جہانگیر ترین نے آج تک جس بھی چیز کو ہاتھ لگایا وہ سونا ہو گئی۔
یہ بات ان کے ناقدین بھی مانتے ہیں لیکن اس کی وجہ وہ قسمت سے زیادہ جہانگیر ترین کی دولت سے کامیابی خرید لینے کی صلاحیت کو قرار دیتے ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی کے ایک لیکچرر سے لے کر ارب پتی کاروباری تک اور ’جہیز‘ میں ملنے والی سیاست سے لے کر ملک کی اہم جماعت کے اہم ترین عہدیدار تک جہانگیر ترین نے کامیابیوں کی ایسی داستانیں رقم کی ہیں جن کی مثال پاکستان میں شاید کہیں اور نہ ملیں۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ ملک کی متنازع ترین سیاسی شخصیات کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔ ان کے ناقدین میں خاندان والوں سے لے کر سیاستدان تک شامل ہیں جو ان پر زمینوں اور عہدوں پر قابض ہونے کا الزام دھرتے ہیں۔
ان سب کے لیے جہانگیر ترین کا ایک ہی پیغام ہے۔ محنت کر حسد نہ کر۔
درس و تدریس سے بنکاری کا سفر
جہانگیر ترین کے والد اللہ نواز ترین ایوب خان کے دور میں کراچی پولیس میں ڈی آئی جی کے عہدے پر تعینات تھے۔ کہنے والے کہتے ہیں اس عہدے تک رسائی میں ان کی قابلیت سے زیادہ فیلڈ مارشل ایوب خان سے ان کی رشتہ داری کا دخل رہا۔ ان کی آبائی زمینیں تربیلا کے مقام پر بننے والے ڈیم میں آگئیں جن کے بدلے انھیں جنوبی پنجاب کے شہر لودھراں میں زرعی زمین الاٹ کی گئی۔
پولیس سے ریٹائرمنٹ کے بعد اللہ نواز نے ملتان میں رہائش اور لودھراں میں کاشتکاری اختیار کر لی۔ جہانگیر ترین نے اپنی زندگی کے ابتدائی بیس برس اسی دو کمروں کے مکان میں بسر کیے۔
جہانگیر ترین کو تعلیم کے لیے لاہور بھجوایا گیا جہاں سے انھوں نے گریجویشن اور امریکہ کی نارتھ کیرولینا یونیورسٹی سے 1974 میں بزنس ایڈمنسرٹیشن میں ماسٹرز کیا۔
جہانگیر ترین کے بقول دوران تعلیم ایک دن کے لیے بھی ان کے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ وہ امریکہ میں ہی مستقل رہائش اختیار کر لیں۔ اسی لیے تعلیم مکمل کرتے ہی وہ وطن لوٹ آئے۔
ان کا پہلا عشق درس و تدریس ہے۔ 2017 میں بی بی سی کو ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ انھیں ’نوجوانوں کے ساتھ گفتگو کر کے ہمیشہ مزا آتا ہے۔‘ اسی لیے انھوں نے پنجاب یونیورسٹی میں لیکچرر کے طور پر ملازمت اختیار کر لی لیکن والد کی مخالفت کے باعث وہ اپنا پہلا عشق چھوڑ کر بنک کی نوکری کرنے پر مجبور ہو گئے۔
ایک شام وہ دفتر سے باہر نکلے تو انھیں احساس ہوا کہ وہ خوش نہیں ہیں۔ ان کا دفتر لاہور کی ایک عمارت کے تہہ خانے میں تھا۔ ’میں صبح اس تہہ خانے میں داخل ہوتا اور شام ڈھلنے کے بعد باہر نکلتا۔ ایک شام دفتر سے نکلتے میں نے سوچا یہ بھی کوئی زندگی ہے؟ اگلی صبح میں اس تہہ خانے میں نہیں گیا۔‘
وہ لاھور سے ملتان پہنچے اور والد کو خبر سنائی کہ وہ کاشتکاری کریں گے۔ والد جیسے سکتے میں آ گئے۔ ’کیوں پتر، لاہور میں کوئی جھگڑا ہو گیا ہے کیا؟‘
’کاشکاری میرے ڈی این اے میں ہے‘
جہانگیر خان ترین کا کہنا ہے کہ ’لودھراں میں والد صاحب کی زمینوں پر چند دن گزارتے ہی مجھے احساس ہو گیا کہ کاشتکاری میرے ڈی این اے میں ہے۔ میں نے سیاست کی، کاروبار کیا، دنیا دیکھی یعنی ہر کام کیا۔ لیکن جو خوشی مجھے کاشتکاری کر کے ہوتی ہے وہ دنیا کے کسی کام میں نہیں ہوتی۔ میں سب کچھ چھوڑ سکتا ہوں کاشتکاری نہیں چھوڑ سکتا۔‘
والد کی 400 ایکڑ زمین پر انھوں نے کاشتکاری شروع کی۔ اور یہاں سے ان کی کامیابیوں کا نہ ختم ہونے والا سفر شروع ہوتا ہے۔
