اہم خبریں

دھونی: پانچواں آئی پی ایل جیتنے والے ’پل دو پل کے شاعر‘ جو اپنے آپ میں ایک ’گورکھ دھندا‘ ہیں

دھونی کے جتنے بھی انٹرویوز سنیں ان میں ایک قدر مشترک ہو گی اور وہ یہ کہ وہ ہمیشہ ان باتوں کو بار بار دہرائیں گے۔ ’میں حال میں جیتا ہوں‘، ’مجھے نتیجے کی فکر نہیں ہوتی‘ کیونکہ ’میں فیصلہ کرنے کے مراحل میں گم ہوتا ہوں۔‘ ایک نظر میں تو یہ ایسی باتیں ہیں جو شاید خاصی غیر اہم لگتی ہیں لیکن دراصل یہی دھونی کا نصب العین ہے۔ بھرت بتاتے ہیں کہ ’دھونی اکثر پارٹیز پر فون نہیں لے کر جاتے تو لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ دھونی ہیں، کیا آپ کو اہم فون نہیں آنے ہوتے، تو وہ کہتے ہیں کہ اگر میں نے آپ کو یہ وقت دیا ہے، تو یہ صرف آپ کے لیے ہے، اس دوران کوئی اور مداخلت نہیں ہو گی۔‘ بھرت کہتے ہیں کہ دھونی کا حال میں جینے کا جنون ایسا ہے کہ وہ کبھی کسی نجومی سے قسمت کا حال نہیں پوچھتے حالانکہ یہ چیز ان کے آبائی علاقے میں خاصی عام ہے۔ وہ اس کی وجہ یہی بتاتے ہیں کہ مجھے مستقبل کے بارے میں پتا کر کے کچھ حاصل نہیں کرنا، میں اس لمحے میں خوش ہوں۔ فیصلے کے مراحل کے بارے میں سوچنے اور نتیجے کی فکر نہ کرنے کے باعث دھونی اپنے جذبات پر قابو تو رکھتے ہیں ہی لیکن ساتھ ہی اس سے ان کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی بہتر ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بہت سے فیصلے جو عام عوام کو خاصے عجیب لگتے ہیں، وہ دراصل کسی نہ کسی منطق کی بنا پر ہوتے ہیں۔ سنہ 2007 کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی فائنل کا آخری اوور جوگیندر شرما کو دینے کی وجہ ان کے نیٹس میں اچھے یارکر تھے، ورلڈ کپ 2011 کے فائنل میں ان فارم بلے باز یوراج سے پہلے آنے کا مقصد یہ تھا کہ انھوں نے مرلی دھرن کو آئی پی ایل میں اپنی ٹیم میں کھیل رکھا تھا اور سنہ 2016 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بنگلہ دیش کے خلاف ایک گلو اتار کر آخری گیند کے لیے تیار کھڑے ہونے کے باعث وہ باآسانی رن آؤٹ کرنے میں کامیاب رہے۔ دی دھونی ٹچ میں بھرت دھونی کی شخصیت کو کچھ ایسے بیان کرتے ہیں کہ ’دنیا کے لیے وہ بیشک ایک معمہ ہیں، لیکن اپنے آپ میں انھیں بخوبی معلوم ہے کہ وہ کون ہیں۔‘

’میں پل دو پل کا شاعر ہوں، پل دو پل میری کہانی ہے۔۔۔‘ یہ وہ گانا جس کے ذریعے مہندرا سنگھ دھونی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے سنہ 2020 میں انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا۔

ساحر لدھیانوی کی یہ نظم گلوکار مکیش نے سنہ 1976 کی فلم ’کبھی کبھی‘ میں اپنی آواز سے امر کر دی تھی۔ دھونی نے بعد میں اس گانے کو چننے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ گانا میرے کھیل سے مطابقت رکھتا ہے کہ میرے بعد جو لوگ آئیں گے وہ مجھ سے اچھا کھیلیں گے اور اگر لوگ مجھے مستقبل میں بھلا بھی دیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘

دھونی کی شخصیت میں موجود انکساری اور ان کی حال میں رہنے کی جستجو کی ترجمانی اس گانے میں بہترین انداز میں ہوتی ہے۔

لگ بھگ تین برس بعد گذشتہ رات گئے کھیلے جانے والے آئی پی ایل کے فائنل کے بعد بھی دھونی کو ایک ایسے ہی فیصلے کا سامنا تھا۔

اکتالیس برس کے دھونی دنیا کی سب سے بڑی ٹی 20 لیگ آئی پی ایل میں اپنی ٹیم چنئی سپر کنگز کی کپتانی کرتے ہوئے پانچویں مرتبہ ٹائٹل جیت چکے تھے۔

بارش سے متاثرہ یہ فائنل گجرات ٹائٹنز اور چنئی سپر کنگز کے درمیان ایک کانٹے کا مقابلہ ثابت ہوا جس کی اختتامی دو گیندوں پر چنئی کو جیت کے لیے 10 رنز درکار تھے۔ آل راؤنڈر روندرا جڈیجا نے پہلے چھکا اور پھر آخری گیند پر چوکا لگا کر ٹائٹل چنئی کے نام کر دیا۔

اس میچ میں دھونی کی جانب سے گجرات کے سب سے انفارم بلے باز اور ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے شبمن گل کی انتہائی برق رفتاری سے کی گئی سٹمپنگ کے چرچے سوشل میڈیا پر ہوتے رہے۔

وہ جب بیٹنگ کے لیے آئے تو سٹیڈیم میں تماشائیوں کا شور بلند ہو تاہم وہ پہلی ہی گیند پر صفر پر آؤٹ ہو گئے جس کے بعد میدان میں کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔

ایک-اور-سیزن-کھیلنا-چنئی-کنگز-کے-مداحوں-کے-لیے-تحفہ-ہو-گا

’ایک اور سیزن کھیلنا چنئی کنگز کے مداحوں کے لیے تحفہ ہو گا‘

میچ کے بعد کمنٹیٹر ہارشا بھوگلے سے بات کرتے ہوئے دھونی نے کہا کہ ’موجودہ صورتحال میں تمام چیزوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے، میرے لیے آسان فیصلہ یہ ہو گا کہ میں کہوں کہ میں ریٹائرمنٹ لے رہا ہوں۔ مشکل بات یہ ہو گی کہ میں کہوں کہ میں اب سے مزید سات آٹھ ماہ تک ٹریننگ کروں اپنے جسم کو مضبوط رکھنے کی کوشش کروں گا، اور ایک اور سیزن بھی کھیلوں گا۔

’جتنا پیار مجھے چنئی سپر کنگز کے مداحوں نے دیا، میرا ایک اور سیزن کھیلنا ان کے لیے تحفہ ہو گا۔ جس طرح انھوں نے جذبات دکھائے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ میں ان کے لیے کچھ کروں۔‘

دھونی کا بیان خاصا غیر معمولی تھا۔ ہارشا بھوگلے نے بعد میں ٹویٹ کی کہ آج دھونی خلافِ معمول تھوڑے ’جذباتی‘ دکھائی دیے۔

خلاف معمول اس لیے کیونکہ وہ عام طور پر بغیر جذبات دکھائے، انتہائی اطمینان کے ساتھ بات کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ان کے اکثر فیصلے سمجھ سے بالاتر دکھائی دیتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ مشکل سے مشکل موقع پر بھی وہ اضطراب کا شکار دکھائی نہیں دیتے۔

وہ اپنے ایک انٹرویو میں بتا چکے ہیں کہ ’میں بھی مضطرب ہوتا ہوں، مجھے غصہ بھی آتا ہے۔۔۔ مایوسی بھی ہوتی ہے لیکن جو اس لمحے میں کرنا چاہیے، وہ ان تمام جذبات سے زیادہ اہم ہے۔‘

