڑے پالتے ہیں۔ وہ کیڑوں کے لیے شاہ توت کے درخت کے پتے ٹہنیوں کے ساتھ کاٹ کر لاتے ہیں۔ تقریباً 35 دن بعد ریشم پیدا کرنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور تین دن بعد یہ کون یا ٹوٹی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’سالانہ 60 سے 80 ہزار روپے مل جاتے ہیں‘ لیکن پچھلے کئی سال سے ان کی آمدن میں بھی کافی کمی آئی ہے اور انھیں اب مشکل سے خریدار ملتے ہیں۔

صوبے میں ریشم کے کیڑے پالنے کا کام کب شروع ہوا؟

پارہ چنار میں قائم نان ٹمبر فارسٹ پراڈکٹ کے سپروائزر امجد حسین کے مطابق سنہ 1952 میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر، اسلام آباد، قبائلی اضلاع اور صوبے کے دیگر اضلاع میں سرکاری سطح پر ریشم پیدا کرنے والے کیڑے پالنے کا عمل شروع ہوا، جو اب تک جاری ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ابتدا میں جنوبی کوریا سے کیڑوں کے انڈے درآمد کر کے رعایتی قیمت پر لوگوں کو فراہم کیے جاتے تھے جبکہ دوسری طرف ملک میں بھی کیڑوں کی افزائش نسل شروع ہوئی اور کئی سال بعد زیادہ اخراجات کی بنا پر بیرونی ممالک سے کیڑوں کی درآمد بند کر دی گئی۔

موجودہ وقت میں کشمیر اور کرم کے علاوہ ملک کے دیگر علاقوں میں ریشم پیدا کرنے والے کیڑوں کو پالنے کا رحجان ختم ہو گیا ہے۔

ایک کاشتکار سالانہ کتنی ریشم پیدا کرتا ہے؟

زینب بنگش تین بچوں کی ماں ہیں اور گھر کے تمام اخراجات گھر میں ریشم پیدا کرنے والے کیڑوں کو پالنے سے پورا کرتی ہیں۔ ان کے شوہر کریانہ سٹورکے مالک تھے جنھیں سنہ 2009 میں علاقے میں بدامنی کے دوران ایک واقعے میں مارا گیا تھا۔

اس کے بعد سے وہ گھر کے اخراجات پورا کرنے کے بارے میں بہت زیادہ پریشان تھیں۔ ایسے میں انھیں گاؤں کی دوسری خواتین نے ریشم کے کیڑے پالنے کا مشورہ دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’بھائی کی مدد سے سرکای مرکز سے کیڑے لائے اور پالنے کے طریقے دوسری خواتین سے سیکھ لیے اور رشیم پیدا کر کے آسانی کے ساتھ آمدن کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔‘

زینب بنگش کا کہنا ہے کہ ہر سال مارچ کے آخری اور اپریل کے شروع میں کیڑے سرکاری مراکز کی طرف سے تقسیم کیے جاتے ہیں جن کو پینتیس سے چالیس دن تک پالا جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ہر کاشتکار دو پیکٹ انڈے یعنی 80 ہزار کیڑے گھر میں پالتے ہیں جبکہ تین کلو کون یا خام ریشم سے ایک کلو صاف ریشم نکالتے ہیں۔

اُن کے بقول ایک بندہ چالیس سے پینتالیس کلوگرام دھاگہ پیدا کرتا ہے جو فی کلو پچیس سو سے تین ہزار میں فروخت ہوتا ہے۔

کیڑے کی پیدائش کے پانچ ہفتے بعد کیڑا منہ سے غدود خارج کرنا شروع کر دیتا ہے جو کہ اصل میں ریشم کا دھاگہ ہوتا ہے اور اس کو کون یا ٹوٹی کی شکل میں محفوظ کر لیتا ہے۔

