اہم خبریں

رخصتی سے قبل فرار ہونے والا دولہا دولہن کی شکایت پر گرفتار: ’لڑکے سے سوال کرتے ہیں تو روتا ہے‘

دولہن کا گھر روشنیوں سے چمک رہا تھا اور شامیانے کے داخلے پر خوب آرائش تھی۔ کشمیر کا روایتی پکوان وازوان بس پروسا جانا تھا کہ کسی نے یہ خبر سُنا دی کہ دُولہا نہیں آئے گا کیونکہ وہ اپنے گھر سے فرار ہو گیا ہے۔

یہ سُن کر دُولہن کو غش آ گیا اور اُس کے والدین رونے لگے۔ لیکن معاملہ یہاں رکا نہیں۔ دولہن نے پولیس میں شکایت کر دی۔

یہ معاملہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کا ہے جہاں ایک دولہن کی شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے مقامی پولیس نے سرینگر سے جنوب کی طرف 35 کلومیٹر دُور اونتی پورہ قصبے سے فیاض احمد ڈار اور ان کے والد محمد شعبان ڈار کو گرفتار کر لیا۔

یہ معاملہ اس لیے بھی سنجیدہ تھا کیوں کہ فیاض احمد کا نکاح چار سال قبل ہو چکا تھا اور اب صرف رُخصتی ہونا باقی تھی۔

اونتی پورہ میں پولیس کے ایک سینیئر افسر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’دولہے (فیاض ڈار) کے خلاف بیوی کو ہراساں کرنے اور دھوکہ بازی سے متعلق انڈین پینل کوڈ کی دفعات 498 اور 420 کے تحت مقدمے درج کیے گئے ہیں اور اس معاملے کی مزید تفتیش ہو رہی ہے۔‘

بُدھ کے دن فیاض ڈار اور اُن کے والد کو عدالت میں بھی پیش کیا گیا۔

دُولہن کے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ ’ہم تو دُولہے کی مسند تیار کر رہے تھے، میں نے کھانے کا جائزہ لیا، استقبال کی تیاری ہو رہی تھی، دُولہن بھی تیار ہو چکی تھی۔ جب سُنا کہ دُولہا نہیں آئے گا تو خوشی کا ماحول ماتم میں بدل گیا۔‘

’عین شادی کے وقت فرار ہو جانا تو جُرم ہے‘

اس معاملے میں ایک اور حیران کن نکتہ اس وقت سامنے آیا جب بی بی سی نے اونتی پورہ کی مقامی سیاستدان اور مقامی میونسپل کمیٹی کی چیئرپرسن شمیمہ رینا سے بات کی جنھوں نے بتایا کہ فیاض ڈار کا نکاح چار سال پہلے اس لڑکی کے ساتھ لو میرج کا نتیجہ تھا۔

’شادی ہفتے کو طے تھی اور جمعے کے دن مہندی۔ رات کو لڑکے والے رسم کے مطابق مہندی لے کر بھی آئے تھے۔ سب کچھ ٹھیک تھا لیکن عین بارات سے پہلے لڑکا غائب ہو گیا اور ان کے گھر والے کہنے لگے وہ یونیورسٹی گیا ہوا ہے، اسی لیے دیر ہو گئی۔ لیکن پھر ہم نے پولیس کی مدد لی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ دونوں کے درمیان کئی سال پہلے تعلق پیدا ہوا تھا اور بعد میں دونوں طرف سے رضامندی کے ساتھ نکاح ہوا۔

شمیمہ کہتی ہیں: ’چونکہ دونوں پڑھائی کر رہے تھے، اس لیے طے پایا تھا کہ رُخصتی چند سال بعد ہو گی۔ لیکن یہ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ لڑکا عین وقت پر مُنھ پھیر لے گا، یہ تو دھوکہ بازی ہے۔‘

سماجی امور پر تحقیق کرنے والے محقق سُہیل میر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ چند برسوں کے دوران میاں بیوی کے جھگڑوں کے سینکڑوں واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ ’حیران کن پہلو یہ ہے کہ ان جھگڑوں میں اکثریت ایسے جوڑوں کی ہے جنھوں نے لو میریج کی ہوتی ہے۔‘

فیاض ڈار کے معاملے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ دونوں اکثر سیر کو جاتے تھے اور دونوں کے درمیان بظاہر کوئی تناؤ نہیں تھا۔

تاہم لڑکی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ فیاض ڈار بہت ’ڈیمانڈنگ‘ تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہو سکتا ہے کہ ان چار برسوں کے دوران کسی بات پر جھگڑا ہوا ہو، لیکن فیاض کو اس بات کی اطلاع گھر والوں کو شادی کی تاریخ طے کرتے وقت دینا چاہیے تھی۔‘

’عین شادی کے وقت فرار ہو جانا تو جُرم ہے، اُس کو سزا ملنی چاہیئے۔‘

’کبھی کپکپی طاری ہوتی ہے اور کبھی وہ روتا ہے‘

فیاض ڈار اور اُن کے والد سے پوچھ گچھ کرنے والے ایک پولیس افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دونوں بالکل چپ ہیں۔ لڑکے سے ہم سوال کرتے ہیں تو اس پر کبھی کپکپی طاری ہوتی ہے اور کبھی وہ روتا ہے۔ اب عدالت میں دونوں کا بیان ریکارڈ کیا جائے گا۔‘

محمد شعبان کے دو بیٹوں کی شادی ایک ہی دن طے تھی۔ فیاض کے بھائی کی شادی ان کے اپنے چچا کی بیٹی کے ساتھ ہونے والی تھی۔

لیکن جب فیاض کے فرار کی خبر سے علاقے میں کھلبلی مچ گئی اور لوگوں نے لڑکے والوں کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا تو دوسری بارات بھی روک لی گئی۔

لڑکےکے ایک رشتے دار نے بتایا: ’لوگوں میں غصہ تھا۔ ہم ڈر گئے کہ اگر ہم دوسری دولہن کو لے کر آئے تو یہاں ماحول خراب ہو سکتا ہے۔‘

’اس لیے دونوں طرف سے رضامندی کے ساتھ طے پایا کہ وہ والی شادی بھی ملتوی کی جائے۔‘