اہم خبریں

خرچ پر کنٹرول، بچت، سرمایہ کاری: ’فِنفلوئنسر‘ کون ہوتے ہیں اور کیا اُن کے مشوروں پر عمل کرنا چاہیے؟

جب یاسمین نے سنہ 2017 میں انٹرنیٹ پر بلاگنگ کا سلسلہ شروع کیا تو انھوں نے ابتدا میں ’ڈیجیٹل نومیڈ‘ یا ڈیجیٹل خانہ بدوش بننے کے اپنے تجربات شیئر کرنے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن جلد ہی انھیں معلوم ہوا کہ اُن کی سائیٹ پر آنے والوں کو اس بات میں زیادہ دلچسپی تھی کہ وہ اپنی فری لانس طرزِ زندگی کے اخراجات کیسے اٹھاتی ہیں۔

جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ لوگوں کی ’پرسنل فنانس‘ یا ذاتی مالیاتی مشوروں میں دلچسپی زیادہ ہے تو 31 سالہ یاسمین پرنیل نے اپنی ویب سائٹ کو نئے سرے سے پیش کیا اور اس کا نام ’والٹ موتھ‘ رکھا اور اس طرح ایک ایسا بلاگنگ پلیٹ فارم وجود میں آیا جہاں فنانس اور کم خرچ میں زندگی گزارنے سے متعلق مشورے پیش کیے جاتے ہیں۔

یاسمین کہتی ہیں کہ ’میں ذاتی مالیاتی مضامین کی طرف چلی گئی کیونکہ میرے سامعین اس بات میں زیادہ دلچسپی لے رہے تھے کہ میں نے کس طرح قرض سے خود کو بچایا، میں نے کس طرح فری لانسنگ کے لیے مالی حفاظتی طریقہ اپنایا اور بجٹ بنایا، اور میں نے کن کن پہلوؤں پر کام کیا تاکہ میں کسی ایک جگہ مستقل رہنے کی قید سے آزاد ہو سکوں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اپنی ذاتی کہانیوں کو شیئر کرنا اور مشورے دینے کے لیے تیار رہنا ایک انسانی جبلت ہے اور اس سے سننے والوں پر بہت فرق پڑتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میرا مواد روایتی مالیاتی مشورے جیسا ہی ہوتا ہے، اور لوگ زیادہ سے زیادہ کسی ایسے شخص سے رابطہ قائم کرنا چاہتے ہیں جو ان کا کوئی آن لائن دوست ہو نہ کہ کسی بڑی مالیاتی کمپنی کا نمائندہ۔‘

یاسمین مالیاتی انفلوئنسرز کی بڑھتی ہوئی کھیپ میں سے ایک ہیں۔ مالیاتی انفوئنسرز ایسے افراد ہیں جو خرچ، بچت اور سرمایہ کاری سے متعلق مواد تیار کرتے ہیں۔ گذشتہ کچھ برسوں کے دوران ان ’فنفلوئنسرز‘ یعنی فنانس کے شعبے میں انفلوئنس کرنے کی صلاحیت رکھنے والے افراد کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اور کئی انفلوئنسرز تو ایسے ہیں جن کے فالوروز کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

یہ عالمی انفلوئنسرز کی صنعت کا ایک بڑھتا ہوا حصہ ہے، جس کا سنہ 2022 میں مجموعی طور پر 104 ارب امریکی ڈالر کا تخمینہ لگايا گیا تھا۔ اس میں شامل بعض انفلوئنسرز کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر ان کی موجودگی کے سبب اِن کی ماہانہ آمدن لاکھوں میں ہے۔

ان کی پوسٹس ذاتی مالیات سے متعلق معاملات کی مبہم دنیا کے بارے میں خوش آئند بصیرت فراہم کر سکتی ہیں۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جہاں نوجوانوں کا نظر آنا خاص طور پر مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ پھر بھی اگر کم قابلیت والے اجنبیوں سے پیسے کے متعلق مشورے پر بھروسہ کرنا آپ کو روکتا ہے، تو اس کی بھی وجوہات ہیں۔

