اہم خبریں

خالصتانی رہنماؤں کے پراسرار قتل، تجارتی معاہدے پر ’جھٹکا‘: کینیڈا اور انڈیا کے تعلقات میں کشیدگی عروج پر کیوں پہنچ رہی ہے؟

گذشتہ ہفتے جی 20 سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے انڈیا آنے والے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اپنے نجی طیارے کی خرابی کے باعث اس اجلاس کے ختم ہونے کے بعد دو دن تک انڈیا میں ہی پھنسے رہے تھے۔

تاہم اُن کے کینیڈا پہنچنے کے فوراً بعد یہ خبر آئی کہ کینیڈا نے انڈیا کے ساتھ تجارتی معاہدے پر پہلے سے جاری بات چیت کا عمل معطل کر دیا ہے۔

کینیڈا کی وزیر تجارت میری این کے ترجمان نے جمعہ کو اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ کینیڈا نے دو طرفہ تجارتی معاہدے پر بات چیت روک دی ہے۔

یاد رہے کہ جی 20 کانفرنس کے دوران انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اور کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے درمیان مبینہ طور پر گرما گرم بات چیت ہوئی۔

نریندر مودی کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسندوں کی بڑھتی مقبولیت اور انڈین سفارتکاروں کے خلاف ’تشدد کو ہوا دینے‘ جیسے واقعات پر ناراض تھے۔ جبکہ جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ ان معاملات کو ہوا دے کر انڈیا ’کینیڈا کی ملکی سیاست میں مداخلت‘ کا مرتکب ہو رہا ہے۔

درحقیقت سکھ علیحدگی پسند تحریک کی وجہ سے ہی انڈیا اور کینیڈا کے مابین تعلقات خراب ہو رہے ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے سے کینیڈا میں خالصتان کی حامی تنظیموں کی سرگرمیوں کی وجہ سے کینیڈا اور انڈیا کے تعلقات میں تناؤ ہے۔

رواں برس جولائی میں کینیڈا میں خالصتان کی حامی تنظیموں نے کچھ انڈین سفارتکاروں کے پوسٹر لگائے تھے اور انھیں نشانہ بنانے کی اپیل کی تھی۔

اس واقعے کے بعد انڈیا نے اپنے ملک میں تعینات کینیڈا کے سفیر کو طلب کر کے اُن کے ملک میں خالصتان کے حامی افراد اور تنظیموں کی سرگرمیوں پر شدید اعتراض کیا تھا۔

تاہم ان واقعات کی ایک تاریخ ہے۔

جون 2023 میں ’خالصتانی‘ رہنما ہردیپ سنگھ کو کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا میں ایک بازار میں قتل کر دیا گیا تھا۔

اس کے بعد کئی ممالک میں سکھ علیحدگی پسندوں اور انڈین حکومت کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کے مناظر دیکھے گئے۔

خالصتان کے حامیوں نے ہردیپ سنگھ کے قتل کے خلاف ٹورنٹو، لندن، میلبرن اور سان فرانسسکو سمیت دنیا کے کئی شہروں میں مظاہرے کیے۔

ہردیپ سنگھ سے پہلے پرمجیت سنگھ پنجواڑ، جنھیں حکومت ہند نے انتہا پسند قرار دے رکھا تھا، کو مئی 2023 میں پاکستان کے شہر لاہور میں قتل کر دیا گیا تھا۔

خالصتان کے حامی رہنماؤں کی موت اور انڈیا پر الزامات

یہی نہیں بلکہ جون 2023 میں برطانیہ میں مقیم اوتار سنگھ کھنڈا کی پراسرار حالات میں موت ہو گئی تھی۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خالصتان لبریشن فورس کے سربراہ تھے۔

سکھ علیحدگی پسندوں نے الزام عائد کیا کہ انھیں زہر دے کر مارا گیا ہے۔

علیحدگی پسند سکھ تنظیموں نے اسے ’ٹارگٹ کلنگ‘ قرار دیا اور الزام عائد کیا کہ انڈین حکومت سکھ علیحدگی پسند رہنماؤں کو قتل کروا رہی ہے۔

