’کِنا سونا تینوں رب نے بنایا۔۔۔‘ گلوکار راحت فتح علی خان کے بیٹے شاہ زمان کے منھ سے یہ بول سن کر کئی فینز کو استاد نصرت فتح علی خان کی جھلک دکھائی دی ہے۔
یہ پنجابی گیت حال ہی میں نصرت فتح علی خان کے پوتے اور راحت فتح علی خان کے جواں سال بیٹے شاہ زمان نے امریکہ کے ایک کنسرٹ میں گایا جس کی ویڈیو خوب وائرل ہوئی۔
استاد نصرت اور راحت کے قوال خاندان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس ایسا ہنر ہے جس سے شہرت، عروج اور دولت ہمیشہ ان پر عاشق رہے گی۔
یہ کہنا تو قبل از وقت ہوگا کہ آیا شاہ زمان واقعی اگلے ’نصرت‘ ہوں گے مگر ان کی آواز نے بہت سے لوگوں کو ابھی سے متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔
راحت فتح علی خان اور ان کے بیٹے شاہ زمان کے بچپن کی تصویر
’فقیر نے ہمارے خاندان کی 32 پشتوں کے عروج کی دعا کی تھی‘
راحت نے اپنے بیٹے شاہ زمان فتح علی خان کے کیریئر کی پہلی پرفارمنس کی مقبولیت پر کہا ہے کہ یہ سب ’رب کا کرم اور مرشد کی دعا کا فیض ہے۔‘
انھوں نے عاجزانہ انداز میں کہا کہ پروردگار نے یہ موقع فراہم کیا ہے۔ نصرت فتح علی خان کے عروج کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ ’استاد نصرت فتح علی خان جنوبی ایشیا کے پہلے فنکار تھے جن کا سٹارڈم مغربی دنیا میں تسلیم کیا گیا تھا۔‘
صرف 48 سال کی زندگی میں قوالیوں کے 125 والیم ریکارڈ کرنے پر سنہ 2001 میں استاد نصرت کا نام ’گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ‘ میں شامل کیا گیا تھا۔ انھیں 1997 میں دو بار گریمی ایوارڈ کے لیے نامزد بھی کیا گیا۔ اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق وہ اپنی نسل کے بہترین قوال تھے۔
راحت فتح علی خان نے بتایا کہ 1997 میں نصرت کی زندگی کے آخری دنوں میں بھی ان کی میڈونا اور مائیکل جیکسن جیسے سٹارز کے ساتھ کولیبریشن کی بات چیت چل رہی تھی مگر اسی سال اگست میں ان کی وفات ہوئی۔ ’میرے تایا استاد نصرت فتح علی خان اور والد استاد فرخ فتح علی خان سے پہلے میرے دادا استاد فتح علی خاں استاد مبارک علی خان کی جوڑی بھی برصغیر میں مستند و مقبول ہوئی۔‘
راحت فتح علی خان نے اسی سفر کو جاری رکھتے ہوئے خاصی مقبولیت سمیٹی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’رب کا کرم اور مرشد کی دعا ہے کہ میرا بیٹا شاہ زمان بھی اس سے فیض یاب ہو رہا ہے۔‘
ہم نے استاد راحت فتح علی خان سے دریافت کیا کہ موسیقی کے فن سے وابستہ لوگ کہتے ہیں کہ ’آپ کے خاندان کو فقیر کی دعا ہے، اس کی حقیقت کیا ہے؟‘
یہ سنتے ہوئے راحت کی آنکھیں آنسوؤں سے چمک اٹھیں۔ انھوں نے کپکپاتی آواز میں کہا کہ ’یہ ہمارا یقین ہے۔ اس لیے نہیں کہ ہماری آنے والی نسلوں کو شہرت اور عروج کی نوید دی گئی ہے۔ مگر اس لیے کہ ہم نے اپنے مرشد کی کہی بات کو اپنا یقین اور مقدر مانا ہے۔ فقیر کی دعا رب رحیم نے سنی اور ہم فیض یاب ہوئے۔‘
استاد راحت نے بیان کیا کہ ’19ویں صدی کی دوسری دہائی کا زمانہ تھا۔ میرے دادا مبارک علی فتح علی قوال اور ہمنوا اپنے مرشد کے ہاں محفل سماع کے لیے گئے جہاں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس میں ہمارے ایک بزرگ کا ایک دانت ٹوٹ گیا۔
