انڈیا میں رائج قوانین کے مطابق سنہ 1961 سے شادی کے موقع پر جہیز کا لین دین غیر قانونی ہے، لیکن اج بھی دلہن کے خاندان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ دولہے کے خاندان کو نقد رقم، کپڑے اور زیورات تحفے میں دیں گے۔
تاہم اب وسطی شہر بھوپال میں ایک 27 سالہ ٹیچر نے ایک مہم شروع کی ہے جس میں پولیس سے شادی کی تقریبات میں پولیس اہلکاروں کو تعینات کرنے اور اس ’سماجی برائی‘ کو ختم کرنے کے لیے چھاپے مارنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
گنجن تیواری (شناخت تبدیل کی گئی ہے) بی بی سی کو بتاتی ہیں کہ جہیز نہ ہونے کی وجہ سے درجنوں مردوں نے انھیں ٹھکرایا ہے جس کے بعد انھوں نے یہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
گنجن کے ساتھ اس سلسلے میں تازہ ترین واقعہ رواں سال فروری میں پیش آیا جب اُن کے والد نے ایک نوجوان اور اس کے اہلخانہ کو اس امید پر اپنے گھر بلایا تھا کہ وہ اس کا رشتہ اپنی بیٹی سے طے کر پائیں گے۔
مہمانوں کو ملنے کے بعد، گنجن ان کے لیے گرم چائے اور کھانے کی اشیا ایک ٹرے میں لے کر کمرے میں داخل ہوئیں۔
وہ اس لمحے کو ’بے چینی والے لمحے‘ کے طور پر بیان کرتی ہیں۔
اپنے گھر سے فون پر بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں ’ہر کوئی آپ کو گھور رہا ہوتا ہے۔۔۔ وہ تنقیدی نظروں سے آپ کو اوپر سے نیچے تک پرکھ رہے ہوتے ہیں‘
گنجن کب اور کیسے مہمانوں کے سامنے پیش ہوں گی، اس کے لیے پیشگی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اُن کی والدہ نے اپنی بیٹی کے لیے سبز لباس کا انتخاب کیا تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ان کی بیٹی اس میں اچھی لگے گی۔ انھوں نے گنجن کو یہ بھی مشورہ دیا کہ وہ رشتہ دیکھنے کے لیے آنے والے مہمانوں کے سامنے مسکرائے نہیں کیونکہ اس طرح اُس کے ٹیڑھے میڑھے دانتوں کی طرف توجہ مبذول ہو گی۔
ہر بار یہی سب دہرایا جاتا ہے لہذا گنجن اس سب کی عادی ہیں اور ایسا پچھلے کئی سالوں میں چھ بار ہو چکا ہے۔ گنجن سے جو سوالات پوچھے گئے وہ بھی وہی تھے جو اس سے قبل ان کا رشتہ دیکھنے آنے والے باقی خاندانوں نے پوچھے، یعنی اُن کی تعلیم اور کام کے بارے میں اور یہ وہ کیا کھانا پکا سکتی ہیں۔
کمرے میں داخل ہونے سے پہلے گنجن نے اپنے والدین کو متوقع دولہا کے والد سے پوچھتے ہوئے سنا کہ انھیں کتنے جہیز کی امید ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے سنا تھا کہ وہ 50 لاکھ سے 60 لاکھ روپے چاہتے ہیں۔ جب میرے والد نے ان سے مزید تفصیل پوچھی تو انھوں نے مذاق میں کہا کہ ’اگر آپ کی بیٹی خوبصورت ہے تو ہم آپ کو رعایت دیں گے۔‘
جیسے جیسے بات چیت آگے بڑھی، گنجن کہتی ہیں کہ انھیں لگا کہ رعایت نہیں دی جائے گی کیونکہ مہمانوں نے اُن سے اُن کے ٹیڑھے میڑھے دانتوں اور ماتھے پر تل کے بارے میں پوچھا۔
چائے کے بعد جب گنجن کو ممکنہ دولہے سے نجی طور پر بات کرنے کے لیے چند منٹ دیے گئے تو گنجن نے اسے بتایا کہ وہ جہیز کے لیے شادی نہیں کریں گی۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’اس نے اتفاق کیا کہ یہ ایک سماجی برائی ہے اور اس نے گنجن کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ وہ ان دوسرے مردوں سے مختلف ہے جن سے وہ اب تک ملی ہیں۔‘
لیکن جلد ہی انھیں معلوم ہو گیا کہ گنجن کو مسترد کر دیا گیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میری ماں نے اس کا الزام میرے جہیز مخالف موقف کو دیا۔ وہ مجھ سے ناراض رہیں اور دو ہفتوں تک مجھ سے بات نہیں کی۔‘
گنجن کا کہنا ہے کہ پچھلے چھ سالوں میں اس کے والد نے ’100 سے 150 خاندانوں‘ سے رشتے کے سلسلے میں رابطہ کیا ہے اور ان میں سے دو درجن سے زیادہ خاندانوں سے ملاقات کی ہے۔ ان میں سے چھ خاندانوں کے سامنے خود گنجن کو پیش کیا گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ تقریباً سبھی جہیز کی وجہ سے انھیں ٹھکرا گئے۔
گنجن جنھوں نے ریاضی میں ماسٹرز کر ڈگری لے رکھی ہے اور آن لائن کلاسز لیتی ہیں، کہتی ہیں کہ ’اتنی بار مسترد ہونے کی وجہ سے میں نے اپنا سارا اعتماد کھو دیا ہے۔‘
’میں جانتی ہوں کہ مجھ میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے، مسئلہ ان لوگوں کا ہے جو جہیز چاہتے ہیں۔ لیکن مجھے اکثر ایسا لگتا ہے کہ میں اپنے والدین کے لیے بوجھ بن گئی ہوں۔‘
جہیز کا لین دین 60 سال سے زائد عرصے سے غیر قانونی ہونے کے باوجود 90% انڈین شادیوں میں جہیز دیا اور لیا جاتا ہے۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق 1950 اور 1999 کے درمیان جہیز کے نام پر دی گئی رقم کا حجم ایک کھرب ڈالر کا چوتھائی تھا۔
