روس کے اعلیٰ فوجی کمانڈروں میں سے ایک جنرل سرگئی سوروکن، جن کا عرف ’جنرل آرماگیڈن‘ ہے، کو ویگنر جنگجوؤں کی دارالحکومت ماسکو کی جانب چڑھائی کے بعد ایک ہفتے سے عوامی سطح پر نہیں دیکھا گیا۔
جنرل سوروکین کو شام میں روسی افواج کی کمان کے دوران استعمال کیے گئے وحشیانہ طریقوں کی وجہ سے ’جنرل آرماگیڈن‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
سوروکن کا ویگنر گروپ سے کیا تعلق ہے؟
جنرل سوروکین روسی ایرو سپیس فورسز کے کمانڈر اور یوکرین میں ملکی افواج کے ڈپٹی کمانڈر ہیں۔
وہ اکتوبر 2022 سے جنوری 2023 تک یوکرین میں روسی افواج کے کمانڈر ان چیف تھے، جس کے بعد ان کی تنزلی کر دی گئی۔
24 جون 2023 کو جب ویگنر کے جنگجو ماسکو کی طرف بڑھنے لگے تو انھوں نے ایک ویڈیو پیغام میں ان پر زور دیا تھا کہ وہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے حکم پر عمل کریں اور اپنے اڈوں پر واپس جائیں۔
اس ویڈیو کے دوران ان کے لباس پر کوئی فوجی اعزاز، نشان یا رتبہ نہیں تھا اور وہ پریشان اور تھکے ہوئے نظر آئے تھے۔
اس ویڈیو کے بعد سے کسی نے انھیں منظر عام پر نہیں دیکھا۔
امریکی انٹیلیجنس بریفنگ پر مبنی نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنرل سوروکِن کو ویگنر کی بغاوت کے بارے میں پہلے سے علم تھا اور یہ کہ اہلکار ان سے پوچھ گچھ کر رہے تھے کہ آیا وہ ان کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔
تاہم روسی میڈیا نے ان کی بیٹی ویرونیکا کے حوالے سے کہا کہ ’انھیں کچھ نہیں ہوا، وہ کام پر ہیں‘ جبکہ کریملن نے ان کے ٹھکانے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
سوروکن کا ویگنر کے باس یوگینی پریگوزن سے کیا تعلق ہے؟
جنرل سوروکِن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ویگنر کے رہنما یوگینی پریگوگین کے اتحادی تھے۔
پریگوزن کا کہنا ہے کہ جب ویگنر کی افواج مشرقی یوکرین میں باخموت پر قبضہ کرنے کے لیے لڑ رہی تھیں، سوروکِن نے درخواست کردہ اضافی گولہ بارود حاصل کرنے کی کامیاب کوشش کی۔
پریگوزن کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنرل سوروکِن نے ویگنر کے گروپ اور روسی فوجی کمانڈروں کے درمیان رابطے کے طور پر ایک خاص کردار ادا کیا۔
پریگوگین نے اس وقت ان کے بارے میں کہا کہ ’وہ واحد آدمی ہیں، جس کے پاس آرمی جنرل کا ستارہ ہے اور وہ لڑنا جانتے ہیں۔ کوئی دوسرا آرمی جنرل معقول آدمی نہیں۔‘
مئی 2023 میں انھوں نے کہا کہ سوروکین کو یوکرین میں روسی افواج کے کمانڈر ان چیف کے طور پر دوبارہ تعینات کیا جانا چاہیے۔
جبکہ ایک روسی تفتیشی گروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس دستاویزات ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنرل سوروکِن 30 سینئر فوجی اور انٹیلیجنس افسران میں سے ایک ہیں جو ویگنر گروپ کے ’انتہائی اہم‘ ارکان ہیں۔
یوکرین جنگ میں سوروکِن نے کیا کردار ادا کیا؟
آٹھ اکتوبر 2022 کو روسی صدر پوتن نے جنرل سوروکین کو یوکرین میں اپنے ’خصوصی فوجی آپریشنز‘ کا کمانڈر ان چیف مقرر کیا تھا۔ وہ اس عہدے پر فائز ہونے والے پہلے شخص تھے۔
اس سے پہلے وہ جنوبی یوکرین میں روسی افواج کے انچارج تھے۔ یوکرین کی فوج نے حال ہی میں مشرقی ڈونباس کے علاقے کے بڑے حصے پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا اور روس دوبارہ بالادستی حاصل کرنے کے لیے بے چین تھا۔
جنرل سورووکِن جو اپنی بے رحمی کے لیے مشہور ہیں کی کمان میں، روسی افواج نے موسم سرما میں یوکرین میں شہری انفراسٹرکچر، جیسے پاور پلانٹس، پر توپ خانے اور ڈرونز کے متعدد حملے کیے تھے۔
