رٹول باغپت کا ایک گاؤں ہے، جو دہلی سے تقریباً 60 کلومیٹر دور ہے۔ اس گاؤں کی پہچان یہاں کے خاص آم بھی ہیں۔اس آم کا نام اسی گاؤں کے نام پرہی رکھا گیا ہے۔
پاکستان میں لوگ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ رٹول انڈین نہیں بلکہ پاکستانی آم ہے۔
اس حوالے سے ایک سیاسی واقعہ بہت مشہور ہوا ہے۔
صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے اس وقت کی انڈیا کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو آم کی ایک خاص قسم پیش کی تھی۔
جنرل ضیاء الحق نے انھیں بتایا تھا کہ اس آم کو رٹول کہتے ہیں اور اس کی نسل پاکستان میں پائی جاتی ہے۔
جب بات اتر پردیش کے گاؤں رٹول تک پہنچی تو وہاں کے کچھ لوگ اندرا گاندھی سے ملنے دہلی پہنچے اور انھیں بتایا کہ رٹول آم پاکستان کا نہیں بلکہ انڈیا میں مغربی اتر پردیش کے ضلع میرٹھ کے گاؤں رٹول کا ہے (اس وقت رٹول گاؤں میرٹھ ضلع ہوا کرتا تھا)۔
اس وقت یہ گاؤں باغپت کی کھیکڑا تحصیل کا رٹول نگر پنچایت ہے۔ جنید فریدی رٹول مینگو پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری اور نگر پنچایت چیئرمین ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا، ’اس وقت کے کابینہ کے وزیر چوہدری چندرم، چچا جاوید فریدی، میں اور ایک دو لوگ اندرا گاندھی سے ملنے دہلی گئے تھے‘۔
’ہم نے انھیں بتایا تھا کہ رٹول آم پاکستان کا نہیں بلکہ میرٹھ کے گاؤں رٹول کی ایک نسل ہے، اسے ہمارے دادا نے تیار کیا تھا، اس پر اندرا گاندھی نے صحافیوں کو بلایا، پریس کانفرنس کی اور اس کی تصویر بھی ہمارے ساتھ لی‘۔
رٹول آم پر پاکستان کے دعوے کے سوال پر رٹول مینگو پروڈیوسرز ایسوسی ایشن سے وابستہ حبیب الرحمان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان رٹول آم پر اپنا جھوٹا دعویٰ پیش کرتا ہے، سچ یہ ہے کہ آم کی یہ نسل باغپت کے گاؤں رٹول میں ہی پیدا ہوئی تھی‘۔
رٹول کی تاریخ اور اس کے حوالے سے ہونے والے دعوے؟
رٹول اب گاؤں سے نگر پنچایت بن چکا ہے اور نگر پنچایت کے صدر جنید فریدی ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ رٹول آم کی نسل کو سب سے پہلے ان کے دادا شیخ محمد آفاق فریدی نے تیار کیا تھا۔
جنید فریدی کا کہنا ہے کہ ’ہم کافی عرصے سے اس آم کے لیے جی آئی ٹیگ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ آم کی اس قسم کو ہمارے دادا شیخ محمد آفاق نے تیار کیا تھا۔‘
وہ کہتے ہیں، ’وہ آم کے درخت کا پتہ کھا کر ہی آم کی انواع بتاتے تھے۔ رٹول آم کی نسل بھی انھوں نے تیار کی تھی، اس کا ثبوت یہ ہے کہ 5 اکتوبر 2021 کو چنئی میں ایک تنظیم نے بنارس میں منعقدہ ایک پروگرام میں ہمارے جی آئی ٹیگ کا اعلان کیا تھا۔‘
وہ کہتے ہیں، ’ہماری برسوں کی محنت رنگ لائی ہے اور ہم رٹول کے برآمد کنندگان بن گئے ہیں‘۔
جی آئی ٹیگ حاصل کرنے کے عمل کے بارے میں، باغپت کے ڈسٹرکٹ ہارٹیکلچر آفیسر، دنیش کمار ارون نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’کسی بھی علاقے کی پیداوار کی شناخت اس علاقے سے ہوتی ہے‘۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جب یہ پراڈکٹ اس سطح تک پہچانی جاتی ہے کہ اسے دور دور تک پہچانا جاتا ہے، تو اس کی تصدیق کے لیے ایک طریقہ کار اپنایا جاتا ہے، اس عمل میں جی آئی ٹیگ تصدیق کے بعد ہی دیا جاتا ہے‘۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں، ’باغپت کے گاؤں رٹول میں پیدا ہونے والے رٹول آم کو سال 2021 میں جی آئی ٹیگ مل گیا ہے، یہ علاقے کے لیے خوشی کی بات ہے‘۔
پودا پاکستان کیسے پہنچا؟