’جب میں یہ سوچ رہا ہوتا ہوں کہ ابھی مجھے کیا کرنا ہے، اس کے بعد مجھے کس کھلاڑی کو استعمال کرنا ہے تو میں اپنے جذبات کو بہتر انداز میں کنٹرول کر لیتا ہوں۔‘

دھونی کی سوانح عمری ’دی دھونی ٹچ‘ لکھنے والے بھرت سندریسن نے ٹویٹ کی کہ ’اس سیزن میں یہ محسوس ہو رہا تھا کہ یہ یقینی طور پر دھونی کا آخری سیزن ہو گا لیکن اس انٹرویو کے بعد کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ انھوں نے ہارشا بھوگلے کو یہ تو کہا کہ وہ (پلے آف) ان کا چنئی میں آخری میچ تھا لیکن اب ہمیں آکشن تک ان کے فیصلے کا انتظار کرنا ہو گا۔‘

کووڈ کی پابندیاں ختم ہونے کے بعد اس سیزن میں چنئی میں لگ بھگ تین برس بعد آئی پی ایل کے میچ کھیلے جا رہے تھے۔ دھونی کا چنئی سپر کنگز کے ہوم گراؤنڈ پر تو والہانہ استقبال ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے لیکن اس سیزن میں دھونی جس بھی گراؤنڈ میں میچ کھیلنے گئے انھیں پرتپاک انداز میں ویلکم کیا گیا۔

احمدآباد میں نریندر مودی کرکٹ سٹیڈیم میں کھیلے گئے میچ سے قبل دھونی نے کہا کہ میں اپنی کرکٹ یہیں سے شروع کی تھی اور یہاں جب آج ہم آئے اور تماشائیوں کی جانب سے جتنا پیار ملا تو میری آنکھوں میں آنسو آ گئے، پھر میں کچھ دیر ڈگ آؤٹ میں کھڑا ہوا اور خود کو بتایا کہ مجھے اسے انجوائے کرنا ہے۔‘

خود دھونی ہمیشہ کی طرح اس حوالے سے کوئی واضح جواب دیتے دکھائی نہیں دیے اور یہ تاثر عام ہے کہ جب بھی وہ حتمی ریٹائرمنٹ کا اعلان کریں گے تو وہ بالکل ویسے ہی خاموشی سے کیا جائے گا، جیسے انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے وقت کیا گیا تھا۔

دھونی کی اس ٹورنامنٹ میں کپتانی ہمیشہ کی طرح اپنے جوبن پر تھی۔ حالانکہ ان کی ٹیم ٹورنامنٹ کے آغاز میں آن پیپر آئی پی ایل کی دیگر ٹیموں کی نسبت کمزور دکھائی دیتی تھی لیکن دھونی نے جس طرح چنئی کی قدرے کمزور بولنگ کے ساتھ یہ ٹورنامنٹ جیتا وہ یقیناً قابلِ تعریف ہے۔

دھونی تاریخ کے وہ پہلے کپتان ہیں جنھوں نے تینوں آئی سی سی وائٹ بال ٹورنامنٹس جیتے ہیں یعنی 2007 کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ، 2011 کا ون ڈے ورلڈ کپ اور 2013 کی چیمپیئنز ٹرافی۔ اس کے علاوہ انڈین پریمیئر لیگ میں ان کی کپتانی میں چنئی سوپر کنگز دس مرتبہ فائنل کے لیے کوالیفائی کر چکی ہے اور پانچ مرتبہ ٹورنامنٹ جیت چکی ہے۔

اس ’عجیب سے اطمینان‘ کے پیچھے چھپے شخص کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں، جو صحیح معنوں میں ایک ’گورکھ دھندا‘ ہے۔

’دھونی کو محل میں بھی رہنا آتا ہے اور ایک چھوٹے کمرے میں بھی‘

انڈیا کی ریاست جھاڑکنڈ کے دارالحکومت رانچی کے ایم ایس دھونی کا تعلق ایک متوسط طبقے کے گھرانے سے تھا جس کے واحد کمانے والے اُن کے والد ہی تھے۔