لڑکیوں کے والدین جہیز کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے بھاری قرضے لینے یا یہاں تک کہ اپنی زمین اور گھر بیچ دیتے ہیں اور اس سب کے باوجود یہ ضروری نہیں کہ دلہن کے لیے خوشگوار زندگی کو یقینی بنایا جا سکے۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق انڈیا میں 2017 سے 2022 کے درمیان ناکافی جہیز لانے کی وجہ سے 35,493 دلہنوں کو قتل کر دیا گیا، یعنی اوسطاً ایک دن میں 20 خواتین۔
مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ جہیز کی وجہ سے انڈیا میں لڑکیوں کی آبادی کم ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ ہر سال ماں کے پیٹ میں ہی تقریباً 400,000 لڑکیوں کا اسقاط حمل کیا جاتا ہے کیونکہ خاندانوں کی جانب سے پیدائش سے پہلے جنس کا تعین کرنے والے سکریننگ ٹیسٹوں میں اس خدشے کا اظہار کیا جاتا ہے کہ بیٹیوں کی وجہ سے انھیں جہیز کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
بھوپال کے پولیس سربراہ ہری نارائن چاری مشرا کو دی گئی درخواست میں گنجن کا کہنا ہے کہ واحد حل شادی کی تقریبات میں چھاپے مارنا اور جہیز دینے یا وصول کرنے والوں کو گرفتار کرنا ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’سزا کا خوف‘ اس ظالمانہ عمل کو روکنے میں مدد کرے گا۔ پچھلے ہفتے گنجن نے پولیس سربراہ مشرا سے ملاقات کی تاکہ اس کی جہیز کے خلاف لڑائی میں مدد کی درخواست کی جائے۔
مشرا کہتے ہیں کہ ’جہیز ایک سماجی برائی ہے اور ہم اسے ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ میں نے تمام تھانوں کو ہدایت کی ہے کہ جو بھی عورت ان کے پاس آتی ہے اس کی مناسب مدد کریں‘۔
لیکن وہ کہتے ہیں کہ ’پولیس کی اپنی حدود ہوتی ہیں، وہ ہر جگہ موجود نہیں ہو سکتی اور ہمیں ذہنیت کو بدلنے کے لیے اس موضوع پر مزید آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔‘
خواتین کے حقوق کی کارکن کویتا سریواستو کا کہنا ہے کہ پولیس یقینی طور پر مدد کر سکتی ہے، لیکن جہیز سے نمٹنا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔
انڈیا ایک پولیس سٹیٹ نہیں ہے، لیکن یہاں جہیز پر پابندی کا ایکٹ ہے اور ہمیں قانون کے بہتر نفاذ کی ضرورت ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اکثر دولہا کے لالچی خاندانوں کے لیے جہیز ایک بار کی ادائیگی نہیں ہوتی۔۔۔ وہ شادی کے بعد بھی زیادہ سے زیادہ مطالبہ کرتے رہتے ہیں کیونکہ یہ آسان پیسہ ہے، جلدی امیر ہونے کا ایک ذریعہ ہے۔
سریواستو نے ان خواتین کی مثالیں پیش کیں جنھیں زندگی بھر گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہاں تک کہ جہیز کے بار بار ہونے والے مطالبات کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے انھیں سسرالی گھروں سے بھی نکال دیا جاتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ جہیز کی لعنت کا مقابلہ صرف اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب نوجوان مرد اور عورتیں ایک موقف اختیار کریں اور جہیز دینے یا قبول کرنے سے انکار کریں۔
گنجن کہتی ہیں کہ وہ شادی کرنا چاہیں گی کیونکہ ’زندگی لمبی ہے اور میں اسے اکیلے نہیں گزار سکتی‘ لیکن وہ پرعزم ہیں کہ وہ جہیز نہیں لے کر جائیں گی۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس کے خاندان کے لیے دلہے کی تلاش کے حوالے سے مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔
’پڑوسی ریاست اتر پردیش کے ضلع اٹاوہ میں ہمارے آبائی گاؤں میں ایک 25 سالہ نوجوان لڑکی کو شادی کے لیے بوڑھا سمجھا جاتا ہے۔‘
گنجن کے والد باقاعدگی سے اخبارات کے رشتے والے کالموں کی چھان بین کرتے ہیں اور رشتہ داروں سے کہتے رہتے ہیں کہ وہ اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھیں اور اگر وہ کوئی مناسب رشتہ نظر آئے تو انھیں بتائیں۔ انھوں نے 2000 سے زیادہ افراد والا ایک واٹس ایپ گروپ بھی جوائن کیا ہے جہاں ان جیسے خاندان اپنے بچوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’زیادہ تر افراد ایک شاندار شادی چاہتے ہیں جس پر 50 لاکھ روپے یا اس سے زیادہ لاگت آئے۔ میرے والد اس کا صرف آدھا ہی برداشت کر سکتے ہیں۔‘ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے اس اصرار ’میں جہیز کے بغیر شادی کروں گی‘ نے ان کے والدین کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔
’میرے والد کا کہنا ہے کہ چھ سال سے وہ میرے لیے دولہا تلاش کر رہے ہیں۔ اور جہیز کے بغیر اگر وہ 60 سال تک تلاش کریں تو بھی مجھے کوئی رشتہ نہیں ملے گا۔‘