سوال یہ ہے کہ رٹول کی نسل پاکستان تک کیسے پہنچی؟
اس کے بارے میں باغپت کے رٹول گاؤں میں مختلف دعوے کیے جاتے ہیں، لیکن جب سے اس نسل کو جی آئی ٹیگ ملا ہے، ان کے دعووں کو تقویت مل رہی ہے۔
اس آم کو عمر فریدی آرگنائزیشن کے نام سے جی آئی ٹیگ ملا ہے۔ عمر فریدی رٹول کے نگر پنچایت صدر جنید فریدی کے بیٹے ہیں۔
عمر فریدی کہتے ہیں، ’ہمارے پردادا آفاق فریدی ایک بار آم کے باغ کے پاس سے گزر رہے تھے، عادتاً انھوں نے آم کا ایک پتا اٹھایا لیا اور اسے چبانے لگے، انھیں اس پتی کا ذائقہ قدرے مختلف معلوم ہوا، انھوں نے آم کے اس پودے پر کچھ تحقیق کی اور 40 سال کے اندر رٹول کی کئی نسلیں تیار کیں‘۔
عمر فریدی کے دعوے کے مطابق انھوں نے 1928 میں سرہ آفاق نرسری تیار کی جس میں آموں کی 500 سے زائد اقسام موجود تھیں۔
اس کے علاوہ یہ نرسری بھی 1935 میں سرکاری محکمے میں رجسٹرڈ ہوئی جس کا ثبوت ان کے پاس موجود ہے۔
نام کیسے رکھا گیا
یہ آم رٹول گاؤں میں پیدا ہوتا ہے اس لیے اسے رٹول آم کہا جانا فطری بات ہے لیکن پاکستان میں اسے انور رٹول کا نام دیا گیا ہے۔
اگرچہ جنید فریدی کا کہنا ہے کہ ’میری دادی کا نام انور خاتون تھا، میرے دادا نے ان کے نام پر اس آم کا نام انور رٹول رکھا تھا، لیکن تقسیم ہند کے بعد رٹول گاؤں سے ہمارے ایک رشتہ دار پاکستان چلے گئے، تو وہ اس آم کے کچھ پودے اپنے ساتھ لے گئے اور اس کا نام انور رٹول رکھ دیا‘۔
جنید فریدی کا کہنا ہے کہ یہ آم بہت میٹھا اور خوشبودار ہے، ایک کمرے میں دو آم رکھے جائیں تو ایسا لگتا ہے جیسے پورا کمرہ آموں سے بھرا ہوا ہو۔
مینگو پروڈیوسرز ایسوسی ایشن سے وابستہ حبیب الرحمان کا کہنا ہے کہ ’میں نے ایگریکلچر فیکلٹی میں بی ایس سی پاس کیا ہے۔ آم کے باغات جو 10 سال پہلے تک تھے، کم ہو گئے ہیں۔ رٹول آم کی فصل بھی اب صرف 500 ایکڑ کے قریب ہے‘۔
’اس میں بھی درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ اس فصل کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ پچھلے دو سالوں میں رٹول کی پیداوار شاید 20 فیصد ہی رہی ہو‘۔
باغات کی کم ہوتی تعداد پر ریجنل ہارٹیکلچر آفیسر دنیش کمار ارون کا کہنا ہے کہ علاقے میں اینٹوں کے بھٹوں سے آلودگی اور آم کی فصل میں بیماری کی وجہ سے علاقے میں رٹول کی کل کاشت تقریباً 250 ہیکٹر ہے
جب کہ یہ تقریباً 1000 ہیکٹر کے لگ بھگ ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو این سی آر کی دیگر اقسام کی فصل مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے باغات کی تعداد کم ہو رہی ہے‘۔
د نیا بھر میں انور رٹول کی شہرت
ایس ڈی ایم جیوتی شرما کا کہنا ہے کہ ’شہری آبادی کو رٹول آم کے باغات کی کمی کی وجہ نہیں سمجھا جا سکتا، میں نے حال ہی میں یہاں چارج سنبھالا ہے، اس لیے اس آم کی پیداوار بڑھانے کے لیے مناسب کوششیں کی جائیں گی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس نسل کو جی آئی ٹیگ بھی ملا ہے، اب دیکھتے ہیں کہ ہم اس میں کیا بہتر کر سکتے ہیں‘۔
رٹول آم نہ صرف انڈیا بلکہ بیرون ملک بھی مشہور ہے۔
دہلی کے علاوہ ملک کے تمام حکمرانوں اور انتظامیہ میں آم کی مانگ ہے۔ اس کے ساتھ غیر ملکی بھی رٹول کا مزہ چکھنے اس گاؤں پہنچتے ہیں۔
مقامی رہائشی شکیل احمد کا کہنا ہے کہ ’حال ہی میں سویڈن اور چین سے سیاح یہاں پہنچے تھے جبکہ امریکہ، لندن وغیرہ سے لوگ آموں کا مزہ چکھنے کے لیے کئی بار یہاں پہنچ چکے ہیں، وہ آم کے ڈبے بھی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔اس آم کی قیمت 100 روپے فی کلو سے شروع ہوتی ہے‘۔