’لیکن اس کے باجود مرشد کی دلجوئی کے لیے محفل سماع سجائی گئی، اس موقع پر مرشد کے دل سے دعا نکلی کہ تم نے اپنا ایک دانت قربان کیا ہم تمھاری 32 پشتوں کے عروج کے لیے دعا دیتے ہیں۔‘
استاد راحت نے بیان کیا کہ اس کے بعد ’میرے دادا استاد فتح علی خاں، استاد مبارک علی خاں برصغیر پہ چھاگئے۔ استاد نصرت فتح علی خاں اور استاد فرخ فتح علی خاں دوسری پشت، میں تیسری پشت اور شاہ زمان فقیر کی دعا کی فیض یاب چوتھی پشت ہے۔ اور ہمارا یقین ہے کہ پروردگار کی عطا اور مرشد کی دعا کا فیض اگلی 28 پشتوں تک چلتا رہنا ہے۔‘
شاہ زمان: ’میرے بزرگوں نے آنے والی نسلوں کے لیے میوزک کا خزانہ چھوڑا‘
امریکی ریاستوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے بعد لاہور آمد پر جب ہماری ملاقات شاہ زمان فتح علی خان سے ہوئی تو وہ بظاہر جیٹ لیگ کے اثر میں تھے۔ مگر اس کے باوجود وہ اپنے کامیاب دورے پر کافی پُرجوش تھے۔
انھوں نے کہا کہ ’یوں تو میں اپنے والد کے ساتھ آٹھ سال کی عمر سے ہی سنگت کر رہا ہوں لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے کنسرٹس کے سکینڈ ہاف میں دو عدد سولو آئٹمز گانے کا موقع ملا۔ پروردگار کا شکر اور میرے بزرگوں کی دعاوں کا نتیجہ ہے کہ میرے بڑوں کی طرح لوگ مجھے بھی پیار کر رہے ہیں۔‘
ویڈیو وائرل ہونے کے بعد نصرت سے موازنہ کیے جانے پر شاہ زمان نے احتراماً اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا کہ ’میوزک لورز کو اگر میرے گانے سے استاد نصرت جیسے میوزک لیجنڈ کی جھلک دکھائی دی ہے تو میں اسے صرف اپنی خوش نصیبی کہوں گا۔‘
شاہ زمان نے بتایا کہ انھیں بچپن سے ہی قوالی اور کلاسیکی موسیقی کا شوق رہا ہے۔ ’نجانے کب میں ہارمونیم پر بیٹھ گیا، جب سے پیدا ہوا ہوں والد صاحب کو گاتے بجاتے دیکھا ہے۔‘
راحت کے صاحبزادے بے تکلف ہو کر کہتے ہیں کہ ’یہ سنگیت میرے خون میں بھی ہے، لہذا مجھے اس طرف آتے ہوئے سوچ بچار سے کام نہیں لینا پڑا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کے والد اور بزرگ دس، دس گھنٹے ریاض کیا کرتے تھے تو وہ خود میوزک کو کتنا وقت دیتے ہیں، تو انھوں نے کہا کہ ’میرا میرے بزرگوں سے مقابلہ نہیں ہے۔ (میں) چاہتا ہوں میرے بزرگوں کی دعائیں اور برکات مجھے نصیب ہوں۔ میں دن میں ڈیڑھ سے دوگھنٹے ریاض کرتا ہوں لیکن اب اس کا دورانیہ بڑھا دوں گا۔‘
شاہ زمان نے بتایا کہ ’میرے والد مجھے کلاسیکی موسیقی، قوالی کے ساتھ پلے بیک میوزک کی تربیت بھی دے رہے ہیں۔ ریاضت کے بعد جو وقت کھیل کود کا ہوتا ہے اس میں اپنے دادا استاد نصرت فتح علی خان اور فرخ فتح علی خاں کا میوزک سنتا ہوں۔‘
’میرے بزرگوں نے میرے اور آنے والی نسلوں کے لیے میوزک کا خزانہ چھوڑا ہے، جو میرے سمیت سیکھنے والوں کے لیے یونیورسٹی کا درجہ رکھتا ہے۔‘
شاہ زمان نے بتایا کہ ان دنوں وہ اپنے دادا استاد فرخ فتح علی خاں اور پردادا استاد سلامت علی خاں کی ہارمونیم بجانے کی تکنیک پر ریسرچ کر رہے ہیں۔ ’میری خواہش ہے کہ میری انگلیاں میرے بزرگوں جیسی ملائم ہوں۔‘