لاکھوں لوگ ہر روز مالیاتی انفلوئنسرز سے مشورے حاصل کرنے کے لیے انٹرنیٹ پر لاگ اِن ہوتے ہیں۔

ہمفری یانگ ایک سابق مالیاتی ایڈوائزر ہیں جو اپنی عمر کی 30 کی دہائی میں ہیں۔ ٹک ٹاک پر ان کے 30 لاکھ سے زیادہ فالوورز ہیں۔ وہ نئی جنریشن کے انفلوئنسرز میں سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ امریکہ میں مقیم یانگ ذاتی مالیاتی مشورے دیتے ہیں۔ ان کی مقبول ترین ویڈیوز میں ریٹائرمنٹ اکاؤنٹس اور سٹاک کی قیمتوں جیسے تصورات کی وضاحت ملتی ہیں۔ ان کی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویڈیو کو ایک کروڑ 40 لاکھ ویوز ملے ہیں۔ اس میں یانگ شارٹ سیلنگ کے تصور کی وضاحت کرنے کے لیے ایک آئی فون ادھار لیتے ہیں، اسے فروخت کر دیتے ہیں اور پھر ایک سال بعد اسی ماڈل کو بہت کم قیمت پر خرید لیتے ہیں۔

نیویارک یونیورسٹی کی ایک معاون بزنس پروفیسر اور فنٹیک کمپنی ’سوپر‘ کی چیف مارکیٹنگ آفیسر رادھیکا دگل کہتی ہیں کہ یانگ جیسا مواد بناتے ہیں وہ آسانی سے ہضم ہونے والا مواد ہے اور وہ بنیادی طور پر نوجوان سامعین کے لیے ہیں۔

وہ کہتی ہیں: ’سکولوں میں پرسنل فنانس کی تعلیم کی کمی کی وجہ سے نئی نسل خود ہی پیسے کے بارے میں سیکھنے پر مجبور ہو رہی ہیں۔ یہ پہلا معاشی بحران ہے جس کا نوجوان نسلیں سامنا کر رہی ہیں، اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ وہ انفلوئنسرز کی طرف رجوع کر رہے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ اچھے فیصلے کر سکیں اور موجودہ صورتحال کو سمجھ سکیں۔‘

برطانیہ کی کمپنی ’نرڈ والٹ‘ میں بزنس فنانس کے ماہر کونر کیمبل کہتے ہیں کہ کامیاب فنفلوئنسرز جان بوجھ کر پیسے سے متعلق موضوعات میں داخلے کے لیے آسان طریقے فراہم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مالیاتی انفلوئنسرز ایسا مواد تخلیق کرتے ہیں جو نوجوان افراد کو پرکشش لگے، خاص طور پر ایسی اصطلاحات اور مثالوں کا استعمال کرتے ہوئے جو پاپ کلچر سے متعلق ہوں اور مشکل مالی اصطلاحات کو سمجھنے میں آسان بنائیں۔‘

ایک آسان مالیاتی تصور کی ایک مثال ’کیش سٹفنگ‘ ہے۔ یہ اپنا ذاتی بجٹ بنانے کا ایک طریقہ ہے جو 2022 میں ٹک ٹاک پر وائرل ہوا تھا۔ کیش سٹفنگ سسٹم مختلف مدوں میں، یعنی گروسری، شوق اور ديگر اخراجات پر ہونے والے اخراجات کو نقد رقم کی شکل میں الگ الگ لفافوں رکھنے کی وکالت کرتا ہے تاکہ زیادہ خرچ کرنے کے امکان کو کم کیا جا سکے۔ یہ کوئی نیا تصور نہیں ہے لیکن یہ بہت سے نوجوان سوشل میڈیا صارفین کے لیے نیا ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جن کے پاس ذاتی مالیات کے محدود وسائل ہیں۔

