مئی کا مہینہ سیاسی افراتفری اور عدم استحکام پر مبنی رہا اور مقامی و بین الاقوامی میڈیا سمیت پوری قوم کی نظریں اس دوران لمحہ بہ لمحہ بدلتی سیاسی صورتحال پر جمی رہیں۔ تاہم اس سب کے بیچ پاکستان کو درپیش بلاشبہ سب سے بڑا بحران کچھ دیر کے لیے میڈیا کی توجہ سے دور ہوا جس کے اثرات ہر روز عام عوام کو جھیلنے پڑ رہے ہیں۔
پاکستان میں مئی میں مہنگائی کی شرح ریکارڈ 38 فیصد تک جا پہنچی ہے اور یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ مہینوں میں اس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ایسے میں عوام کے ذہن میں یہی سوال ہے کہ کیا آنے والا بجٹ عوام کو کوئی ریلیف دے سکے گا؟
اس وقت پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط کئی ماہ کی بات چیت کے باوجود نہیں مل سکی اور اس حوالے سے تاحال ایک ڈیڈلاک برقرار ہے۔ یوں حکومت نو جون کو پیش ہونے والا بجٹ آئی ایم ایف کی فنڈنگ کے بغیر پیش کرنے جا رہی ہے۔
یہ پاکستان میں الیکشن کا سال ہے اور اگست کے مہینے میں قومی اسمبلی کی مدت ختم ہو جائے گی جس کے بعد عبوری حکومت اس کی جگہ لے گی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ عموماً الیکشن کے سال میں حکومتیں ’ریلیف بجٹ‘ پیش کرتی ہیں جوعوام دوست تو ہوتا ہے لیکن اس کے باعث حکومتی اخراجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
گذشتہ ہفتے جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں بات کرتے ہوئے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار سے جب پوچھا گیا کہ آئی ایم ایف اور دیگر بیرونی امداد کے بغیر وہ بجٹ کیسے بنائیں گے تو انھوں نے کہا کہ ’کوشش کریں گے کہ عوام پر بوجھ نہ پڑے۔۔۔ یہ ایک عوام دوست بجٹ ہو گا۔‘
تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے پیر کو خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا گیا تھا کہ انھیں امید ہے کہ موجودہ پروگرام کے اختتام سے قبل وہ بورڈ میٹنگ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اسحاق ڈار اس سے قبل جیو نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں اس حوالے سے بات کر چکے ہیں کہ آئی ایم ایف نے حکومت سے بجٹ کے اعداد و شمار شیئر کرنے کا کہا ہے۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’انھوں نے ہم سے بجٹ کی تفصیلات مانگی ہیں، وہ ہم انھیں فراہم کر دیں گے۔‘
بدھ کو وزیرِ مملکت برائے خزانہ ڈاکٹرعائشہ غوث پاشا نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آئندہ بجٹ میں مہنگائی کنٹرول کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے، اس میں خسارے اور مہنگائی کا توازن قائم کرنا ہو گا۔ آئندہ بجٹ ٹیکس فری نہیں دے سکتے۔‘
انھوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بارے میں امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ نواں اور دسواں پروگرام مکمل کرنا چاہے گا۔
خیال رہے کہ آئی ایم ایف کا نواں قرض پروگرام رواں ماہ کے آخر میں ختم ہو رہا ہے۔
اس صورتحال میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت آئی ایم ایف کی جانب سے ’حقیقت پسندانہ‘ بجٹ بنانے کے مطالبے کے برعکس ’عوام دوست‘ بجٹ دینے کے وعدے پر پورا اتر سکے گی؟
آئی ایم ایف امداد کے بغیر حکومت کے لیے بجٹ بنانا کتنا مشکل ہو گا؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم نے پاکستان مسلم لیگ ن کے وزرا اسحاق ڈار، احسن اقبال اور عائشہ غوث پاشا سمیت دیگر رہنماؤں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم انھوں نے فی الحال اس بارے میں بات کرنے سے گریز کیا۔
تاہم قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں وزیرِ مملکت عائشہ غوث پاشا نے مہنگائی پر قابو پانے اور بجٹ خسارے اور مہنگائی کا توازن برقرار رکھنے کو آئندہ بجٹ کا سب سے بڑا چیلنج قرار دیا۔
خیال رہے کہ پاکستان کو اگلے مالی سال میں بیرونی قرضوں کی مد 25 ارب ڈالر سے زیادہ کی ادائیگیاں کرنی ہیں جو آئی ایم ایف پروگرام میں داخل ہوئے بغیر ممکن ہوتا نظر نہیں آتا۔
دوسری جانب، گذشتہ ماہ سامنے آنے والی فسکل مانیٹر رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے دوران پاکستان نے بجٹ خسارہ، بیرونی قرضوں کا کل حجم اور سرکاری اخراجات کم کرنے جبکہ ریوینو بڑھانے جیسے اہداف پورے نہیں کیے ہیں۔