اگر کوئی لڑکا جھگڑالو نہ ہو، کم گو لیکن بارعب ہو اور کھیلنے کا شوق ہونے کے ساتھ ساتھ پڑھائی اور نوکری کی جانب بھی ذہن ہو تو یقیناً یہ کسی متوسط طبقے کے گھرانے کا مثالی فرزند ہو گا۔

دھونی میں یہ تمام خصوصیات تھیں۔ ’تفریح‘ کے لیے کرکٹ کھیلنا شروع کی لیکن پڑھائی کو بھی ساتھ لے کر چلے۔

وقت کے ساتھ کرکٹ پر خاص توجہ دی لیکن والدین کو زیادہ دیر پریشان نہیں کیا اور ریلوے میں نوکری بھی کر لی، جو بہرحال انھیں زیادہ دیر نہیں کرنی پڑی۔

اس سب کے بیچ میں وہ ہمیشہ ’کامن سینس‘ یعنی عام سمجھ بوجھ کے حساب سے فیصلے کرتے رہے اور اپنے اردگرد چیزوں کو انتہائی آسان بنائے رکھا۔

ایم ایس دھونی کی سوانح عمری ’دی دھونی ٹچ‘ لکھنے والے صحافی و مصنف بھرت سندریسن نے دھونی کی شخصیت کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔

بھرت کی کتاب میں دھونی کے ایک دوست کے حوالے سے ایک بات درج ہے جو شاید دھونی کی شخصیت کا بہترین انداز میں خلاصہ کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’دھونی کو محل میں رہنا بھی آتا ہے اور ایک چھوٹے سے کمرے میں بھی۔‘

دو برس قبل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بھرت نے دھونی کے بچپن کے کچھ قصے سُنائے جو ان کی کتاب میں بھی درج ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’دھونی میں قائدانہ صلاحیت بچپن سے ہی تھیں۔ ان کے پہلے کوچ کیشو رنجن بینرجی کے مطابق ایک مرتبہ ان کی سکول کی ٹیم ایک کمزور ٹیم سے ہار گئی تو بینرجی نے سزا کے طور کھلاڑیوں کو بس کی بجائے پیدل سکول واپس آنے کو کہا۔‘

’سکول وہاں سے چھ کلومیٹر دور تھا اور بینرجی جب سکول پہنچے تو انھیں کھلاڑیوں کی فکر لاحق ہو گئی۔ وہ دروازہ پر ہی کھڑے ان کا انتظار کرنے لگے۔‘

’مجھے اس دن دھونی کا چہرہ آج بھی یاد ہے۔ وہ ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے آ رہے تھے اور ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اور انھوں نے اپنے ساتھیوں کو بھی سمجھا دیا تھا کہ یہ سزا کیوں ضروری تھی۔‘

’پھر دھونی نے انھیں اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ اپنے والدین کو اس بارے میں نہیں بتائیں گے۔ یہ دھونی کی قائدانہ صلاحیتوں کا عکاس تھا۔‘

the dhoni thoughts

بھرت کہتے ہیں کہ دھونی کی زندگی کے فیصلوں سے ان کی کپتانی کے بارے میں بھی معلوم ہوتا ہے۔ ’وہ چیزوں کو آسان بناتے ہیں اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی اور عام سمجھ بوجھ کے حساب سے فیصلے کرتے رہے ہیں۔‘

’عام طور پر کسی چھوٹے شہر سے کوئی کھلاڑی بڑا نام بناتا ہے تو وہ بڑے شہر جیسے ممبئی، دلی وغیرہ میں گھر خریدنے کا سوچتا ہے لیکن دھونی نے یہاں بھی کامن سینس استعمال کرتے ہوئے رانچی میں ہی اپنی ضرورت کے مطابق گھر بنایا بجائے اس کے کہ وہ کسی بڑے شہر میں فلیٹ خریدتے۔‘

’وہ کبھی بھی دیکھا دیکھی کے فیصلوں پر یقین نہیں رکھتے۔ ہمیشہ کچھ نیا کرنے کا سوچتے ہیں لیکن منطق کے عین مطابق۔‘

