اہم خبریں

روسی خام تیل چینی کرنسی میں خریدنے سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا؟

وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے گذشتہ پیر کو خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا کہ ان کی حکومت نے روس سے خام تیل خریدنے کے لیے چینی کرنسی کا استعمال کیا ہے۔

حکومت پاکستان کے اس اقدام کو ایک بڑا پالیسی فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے۔

روس سے رعایتی نرخوں پر خام تیل کی فراہمی کو بحران کی شکار پاکستانی معیشت اور مہنگائی میں گھری عوام کے لیے ریلیف کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف گذشتہ ہفتے کے دوران اپنی تقاریر میں یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ پاکستان کو عالمی منڈی کے مقابلے میں روس سے 15 ڈالر فی بیرل سستا تیل مل رہا ہے۔

پاکستان کو اس وقت ادائیگیوں کے توازن کا مسئلہ درپیش ہے اور بیرونی قرضوں کی وجہ سے ملک ڈیفالٹ ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔

موجود صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے مرکزی بینک کے پاس اتنے زرمبادلہ کے ذخائر نہیں ہیں کہ وہ ایک ماہ کی درآمدات کی ادائیگی بھی کر سکے۔

خیال رہے کہ پاکستان اور روس کے درمیان رعایتی روسی تیل کا معاہدہ اس سال کے شروع میں ہوا تھا اور اس کی پہلی کھیپ گذشتہ اتوار کو کراچی پہنچی ہے۔

پاکستان نے معاہدے پر کیا کہا؟

انھوں نے کہا ہے کہ یہ ایک لاکھ ٹن کا سودا ہے جس میں سے 45 ہزار ٹن کراچی بندرگاہ پر پہنچ چکا ہے اور باقی راستے میں ہے۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس خام تیل کو ریفائنری میں پراسیس کیا جائے گا جس کا فائدہ مقامی مارکیٹ کو ہو گا۔

پاکستان کی جانب سے دیگر ممالک کو ڈالر میں کی جانے والی ادائیگیوں میں توانائی کی درآمد کا بڑا حصہ شامل ہے۔

کیپلر کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے سال 2022 میں روزانہ 154 ہزار بیرل تیل درآمد کیا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارا ہدف روس سے اپنی ضرورت کا ایک تہائی تیل درآمد کرنا ہے۔

پاکستان میں زیادہ تر خام تیل سعودی عرب اور پھر متحدہ عرب امارات سے درآمد کیا جاتا تھا جسے اریبیئن لائٹ آئل کہا جاتا ہے۔

’اس معاہدے سے ہمیں ہر صورت میں فائدہ ہو گا‘

پاکستان وزیرِ مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے جیو نیوز کے پروگرام آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’روس میں آٹھ قسم کے مختلف تیل کی کوالٹی ہیں، ہم سب سے زیادہ لائٹ تو نہیں لے رہے، لیکن اس کم لائٹ یعنی یورال خرید رہے ہیں۔

’ہماری ریفائنریز لائٹ اریبیئن کروڈ آئل کے لیے بنی ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہماری پرانی ٹیکنالوجی ہے جو اسی تیل کی ریفائننگ کے لیے بنی تھیں۔‘

’اگر ہم تھوڑا سا ہیوی آئل استعمال کریں گے تو اس میں بلیک آئل یا فرنیس آئل کی مقدار بڑھ جائے گی۔ ہم نے تمام اندازے لگا لیے ہیں۔ ہم نے یہ بھی اندازہ لگایا ہے کہ اگر بلیک آئل بڑھ جائے تو ہم خسارے میں نہیں جائیں گے بلکہ یہ بھی ہمارے لیے فائدہ مند ہو گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے اس کی اکاؤنٹنگ کے لیے پہلے سیمپل منگوایا تھا اور پھر اس حوالے سے تصدیق ہونے کے بعد یہ تیل منگوایا گیا تھا۔

’پاکستان ریفائنری لمیٹڈ نے بتایا کہ وہ 30 سے 35 فیصد تک روسی تیل کو اریبیئن لائٹ کے ساتھ مکس کر کے استعمال کر سکتے ہیں۔ پارکو نے بتایا کہ وہ 25 سے 30 فیصد تک استعمال کر سکتے ہیں اور ایک پرائیویٹ سیکٹر کی کمپنی نے کہا کہ 70 فیصد تک استعمال کر سکتے ہیں۔‘

مصدق ملک کا کہنا تھا کہ ’ایک تو ہماری فرنس آئل کے زیادہ بننے سے قیمت بڑھے گی جو ہم نے اپنے اکاؤنٹنگ ماڈل میں ڈال دی ہے۔ دوسرا ہماری آمدورفت کی قیمت میں اضافہ ہو گا، اس لیے ہم نے ایک لاکھ ٹن کا جہاز بک کیا جسے پاکستان کی بندرگاہ کے قریب لا کر 50، 50 ہزار کے دو بحری جہازوں میں منتقل کر دیا گیا کیونکہ پاکستان میں کوئی ایسی بندرگاہ نہیں ہے جہاں ایسا کوئی جہاز اتر سکے۔ اسی طرح ہماری انشورنس کی قیمت بھی بڑھی ہے، لیکن پھر بھی ہمارا فائدہ ہوا ہے۔‘