’ابھی مجھے لودھراں آئے دو سال ہوئے تھے کہ والد صاحب کی زمین سے ملحق سرکاری زمین کو محکمہ جنگلات نے فوج کو دے دیا جس نے یہ زمین میڈل لینے والے اپنے افسروں میں بانٹنا شروع کر دی۔ اب جس افسر کو یہ زمین ملتی وہ جب زمین دیکھنے وہاں آتا تو اس کا استقبال ایک بنجر ریگستان کرتا کیونکہ یہاں پانی نہیں تھا۔‘
’میں اس زمین کے بالکل ساتھ بیٹھا تھا۔ میں نے کیا کیا کہ یہ زمینیں ان فوجی افسروں سے بہت سستی خریدنی شروع کر دیں۔ چونکہ یہ بنجر صحرائی علاقہ تھا اس لیے لوگ یہ زمین بہت ہی سستی بیچتے رہے۔ 20 سال میں یہ کام کرتا رہا کہ فوجی افسروں سے بنجر زمینیں خریدتا رہا۔‘
اس دوران انھوں نے کتنی زمین خریدی اس بارے میں جہانگیر ترین واضح بات نہیں کرتے۔ لیکن بعض اندازوں کے مطابق ان کے پاس جنوبی پنجاب سے سندھ تک 45 ہزار ایکڑ زمین ہے۔ اس زمین کو ان کی ملکیت ثابت کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس میں بیشتر زمین ان کے ملازمین اور رشتہ داروں کے نام پر خریدی گئی ہے۔
فوجیوں کی زمینوں سے فارغ ہونے کے بعد جہانگیر ترین نے مقامی زمین داروں کا رخ کیا اور انھیں ان کی زمین کے بدلے سالانہ اتنی رقم کی پیشکش کی جتنی وہ سال بھر محنت کر کے کماتے تھے۔
بیشتر لوگوں کو یہ پیشکش بھاگئی اور انھوں نے اپنی زمینیں ٹھیکے پر جہانگیر ترین کے حوالے کر دیں۔ اس طرح سے حاصل کی گئی زمین کا شمار جہانگیر ترین کے قریبی رشتہ دار بھی آج تک نہیں کر سکے۔
یہ ساری خرید و فروخت غیر متنازعہ نہیں رہی۔ ان کے بعض رشتہ داروں، علاقے کے زمینداروں اور بعض دیگر الاٹیوں نے ان پر زمینوں پر قبضوں اور دھوکے سے زمینیں کم داموں خریدنے کے الزامات لگائے۔ ان میں سے بہت سوں پر تصفیے اور فیصلے ہو چکے ہیں۔
زمینوں سے کمائی گئی رقم جہانگیر ترین نے مختلف صنعتوں اور کاروباروں میں لگائی۔ شوگر ملیں خریدیں، حصص میں پیسہ لگایا، بنکوں میں حصہ داری کی، الغرض ہر وہ نفع بخش کام کیا جو کوئی بھی سمجھ دار کاروباری کرتا۔ یوں وہ ملک کے بڑے زمیندار کے ساتھ ساتھ کامیاب کاروباری بھی بن گئے۔
اس زمینداری کو چار چاند اس وقت لگے جب جہانگیر ترین کو وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اپنی زرعی ٹاسک فورس کا سربراہ لگایا۔ ان کے ناقدین الزام لگاتے ہیں اس دور میں پنجاب میں زمینوں سے زیادہ پیداوار لینے کے لیے غیر ملکی تنظیموں کے تعاون سے بہت سے تجربات ہوئے۔ ان میں سے بیشتر جہانگیر ترین کی زمینوں پر ہی کیے گیے۔ ناقدین اس عمل کو جہانگیر ترین کی زمینوں کی غیر معمولی پیداوار کی اہم وجہ قرار دیتے ہیں۔
سیاست میں قدم
اب باری آئی انتخابی سیاست کی۔
ترین خاندان کی رشتہ داریاں جنوبی پنجاب اور سندھ کے اہم ترین سیاسی خانوادوں سے ہیں۔ وہ رحیم یار خان کے مخدوموں کے داماد اور ملتان کے گیلانیوں اور سندھ کے پگاڑا کے سسرالی ہیں۔
جہانگیر خان ترین کے کزن ہمایوں اختر خان اور ان کے برادر نسبتی مخدوم احمد محمود پہلے سے سیاست میں متحرک تھے۔
اس لیے سیاست میں آنا ان کے لیے کچھ مشکل کام نہیں تھا۔ لیکن جہانگیر ترین کاروبار کی طرح سیاست میں بھی صرف اچھے وقت کا انتظار کر رہے تھے۔
پرویز مشرف کے فوجی اقتدا نے انھیں وہ نفع بخش موقع دے دیا۔ وہ مسلم لیگ ق میں شامل ہوئے اور 2002 کے انتخاب میں قومی اسمبلی کے لودھراں سے رکن منتخب ہوئے۔
انھیں وفاقی وزیر بننے کی پیشکش ہوئی جسے انھوں نے ٹھکرا دیا لیکن جب وزیر اعلیٰ پنجاب ان کے پاس ان کے منہ مانگے محکمے کی پیشکش لے کر آئے تو وہ ’انکار نہ کر سکے‘ اور ایک بار پھر زراعت کے صوبائی محکمے سے وابستہ ہو گئے۔ اس دوران زمینوں کی خریداری بھی جاری رہی اور سرکاری خرچ پر نت نئے تجربات بھی۔