دھونی کے ایک ساتھی کتاب ’دی دھونی ٹچ‘ میں بھرت کو بتاتے کہ ‘فیلڈ پر دھونی ہمیشہ سے ہی کپتان تھے۔ تندولکر اگر کوئی بولنگ میں تبدیلی کا مشورہ دیتے، تو ماہی انھیں احترام سے بتا دیتے کہ یہ ایک اچھا آئیڈیا نہیں۔

’لیکن اگر ماہی کبھی سچن کو ہوٹل لابی میں اپنی طرف آتے دیکھتے، تو وہ ان کے لیے راستہ چھوڑ دیتے۔ یہ سب وہ احتراماً کرتے اور کبھی بھی ان کے فعل میں دھوکہ دہی کا عنصر نہیں ہوتا تھا۔‘

حال میں جینا، نتیجے کی فکر نہ کرنا اور مراحل پر توجہ

دھونی کے جتنے بھی انٹرویوز سنیں ان میں ایک قدر مشترک ہو گی اور وہ یہ کہ وہ ہمیشہ ان باتوں کو بار بار دہرائیں گے۔ ’میں حال میں جیتا ہوں‘، ’مجھے نتیجے کی فکر نہیں ہوتی‘ کیونکہ ’میں فیصلہ کرنے کے مراحل میں گم ہوتا ہوں۔‘

ایک نظر میں تو یہ ایسی باتیں ہیں جو شاید خاصی غیر اہم لگتی ہیں لیکن دراصل یہی دھونی کا نصب العین ہے۔

بھرت بتاتے ہیں کہ ’دھونی اکثر پارٹیز پر فون نہیں لے کر جاتے تو لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ دھونی ہیں، کیا آپ کو اہم فون نہیں آنے ہوتے، تو وہ کہتے ہیں کہ اگر میں نے آپ کو یہ وقت دیا ہے، تو یہ صرف آپ کے لیے ہے، اس دوران کوئی اور مداخلت نہیں ہو گی۔‘

بھرت کہتے ہیں کہ دھونی کا حال میں جینے کا جنون ایسا ہے کہ وہ کبھی کسی نجومی سے قسمت کا حال نہیں پوچھتے حالانکہ یہ چیز ان کے آبائی علاقے میں خاصی عام ہے۔ وہ اس کی وجہ یہی بتاتے ہیں کہ مجھے مستقبل کے بارے میں پتا کر کے کچھ حاصل نہیں کرنا، میں اس لمحے میں خوش ہوں۔

فیصلے کے مراحل کے بارے میں سوچنے اور نتیجے کی فکر نہ کرنے کے باعث دھونی اپنے جذبات پر قابو تو رکھتے ہیں ہی لیکن ساتھ ہی اس سے ان کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی بہتر ہو جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان کے بہت سے فیصلے جو عام عوام کو خاصے عجیب لگتے ہیں، وہ دراصل کسی نہ کسی منطق کی بنا پر ہوتے ہیں۔

سنہ 2007 کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی فائنل کا آخری اوور جوگیندر شرما کو دینے کی وجہ ان کے نیٹس میں اچھے یارکر تھے، ورلڈ کپ 2011 کے فائنل میں ان فارم بلے باز یوراج سے پہلے آنے کا مقصد یہ تھا کہ انھوں نے مرلی دھرن کو آئی پی ایل میں اپنی ٹیم میں کھیل رکھا تھا اور سنہ 2016 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بنگلہ دیش کے خلاف ایک گلو اتار کر آخری گیند کے لیے تیار کھڑے ہونے کے باعث وہ باآسانی رن آؤٹ کرنے میں کامیاب رہے۔

دی دھونی ٹچ میں بھرت دھونی کی شخصیت کو کچھ ایسے بیان کرتے ہیں کہ ’دنیا کے لیے وہ بیشک ایک معمہ ہیں، لیکن اپنے آپ میں انھیں بخوبی معلوم ہے کہ وہ کون ہیں۔‘