چینی کرنسی کیوں استعمال کریں؟

مصدق ملک کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے نقطہ نظر سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کس کرنسی میں معاہدہ ہو رہا ہے۔ کیونکہ ہم پہلی مرتبہ چین کے ساتھ معاہدہ کرنے جا رہے تھے اس لیے بینک کوئی معاہدہ کرنے سے گھبرا رہے تھے۔

’اس لیے جس بینک کے ذریعے ہم نے ادائیگی کی اس بینک کی ترجیح آر ایم بی تھی۔ ہمیں ڈالر سے بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘

پاکستان چینی کرنسی میں کاروبار کرنے والا واحد ملک نہیں ہے۔

بنگلہ دیش نے بھی حال ہی میں ایک سکیم کے لیے ڈالر کی بجائے چینی کرنسی یوآن میں ادائیگی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وہ زیر تعمیر پاور پلانٹ کے لیے روس کو چینی کرنسی میں 110 ملین ڈالر ادا کرے گا۔

برکس ممالک کا گروپ ڈالر کے غلبے کو ختم کرنے اور دیگر کرنسیوں میں لین دین شروع کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

انڈیا روپے کا استعمال کرتے ہوئے روسی خام تیل کی خریداری کو بھی فروغ دینا چاہتا تھا۔ انڈیا نے روس کے ساتھ روپوں میں تجارت کرنے کی بہت کوشش کی لیکن اس میں کامیابی ممکن نہیں ہو سکی ہے۔

اس وقت روس انڈیا کو اسلحہ اور دیگر فوجی ساز و سامان فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔

لیکن یہ سپلائی اب بند ہو گئی ہے کیونکہ امریکہ نے اس طریقہ کار پر پابندی لگا رکھی ہے جس کے ذریعے انڈیا روس کو رقم کی ادائیگی کرتا ہے۔

انڈیا کو ہتھیاروں اور دیگر فوجی ساز و سامان کی فراہمی کے لیے روس کو دو ارب ڈالر ادا کرنے ہیں۔

لیکن پابندی کی وجہ سے یہ ادائیگی گذشتہ ایک سال سے التوا کا شکار ہے۔

انڈیا کو خدشہ ہے کہ ایسا کرنے سے وہ امریکی پابندیوں کا شکار ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب روس روپے میں ادائیگی لینے کو تیار نہیں۔

انڈین بینکوں نے روسی بینکوں میں ووسٹرو اکاؤنٹس کھولے تاکہ روپے میں ادائیگی کر کے تیل خریدا جا سکے۔

اسے یوآن کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ روس چین کے ساتھ مسلسل کاروبار کر رہا ہے۔

چین، پاکستان، روس سب کو فائدہ ہے

تجزیہ کار اور صحافی خرم حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ روس سے یوآن میں ڈیل چین، پاکستان اور روس کا مشترکہ فیصلہ ہی ہے۔

ان کے مطابق پاکستان نے سنہ 2011 میں پہلی بار چین کے ساتھ ’سواپ فیسلٹی‘ کا معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان نے روپے کے بدلے سنہ 2013 میں چینی یوآن حاصل کیے تھے۔

ان کے مطابق پاکستان کو یوآن میں ڈیل کا سب سے بڑا اور فوری فائدہ تو یہی ہے کہ اسے ڈالر نہیں دینے پڑے، جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی واقع نہیں ہوئی۔

ان کے مطابق اگرچہ اس ڈیل سے پاکستان کے یوآن کم ہو جائیں گے مگر اس وقت پاکستان کو ڈالر ریلیف کی ضرورت ہے۔

چینی امور کے ماہر اتل بھاردواج کا کہنا ہے کہ ’ڈی ڈالرائزیشن کی مہم روس اور چین نے شروع کی ہے اور اسے کامیابی تصور کیا جائے گا۔ روس کی چین کے ساتھ تجارت بہت بڑھ گئی ہے اس لیے یہ کرنسی استعمال کی جائے گی۔

’چین کو نہ صرف یوآن کی تجارت سے فائدہ ہو گا بلکہ ان ممالک کی ڈالر کو کم کرنے کی مہم سے بہت فائدہ ہو گا۔‘

اُنھوں نے کہا کہ ’روس پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرنا چاہتا ہے، جس طرح انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتا ہے، مغربی ممالک کی پابندیوں کے درمیان ان ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا فائدہ مند ہے۔‘

پاکستان کی چین کے ساتھ تجارت میں اضافہ ہوا ہے اور امریکہ سے ڈالر خریدنا ان کے لیے مہنگا ثابت ہو گا، اگر وہ چین کے ساتھ تجارت کے لیے یوآن کا استعمال کریں تو ان کی کمزور معیشت کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔

ساتھ ہی چین کو چینی کرنسی میں لین دین سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