پاکستان کی وزارتِ خزانہ کی جانب سے رواں ماہ جاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا کل بجٹ خسارہ ساڑھے تین کھرب روپے تک جا پہنچا ہے۔
معیشت پر رپورٹ کرنے والے صحافی مہتاب حیدر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس وقت حکومت کے لیے عوام کو ریلیف دینے اور آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے درمیان توازن برقرار رکھنا سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ویسے تو ہم ہر چند سالوں بعد یہ فقرہ سنتے ہیں کہ پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے لیکن موجودہ صورتحال بہت زیادہ سنگین ہے، حکومت کے لیے آئی ایم ایف کے نویں اور دسویں قرض پروگرام کا حصہ بننا بھی ضروری ہے اور اس وقت مہنگائی کی یہ صورتحال ہے کہ یہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے تو اس میں عوام بھی ریلیف کے منتظر ہیں۔
ایسے میں بظاہر تو حکومت کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پر پورا اترنے اور عوام کے لیے ریلیف بجٹ پیش کرنے کے درمیان خاصا مشکل فیصلہ درپیش ہو سکتا ہے تاہم ماہرین کے مطابق حکومت اسے اپنی مرضی کا بجٹ بنانے کے موقع کے طور پر دیکھ سکتی ہے۔
اگر حکومت ’عوام دوست‘ بجٹ دیتی ہے تو اس میں کیا سرپرائز شامل ہو سکتے ہیں؟
خیال رہے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور پی ڈی ایم حکومت کی معاشی ٹیم کی جانب سے کئی مرتبہ ایک ’عوام دوست بجٹ‘ لانے کے حوالے سے بات کی ہے۔
عوام دوست بجٹ سے عام طور پر مراد یہ ہوتی ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے، سبسڈیز دی جائیں اور ڈیویلپمینٹ بجٹ کے حجم میں اضافہ کیا جائے۔
ڈاکٹر دانش نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب آپ آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہوتے ہیں تو آپ کو مالی خسارہ کم سے کم رکھنا ہوتا ہے۔
’اس کی وجہ سے آپ ترقیاتی بجٹ میں اضافے یا جن شعبوں کو سبسڈی دے کر معیشت کی شرح نمو بڑھا سکتے ہیں یا چند سیکٹرز کو ریلیف دیا جاتا ہے وہ نہیں دے سکتے۔‘
خیال رہے کہ پاکستان کی شرح نمو اندازاً 0.29 فیصد رہنے کا امکان ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آئی ایم ایف کا پروگرام نہ ہوتے ہوئے بجٹ بناتے ہوئے عمومی تاثر یہی ہوتا ہے کہ حکومت زیادہ رقم خرچ کرے گی اور عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کرے گی۔ چاہے وہ تنخواہیں بڑھائے، سبسڈیز میں اضافہ کرے یا ترقیاتی بجٹ بڑھائے جس سے شرح نمو میں اضافے کا امکان ہو۔‘
صحافی خرم حسین کا کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں معمول سے بڑا اضافہ تجویز کیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ اضافہ چھ سے نو فیصد نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔‘
ماہر معیشت ثنا توفیق کا کہنا ہے کہ حکومت کو ایک پاپولسٹ بجٹ دینے کی بجائے حقیقت پسندانہ بجٹ دینے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ کے لیے آئی ایم ایف سے قرضے کا حصول یقینی بنایا جا سکے۔
انھوں نے کہا کہ ’جب سے آئی ایم ایف کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ بجٹ کے حوالے سے اعداد و شمار شیئر کیے جائیں تو میرے نزدیک حکومت ریلیف بجٹ دیتے ہوئے محتاط ہو گی۔
’اس وقت 25 ارب ڈالر کی تو صرف بیرونی قرضوں کی مد میں فنانسنگ کرنے کی ضرورت ہے اور اگر آپ نے ریوینیو کے اہداف پورے کرنے ہیں تو اس کے لیے بھی آپ کو حقیقت پسندانہ بجٹ کی ضرورت ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اس ضمن میں ہو سکتا ہے حکومت درآمدات پر پابندیوں کو نرم کرنے کا سوچے۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے مہتاب حیدر کا کہنا تھا کہ موجودہ 38 فیصد مہنگائی میں یہ ممکن ہے کہ حکومت کی جانب سے تنخواہوں میں 15 سے 20 فیصد اضافہ کیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ ’ٹارگٹڈ سبسڈیز کے حوالے سے آئی ایم ایف بھی منع نہیں کرتا ہے لیکن ان ٹارگٹڈ سبسڈیز کو دے کر حکومت غیر ذمہ داری کا ثبوت دے گی۔‘