کیمپبل کا خیال ہے کہ اس طرح کا مواد نوجوانوں میں بہتر مالی عادات کو فروغ دینے میں مددگار ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’قابل فہم طریقے سے مالی تجاویز پیش کرنے سے انھوں نے مالی خواندگی کو بہتر بنایا ہے، اور اس بارے میں لوگوں میں سرگرمی پیدا کی ہے اور نئی دلچسپی پیدا کی ہے کہ لوگ اپنا پیسہ کہاں لگا رہے ہیں، اور کن طریقوں سے وہ بچت کر سکتے ہیں۔‘

یاسمین اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کے قارئین کے جوابات ’بہت زیادہ مثبت‘ رہے ہیں اور یہ کہ لوگ زیادہ کفایت شعاری سے زندگی گزارنے کے بارے میں ان کے مشوروں کو سراہتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ان کے مشورے سمجھ میں آنے والے اور سادہ و آسان ہیں اور یہ نوجوان ناظرین کے لیے ایک کامیابی والا فارمولا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں کسی اور کی طرح صرف ایک شخص ہوں جو پیسے بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

ماہرین یا عام لوگ؟

اگرچہ تخلیق کاروں کا کہنا ہے کہ سامعین نے ان کی تجاویز کو بہت سراہا اور قبول کیا ہے لیکن ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ کچھ فنفلوئنسرز اپنے فالوورز کو گمراہ بھی کر سکتے ہیں، یہاں تک کہ بعض معاملات میں وہ ان کا فائدہ بھی اٹھا لیتے ہیں۔

کیمبل کا کہنا ہے کہ ’ان میں سے کچھ انفلوئنسرز صرف عام لوگ ہیں جن کا فنانس کا کوئی پس منظر نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگ کسی ایسی چیز سے محروم رہ جانے کے خوف سے فیصلے کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں جس میں بہت سے دوسرے لوگ حصہ لے رہے ہوں اور چونکہ ان رجحانات میں حقیقی رقم شامل ہوتی ہے اس لیے یہ مسئلہ بھی بن سکتا ہے۔‘

ماہرین نے حال ہی میں مالیاتی انفلوئنسرو کی قابل اعتراض رہنمائی کی بنیاد پر خود ساختہ سرمایہ کاری میں اضافے کے بارے میں خبردار کیا ہے اور کہا ہے ان میں سے کچھ سوشل میڈیا سٹارز یا تو اپنی مالی معلومات کی کمی کی وجہ سے یا اپنے مفاد کے لیے ناقص مشورے دے رہے ہیں تاکہ ان کے فالورز کی تعداد میں اضافہ ہو سکے۔

کچھ معاملات میں تنظیموں نے ذاتی مالیاتی مواد کے تخلیق کاروں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اپنے فالوورز کی تعداد بڑھانے کے لیے قرض میں ڈوبی ہوئی نسل کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پچھلے سال یوکے کی فنانشل کنڈکٹ اتھارٹی (ایف سی اے) نے قرض ادا کرنے پر مرکوز آن لائن پروموشنز کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان پوسٹوں میں شامل انفلوئنسرز ’کمزور یا مقروض صارفین‘ کو ’گمراہ کن‘ مالی مشورے پر عمل کرنے کی طرف راغب کر رہے ہیں۔

زیادہ سے زیادہ فالوورز حاصل کرنے کے لیے قابل اعتراض ذاتی مالیاتی مشورے دینا ایک مسئلہ رہا ہے۔ بہت سے انفلوئنسرز نے لوگوں نے پیسے کی مینجمنٹ کے متعلق اپنے نسخے بتا کر منافع بخش کریئر بنا لیے ہیں۔ مثال کے طور پر معروف ٹی وی شخصیت سوز اورمن قابل اعتراض مالیاتی مصنوعات کی توثیق کرنے پر تنقید کی زد میں آئی تھیں یہاں تک کہ 2009 میں ان پر دھوکہ دہی کا الزام بھی لگایا گیا تھا۔