تاہم انڈین حکومت نے ابھی تک ان الزامات پر سرکاری سطح پر کچھ نہیں کہا ہے۔

انڈیا میں سکھوں کی آبادی دو فیصد ہے اور کچھ سکھ علیحدگی پسند سکھوں کے لیے ایک علیحدہ ملک ’خالصتان‘ بنانے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔

انڈیا کا الزام ہے کہ ٹروڈو حکومت کینیڈا میں سرگرم سکھ علیحدگی پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے میں ناکام رہی ہے۔

انڈین حکومت کا الزام ہے کہ یہ علیحدگی پسند کینیڈا، برطانیہ اور امریکہ میں انڈیا مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

اس وقت انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات میں جو تناؤ نظر آ رہا ہے اس کی ایک بڑی وجہ کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسندوں کی سرگرمیاں ہیں۔

کینیڈا میں خالصتان کی حامی تحریک اتنی زور و شور سے چل رہی ہے کہ سکھوں کے لیے الگ ملک خالصتان کے حوالے سے ریفرنڈم بھی کرایا جا چکا ہے۔

اس بار بھی جس دن جی 20 کانفرنس کے دوران نئی دہلی میں ٹروڈو اور مودی کی مختصر ملاقات ہوئی، سکھ علیحدگی پسندوں نے کینیڈا کے شہر وینکوور میں انڈین پنجاب کو انڈیا سے الگ کروانے کے لیے ریفرنڈم کروایا۔

تعلقات میں دراڑیں جی 20 کانفرنس کے دوران نظر آئیں۔

انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات میں تلخی اس وقت مزید بڑھ گئی جب جی 20 کانفرنس کے دوران انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے سکھ علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں پر کُھل کر ناراضگی کا اظہار کیا۔

کانفرنس کے دوران سرکاری سلامی کے دوران ٹروڈو کو نریندر مودی سے جلد بازی میں مصافحہ کرتے اور تیزی سے وہاں سے جاتے ہوئے دیکھا گیا۔

اس تصویر کو دونوں ملکوں کے تعلقات کے درمیان ’کشیدگی‘ کے طور پر دیکھا گیا۔

اس کے بعد ٹروڈو سے بات چیت کے دوران نریندر مودی کی جانب سے کینیڈا میں خالصتان کے حامی عناصر اور تنظیموں کی سرگرمیوں کا معاملہ اٹھایا گیا۔

میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ نریندر مودی اس موقع پر ٹروڈو سے کافی ناراض تھے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق انھوں نے کہا کہ خالصتان کے حامی عناصر انڈین سفارتکاروں پر حملوں کے لیے لوگوں کو اُکسا رہے ہیں۔ وہ لوگوں کو انڈین سفارت خانوں پر حملہ کرنے کے لیے بھی اُکسا رہے ہیں جبکہ دوسری جانب کینیڈا انہیں روکنے میں ناکام ہے۔

تاہم ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ کینیڈا ہمیشہ آزادی اظہار، پُرامن مظاہروں اور آزادی اظہار کا تحفظ کرے گا۔

ان کے مطابق یہ وہ چیز ہے جو کینیڈا کے لیے بہت اہم ہے۔ کینیڈا تشدد کو روکنے اور نفرت کو کم کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہا ہے۔

ٹروڈو نے کہا کہ ’یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ چند افراد کے انفرادی اقدامات مجموعی طور پر کینیڈا کے معاشرے کی نمائندگی نہیں کرتے۔‘

کیا ٹروڈو بیک فٹ پر ہیں؟

ٹروڈو کا بیان انڈین حکومت کو اچھا نہیں لگا اور اس کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات میں تلخی کم ہوتی نظر نہیں آ رہی۔

اس کے برعکس ٹروڈو نے انڈیا پر کینیڈا کی ملکی سیاست پر اثر انداز ہونے کا الزام لگایا۔

بی بی سی نے انڈین تھنک ٹینک ’آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن‘ کے نائب صدر اور بین الاقوامی امور کے ماہر ہرش وی پنت سے پوچھا کہ کیا کینیڈا کی طرف سے دو طرفہ آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت کو روکنا انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات میں ایک نیا بگاڑ ہے یا صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے؟

اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’جب تک ٹروڈو حکومت میں ہیں حالات میں بہتری نظر نہیں آتی۔ میرے خیال میں ٹروڈو نے اسے ذاتی مسئلہ بنا لیا ہے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی ذات پر حملہ کیا جا رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’انڈیا خالصتان کے معاملے پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہا تھا اور کاروبار پر بھی بات چیت ہوئی تھی۔ لیکن ٹروڈو کے نئے موقف سے ایسا لگتا ہے کہ وہ خود کو بیک فٹ پر پا رہے ہیں۔ اس لیے وہ انڈیا کے ساتھ کشیدگی پر بھی آواز اٹھا چکے ہیں۔‘

کیا تجارتی معاہدہ واقعی مشکل میں ہے؟

کینیڈا اور انڈیا کے تعلقات میں تلخی کے درمیان، کینیڈا کی حکومت کی طرف سے تجارتی معاہدے پر بات چیت بھی کھٹائی میں پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔

تقریباً ایک دہائی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت میں پیش رفت ہوئی تھی ۔ اس معاہدے کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے چھ دور ہو چکے ہیں۔

مارچ 2022 میں، دونوں ممالک نے ای پی ٹی (تجارتی معاہدے پر مذاکرات میں ابتدائی پیشرفت) پر ایک عبوری معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کا آغاز کیا۔

ایسے معاہدوں کے تحت دونوں ممالک باہمی تجارت کی زیادہ تر اشیا پر ڈیوٹی کو نمایاں طور پر کم یا ختم کر دیتے ہیں۔

انڈین کمپنیاں کینیڈا کے بازاروں میں اپنے ٹیکسٹائل اور چمڑے کے سامان کے لیے ڈیوٹی فری رسائی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

اس کے ساتھ ہی انڈیا کی جانب سے کینیڈا میں پیشہ ور افراد کے لیے ویزا قوانین کو آسان بنانے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔

دوسری طرف کینیڈا اپنی ڈیری اور زرعی مصنوعات کے لیے انڈین مارکیٹس کو کھولنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔

انڈیا اور کینیڈا کی دو طرفہ تجارت کا حجم کیا ہے؟

سنہ 2022 میں انڈیا کینیڈا کا دسواں سب سے بڑا تجارتی شراکت دار تھا۔ مالی سال 2022-23 میں انڈیا نے کینیڈا کو 4.10 راب ڈالر کا سامان برآمد کیا جبکہ مالی سال 22-2021 میں یہ تعداد 3.76 ارب ڈالر تھی۔

جبکہ کینیڈا نے 2022-23 میں انڈیا کو 4.05 ارب ڈالر کا سامان برآمد کیا جبکہ 2021-22 میں یہ حجم 3.13 ارب ڈالر تھا۔

جہاں تک سروس ٹریڈ کا تعلق ہے تو کینیڈا کے پنشن فنڈز نے انڈیا میں55 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے۔ کینیڈا نے سنہ 2000 سے انڈیا میں 4.07 ارب ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کی ہے۔

کم از کم 600 کینیڈین کمپنیاں انڈیا میں کام کر رہی ہیں جبکہ مزید 1000 کمپنیاں یہاں اپنے کاروبار کے مواقع تلاش کر رہی ہیں۔

دوسری طرف انڈین کمپنیاں کینیڈا میں آئی ٹی، سافٹ ویئر، قدرتی وسائل اور بینکنگ کے شعبوں میں سرگرم ہیں۔

انڈیا کی طرف سے کینیڈا کو برآمد کی جانے والی اہم اشیا میں زیورات، قیمتی پتھر، فارما پروڈکٹس، ریڈی میڈ گارمنٹس، آرگینک کیمیکل، لائیٹ انجینئرنگ کا سامان، آئرن اور سٹیل کی مصنوعات شامل ہیں۔

جبکہ انڈیا کینیڈا سے دالیں، نیوز پرنٹ کا سامان، لکڑی کا گودا، آئرن سکریپ، معدنیات، صنعتی کیمیکلز درآمد کرتا ہے۔