دو یا تین دن میں یہ عمل مکمل ہونے کے بعد کیڑا کون کے اندر اپنے آپ کو بند کر دیتا ہے۔ کاشتکار اگر آنے والے سال کے لیے انڈے حاصل کرنا چاہتا ہے تو مئی کے مہینے میں کون کے ایک سر کو کاٹ کر چھوٹے سائز میں کیڑے کو نکالنے کے بعد نر و مادہ کے تین گھنٹے ملاپ کے بعد نر کو چھوڑ دیا جاتا ہے جبکہ مادہ چار سو تک انڈے دینے کے بعد مر جاتی ہیں۔

ان انڈوں کو پندرہ درجہ سنٹی گریڈ میں محفوظ کر لیا جاتا ہے اور مارچ کے مہینے میں ان کے لیبارٹری ٹیسٹ کیے جاتے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ ان میں کوئی بیماری تو نہیں۔

بعد میں انڈوں کو انکیوبیٹر میں ایک خاص درجہ حرارت میں چند دنوں کے لیے رکھنے کے بعد لاروا نکل آتا ہے۔

خریدار نہ ملنے کی وجہ کیا ہے؟

علی مہدی ضلع کرم میں ریشم کے کیڑوں کے ٹوٹ یا کون سے دھاگہ نکالنے کے ماہر ہے۔ انھوں نے کہا کہ علاقے کے مختلف مقامات پر لوگوں کو کون سے دھاگے کے حصول کی تربیت دی گئی اور جگہ جگہ بھٹیاں بھی موجود ہیں اور لوگ وہاں پر گھروں سے کون لاتے ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں جنگلات، جنگلی حیات اور ریشم سازی یا سری کلچر جیسے محکمے ایک ڈائریکٹوریٹ کے ماتحت کام کر رہے تھے لیکن سنہ 2007 میں سری کلچر کو نان ٹمبر فارسٹ پروڈکٹ محکمے کی شاخ بنایا گیا اور دو الگ الگ محکمے بنا دیے گئے۔

ڈائریکٹر نان ٹمبر فارسٹ پروڈکٹ خیبر پختونخوا راشد حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ ادارہ باقاعدگی کے ساتھ ہر سال دو ہزار سے زیادہ لوگوں میں ریشم کے کیڑے تقسیم کرواتا اور باقاعدہ تربیت فراہم کی جاتی تھی تاہم پچھلے کئی سال سے اس میں کمی واقع ہوئی ہے جس کی بنیادی وجوہات میں مارکیٹ میں منصوعی دھاگے کے درآمد میں اضافہ، شاہ توت کے درختوں میں کمی اور موسیماتی تبدیلی کے برے اثرات شامل ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ فنڈ کی کمی کا کوئی مسئلہ نہیں البتہ ریشم سازی کی مانگ میں کمی کے بنا پر لوگوں کی دیگر شعبوں میں دلچسپی بڑھ چکی ہے۔

ضم قبائلی اضلاع میں کپڑے کی واحد انڈسٹری ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ میں واقع ہے، جہاں پر 135 چھوٹے بڑے کارخانے تھے لیکن اب یہاں چالیس کارخانے کام کر رہے ہیں۔

باڑہ پاورلوم ایسوسی ایشن کے صدر حاجی رضا خان آفریدی کا کہنا ہے کہ ’پورے ملک میں چین سے درآمد کیے جانے والے مصنوعی دھاگے سے مختلف اقسام کا کپڑا تیا ر کیا جاتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اصل ریشم کا کپڑا انتہائی مہنگا ہے جو عام بندے کی بس کی بات نہیں جبکہ دوسری طرف قدرتی دھاگے کی پیدوار بھی پاکستان میں بہت کم ہے جو کہ کپڑے کے صنعت کی ضروریات پورا نہیں کر سکتا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مصنوعی دھاگے کا کپڑا دو سو روپے فی میٹر ہے جبکہ قدرتی دھاگے کا کپڑا پچیس سو سے تین ہزار روپے فی میٹر ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر ملک میں قدارتی دھاگے کی پیدوار بڑھتی ہے تو اس کا فائدہ نہ صرف کپڑے کے صنعت کو ہو گا بلکہ اس کو برآمد کر کے ملک کو بڑا زرمبادلہ حاصل ہو سکتا ہے۔‘