جنرل سوروکِن نے یوکرین کے صوبہ خیرسون کے شہر اور دریائے دنیپرو کے مغربی کنارے سے تقریباً 30,000 روسی فوجیوں کے انخلا کی نگرانی بھی کی تاکہ انھیں روسی فوج سے منقطع ہونے اور گھیرنے جانے سے بچایا جا سکے۔
تاہم سوروکن جنگ کا رخ روس کے حق میں موڑنے میں ناکام رہے اور پوتن نے جنوری 2023 میں ان کی جگہ چیف آف دی جنرل سٹاف والیری گیراسیموف کو تعینات کر دیا۔ وہ گیراسیموف کے تین نائبین میں سے ایک کے طور پر رہے۔
روسی فوج کے کمانڈر جنرل سوروکن کون ہیں؟
جنرل سوروکن سنہ 1966 میں نوووسبرسک میں پیدا ہوئے اور انھیں روس کی حالیہ جنگوں کا وسیع تجربہ ہے۔
جنرل سوروکن نے 1980 کی دہائی کے آخر میں افغانستان میں اپنے فعال فوجی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ روسی تاریخ اور ثقافت کے پروفیسر پیٹر والڈرون کا کہنا ہے کہ ’یہ وہ وقت تھا جب حالات ’انتہائی ناموافق‘ تھے اور سوویت ہار رہے تھے۔‘
پروفیسر والڈرون کے مطابق ان حالات نے جنرل سوروکن کے کردار اور ساکھ کو بنانے میں کردار ادا کیا کیونکہ انھوں نے اس وقت کے آغاز سے ہی وہ ‘واضح تشدد میں’ ملوث رہے تھے۔
فرونز ملٹری اکیڈمی میں بطور طالبعلم، جنرل سوروکن کو ایک ہم جماعت کو غیر قانونی طور پر پستول فروخت کرنے کے الزام میں معطل کر دیا گیا تھا۔ انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انھیں ’پھنسایا‘ گیا تھا اور بعد ازاں ان کے ریکارڈ سے اس سزا کو ہٹا دیا گیا تھا۔
جنرل سوروکن نے 1990 کی دہائی میں تاجکستان اور چیچنیا کے تنازعات اور حال ہی میں شام میں بھی خدمات انجام دی ہیں، جہاں ماسکو نے 2015 میں شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کی جانب سے مداخلت کی تھی۔
جنرل سوروکن فضائی آپریشن کا تجربہ نہ رکھنے کے باوجود روس کی ایرو سپیس یونٹ کے کمانڈر کے طور پر تعینات رہے اور انھوں نے اس دوران شام کے شہر حلب میں ہونے والے تباہی کی فضائی کارروائیوں کا جائزہ لیا تھا۔
سوروکِن کو ’جنرل آرماگیڈن‘ کیوں کہا جاتا ہے؟
جنرل سورووکن نے پہلی بار اگست 1991 میں عوامی شہرت اس وقت حاصل کی جب وہ فوج کے کپتان تھے۔
سنہ 1991 میں ماسکو میں جموریت کے حق میں کیے گئے احتجاج میں مظاہرین اور ایک فوجی قافلے کے مابین جھڑپوں میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
بی بی سی رشئین سروس کے مطابق مظاہرین نے فوجی قافلے کا راستہ روکا تھا جبکہ اس قافلے کی قیادت جنرل سوروکن کر رہے تھے انھوں نے ان پر گاڑی چڑھا دینے کا حکم جاری کیا تھا تاہم ان کے خلاف تمام الزامات اس بنیاد پر واپس لیے گئے تھے کہ وہ صرف احکامات مان رہے تھے۔
اس کے بعد انھوں نے 1990 اور 2000 کی دہائیوں میں تاجکستان اور چیچنیا میں روس کی جنگوں میں حصہ لیا۔
چیچنیا میں، سوروکن کو اس کے ماتحتوں نے مقامی شہریوں کے خلاف تشدد کا کئی بار عوامی طور پر الزام لگایا۔ سنہ 2017 میں صدر پوتن نے جنرل سوروکن کو شام میں ان کی خدمات کے لیے روس کے سب سے بڑے اعزاز ’ہیرو آف رشیا‘ میڈل سے نوازا تھا جبکہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے انھیں ایسے شخص قرار دیا تھا جسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
کئی مواقعوں پر جنرل سوروکن کی کمان میں فوجیوں پر شہریوں کے خلاف تشدد کا الزام لگایا گیا ہے۔
بی بی سی رشئین سروس کے مطابق عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ چیچینا میں فوجی کارروائیوں کے دوران مقامی افراد کے گھروں کو مسمار کیا گیا تھا اور لوگوں کو مارا پیٹا گیا تھا تاہم جنرل سوروکن ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