بہرحال اب سوشل میڈیا بڑے پیمانے پر کم عمر اور کم تعلیم یافتہ افراد کو ایسے ذاتی مالیاتی مشورے سے روشناس کروا رہا ہے۔ اس میں ایک پیچیدگی یہ بھی ہے کہ ایسا کرنے سے انفلوئنسرز پیسہ کماتے ہیں۔

خاص طور پر نئی کرپٹو کرنسیوں کی توثیق کرنے والے انفلوئنسرز کے ہائی پروفائل کیسز سامنے آنے کے بعد خطرے کی گھنٹی بجانی پڑی۔ کرپٹو کرنسی کے بے ترتیب اُتار چڑھاؤ کا مطلب ہے کہ اس مارکیٹ کی پیش گوئی کرنا انتہائی مشکل ہو سکتا ہے مگر پھر بھی انفلوئنسرز کی طرف سے سوشل میڈیا صارفین کو یہ یقین دلایا گیا ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی ایک اچھی سرمایہ کاری ہے۔

پچھلے سال معروف امریکی اداکارہ کم کارڈیشین کو سخت تنقید کا سامنا رہا جب انھوں نے کرپٹو کرنسی ایتھریم میکس کے بارے میں پوسٹ کیا۔ اگرچہ ایتھریم میں سنہ 2021 میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا لیکن پھر یہ کرنسی تیزی سے کریش ہونے لگی اور جنوری 2022 تک یہ اپنی قیمت کا 97 فیصد تک کھو چکی تھی۔ جن سرمایہ کاروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا انھوں نے کم کارڈیشین (جن کے اس وقت 364 ملین سے زیادہ انسٹاگرام فالوورز ہیں) اور ان سیلبریٹیز کے خلاف مقدمہ دائر کیا جنھوں نے اس کرنسی کی تشہیر کی تھی۔

اگر چہ کیس کو خارج کر دیا گیا لیکن جج نے ’سیلبریٹیز‘ کی اس معاملے میں قابلیت کے بارے میں متنبہ کیا کہ وہ لاکھوں ’نادان‘ فالوورز تک باآسانی پہنچ سکتے ہیں اور انھیں باآسانی کچھ بھی خریدنے پر قائل کر سکتے ہیں۔‘

’بورنگ لیکن انتہائی موثر‘

33سالہ جیمز بیکٹ نے خراب سرمایہ کاری کے مشورے کو آن لائن پر گردش کرتا ہوا دیکھنے کے بعد مواد کی فراہمی کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ سابق سوشل میڈیا مارکیٹر کا اپنا یوٹیوب چینل ہے جس کے کئی ہزار سبسکرائبرز ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بہت سے مالیاتی انفلوئنسرز جانتے ہیں کہ لوگ جلد دولت مند بننے کی سکیموں اور ان کی متوقع دولت کو ظاہر کرنے سے ان کے پاس آتے ہیں۔

برطانیہ کے ہرٹ فورڈ شائر میں مقیم بیکٹ کہتے ہیں کہ ٹک ٹاک نے ہماری توجہ کو سیکنڈ کے کچھ حصوں تک کم کر دیا ہے اور اس لیے آپ کو سامعین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے سرمایہ کاری کرنے والے دلچسپ مواد کی ضرورت ہوتی ہے۔

تنہا بیکٹ ہی ایسے نہیں ہیں جو ’بہت اچھی سکیموں‘ اور سرمایہ کاری کے گھپلوں سے پریشان ہیں۔ فنانس انڈسٹری کے پیشہ ور افراد اور اس سے منسلک تنظیموں نے بھی ان مسائل کے بارے میں بات کرنا شروع کر دی ہے اور ایف سی اے نے حال ہی میں فنفلوئنسرز کے خلاف کریک ڈاؤن کی تجویز پیش کی ہے۔ اس کے لیے انھوں نے یہ دلیل دی ہے کہ ان کا مشورہ گمراہ کن ہو سکتا ہے، اور یہ کہ انھیں اکثر ’اس بات کا بہت کم علم ہوتا ہے کہ وہ کس چیز کو فروغ دے رہے ہیں۔‘