دوسری جانب امجد حسین کہتے ہیں کہ ’ہر سال کرم میں چھ سے سات ہزار کلوگرام ریشم پیدا ہوتی تھی جس کے خریداری کے لیے پنجاب میں قائم انڈسٹری کے لوگ یہاں پر خود آتے تھے۔‘

تاہم سال 2000 کے بعد سے وسطی ایشائی ریاستوں سے مصنوعی دھاگے کی درآمد شروع ہونے سے قدرتی طورپر پیدا ہونے والے ریشم کی مارکیٹ کو بری طرح متاثر کر دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان کے مقابلے میں موجودہ وقت میں انڈیا اور چین میں اب بھی ریشم کے کیڑوں سے دھاگے کا حصول کافی زیادہ ہے۔‘

امجد حسین کہتے ہیں کہ ’کرم میں چھ سے آٹھ ہزار کلوگرام ریشم پیدا ہوتا تھا جبکہ موجودہ وقت میں دو سے ڈھائی ہزار کلوگرام ہی رہ گیا ہے۔‘

خیال رہے کہ کرم میں مقامی سطح پر ریشم سے روایتی کھڈی میں کپڑا تیا رکر کے اُس پر ہاتھ سے کام کر کے مارکیٹ میں اچھی قیمت پر بیچ دیا جاتا تھا لیکن اب یہ سلسلہ بھی بند ہوچکا ہے۔

ذکیہ بی بی کا کہنا ہے کہ ’ماضی کے مقابلے میں موجودہ وقت میں اُن کی آمدن کافی کم ہو گئی ہے ’کیونکہ پہلے جیسے کون سے ریشم حاصل کیا جاتا تھا تو جلد ہی خریدار مل جاتا لیکن اب ایسا نہیں اور کئی مہینوں تک دھاگے کی فروخت کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔‘

اُنھوں نے کہا کہ اگر اس سلسلے میں خواتین کو تربیت، آلات کی فراہمی اور دھاگے کے لیے بہتر تربیت ملے تو ہزاروں کی تعداد میں خواتین کو روزگار کے مواقع میسر آ سکتے ہیں۔

کیڑے پالنے کے لیے کس قسم کی احتیاط ضروری ہے؟

علی مہدی کا کہنا ہے کہ ریشم کے کیڑے انتہائی حساس ہوتے ہیں اور انھیں پالنے والے افراد کو اس بات کی تلقین کی جاتی ہے کہ وہ ہر تیسرے دن سوکھے ہوئے پتے اور دیگر فضلہ صاف کریں کیونکہ ایسا نہ کرنے سے ان پر فنگس سمیت دیگر بیماریا ں حملہ آور ہو کر پیداوار پر برا اثر ڈال سکتی ہیں۔

اُن کے بقول کیڑوں کو کمرے کے اندار پالا جاتا ہےـ چھپکلی، چیونٹی اور چمگادڑ سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی اقدامات انتہائی اہم ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ کام کرنے والے افراد کے ہاتھ بھی صاف ہونے چاہییں اور اس دوران دستانوں کا استعمال کرنا ضروری ہے۔

راشد حسین کا کہنا ہے کہ کیڑوں کی بہتر پیداوار کے لیے 20 سے 23 سینٹی گریڈ درجہ حرارت درکار ہوتا ہے تاہم پچھلے کئی سال سے درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ریشم کی پیداوار کم اور کیڑوں کی نسل کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ صوبے میں شاہ توت کے درخت کی بے دریغ کٹائی سے ان کے تعداد بہت کم ہو گئی ہے جو کہ ریشم کے حصول کا بنیادی عنصر ہے۔

امجد حسین کا کہنا ہے کہ ادارے کی طرف سے افزائش نسل کے لیے فنڈ بالکل ختم کر دیے گئے ہیں لیکن ان کی نسل کو بچانے کے لیے وہ اپنے عملے کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