تاہم بیکٹ کا خیال ہے کہ وہ اور ان جیسے بہت سے فنفلوئنسرز بھی وہ چیز فراہم کرتے ہیں جسے وہ ’بورنگ لیکن انتہائی موثر‘ مالی مشورے کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان تجاویز سے نہ صرف کم خطرہ ہے بلکہ یہ زیادہ قابل اعتماد بھی ہیں۔ وہ غیر فعال سرمایہ کاری اور انڈیکس فنڈز سمیت تصورات کے اندرونی اور بیرونی پہلوؤں پر گفتگو کرتے ہیں۔ وہ خاص طور پر ان نوجوانوں کو یہ مشورے دیتے ہیں جن کا مالی تعلیم کا مضبوط پس منظر نہیں ہے یا جن کے پاس کھونے بہت زیادہ رقم ہے۔

بیکٹ کا کہنا ہے کہ بہت سے مالیاتی مشیروں یا تنظیموں کی طرف سے مانگی جانے والی زیادہ فیس ادا کیے بغیر سوشل میڈیا فنانس مواد پیسے کے انتظام کے لیے ایک قابل رسائی طریقہ پیش کر سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’فنانس کے انفلوئنسرو مسائل پیدا کرنے والے ہو سکتے ہیں، کیونکہ ان میں سے کچھ لوگوں کا شکار کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ وہاں بہت سارے لوگ اچھے کام بھی کر رہے ہیں، اور وہ ہمارے تعلیمی نظام میں چھوٹ جانے والے ایک بہت بڑے خلا کو پُر کر رہے ہیں۔’

احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنا

ریگولیٹری باڈی کے بغیر، فنفلوئنسنگ کی دنیا کچھ تاریک رہے گی۔

بہت سے لوگوں کے لیے فنفلوئنسرز نے قابل رسائی مالی رہنمائی فراہم کی ہے اور انھوں نے نوجوانوں میں مالی خواندگی کے خلا کو پُر کیا ہے۔ کیمپبل کا کہنا ہے کہ قابل اعتراض مشورے یا تشویشناک حربوں کے درمیان اگر دیکھا جائے تو فنفلوئنسرز لوگوں کو ذمہ داری کے ساتھ اپنی رقم کے انتظام کے راستے پر ڈالنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پرسنل فنانسز کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ کسی فرد کے لیے ذاتی ہیں، اور ہر ایک کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ یہ اندازہ لگانا ضروری ہے کہ آیا کسی انفلوئنسر کی تجاویز آپ کی مالی صورتحال سے مطابقت رکھتی بھی ہیں۔‘

بیکٹ نے مزید کہا کہ ’اگرچہ فنفلوئنسرز کی ساکھ بری ہو سکتی ہے لیکن وہ مبہم، اور بعض اوقات جان بوجھ کر مبہم بنائی جانے والی فنانس اور سرمایہ کاری کی دنیا میں بھی راستہ فراہم کر سکتے ہیں۔ معروضی انفلوئنسرز جو پارٹنرشپ سے فائدہ نہیں اٹھاتے یا اپنے مشورے کو بالکل محفوظ کے طور پر پیش نہیں کرتے وہ ان کے لیے اچھے ثابت ہو سکتے ہیں جنھوں نے بچت کرنے یا اپنی دولت کو بڑھانے کے بارے میں نہیں سوچا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں: ’دنیا کی ہر چیز کی طرح، یہاں بھی اچھے اور برے لوگ ہوتے ہیں۔ فنفلوئنسرز کو سرے سے مسترد نہیں کیا جا سکتا۔‘