کچھ عرصے بعد وہ وزیر اعظم شوکت عزیز کےوزیر صنعت و پیداوار بن گئے۔ ایک بار پھر ناقدین نے شور مچایا کہ اس دوران ملک کے ساتھ ساتھ جہانگیر ترین نے بھی خوب صنعتی ترقی کی۔
2008 میں وہ اپنے ایک اور رشتہ دار پیر صاحب پگارا کی مدد اور ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن بن گئے۔
تحریک انصاف اور عمران خان کی قربت
2011 میں انھوں نے درجن بھر ’ہم خیال‘ ارکان اسمبلی کو اکٹھا کیا اور ایک مضبوط سیاسی پریشر گروپ کے طور پر سامنے آئے۔
ابھی یہ گروپ اپنی آئندہ سیاست کے بارے میں غور و فکر کر ہی رہا تھا کہ اچانک خبر آئی کہ جہانگیر ترین عمران خان کی تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ہیں۔ خود اس گروپ کے ارکان بھی حیران رہ گئے کہ کس طرح ان کی طاقت کو استعمال کر کے جہانگیر ترین نے ایک لمبی چھلانگ لگائی کہ خود یہ گروپ بھی دیکھتا ہی رہ گیا۔
پی ٹی آئی میں ان کی آمد اور پھر اہم ترین عہدے تک ترقی بھی آسان نہیں رہی۔ سنہ 2015 میں پی ٹی آئی میں پارٹی انتخابات کروانے والے پارٹی رہنما جسٹس وجیہہ الدین احمد نے الزام لگایا کہ جہانگیر ترین نے دولت کے بل پر پارٹی انتخابات میں دھاندلی کی کوشش کی ہے۔ عمران خان نے جسٹس وجیہہ کی بات سنی ان سنی کر دی جس پر جسٹس صاحب پی ٹی آئی سے علیحدہ ہو گئے۔
اس وقت جہانگیر ترین بہت فخر سے کہتے تھے کہ عمران خان ان کا مشورہ بہت غور سے سنتے ہیں۔ ناقدین کے مطابق جہانگیر ترین کے مشورے سننا عمران خان کی ایک طرح کی مجبوری بھی تھی کیونکہ وہ کسی بھی دن سب سے زیادہ وقت جہانگیر ترین کے ساتھ گزارتے تھے۔
لیکن جہانگیر ترین کے خلاف ایک عدالتی فیصلے کے بعد ان پر پارلیمانی سیاست کا دروازہ اس وقت بند ہو گیا
یہ وہی شق ہے جس کے تحت سابق وزیراعظم نواز شریف بھی نااہل ہوئے تھے۔
جہانگیر ترین نے اپنے خلاف فیصلہ آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا کہ وہ عمران خان کو وزیراعظم بنوانے کی جدوجہد کرتے رہیں گے۔
وہ اپنے اس عزم پر انتخابات کی تیاری اور پی ٹی آئی کی انتخابی مہم کے دوران ہی نہیں حکومت سازی کے عمل کے دوران بھی سختی سے کاربند رہے۔ انتخابات سے پہلے امیدواروں کا چناؤ ہو یا ’الیٹکٹیبلز‘ کو پارٹی میں شامل کروانا، جہانگیر ترین اس عمل میں مرکزی حیثیت میں فرائض انجام دیتے رہے۔
جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنماؤں کو توڑ کر تحریک انصاف میں لانے کا سہرا بھی جہانگیر ترین کے سر جاتا ہے۔ انھی کی کوششوں سے تین درجن سے زائد مسلم لیگی امیدواران نے پہلے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنایا اور پھر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔
انتخابات کے بعد جب پی ٹی آئی کو مطلوبہ اکثریت نہ مل سکی تو یہ جہانگیر ترین ہی تھے جو تن تنہا اپنا جہاز لے کر نکلے اور آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے ارکان کو اپنے پرائیوٹ جیٹ میں لاد کر بنی گالہ لے کر آئے۔
اور جب قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں مطلوبہ ارکان کی حمایت حاصل ہو گئی اور عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا لیا تو اگلے روز ہی جہانگیر ترین نے اعلان کیا کہ ان کا وعدہ پورا ہوا اور وہ اپنے کاروبار اور خاندان پر توجہ دینے کے لیے لندن جا رہے ہیں۔
تاہم مبصرین کے مطابق مرکز اور خاص طور پر کس رکن کو کون سی وزارت ملنی چاہیے، اس میں جہانگیر ترین نے نہ ہوتے ہوئے بھی مبینہ طور پر اہم کردار ادا کیا۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق عمران خان کے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد جہانگیر ترین کو مبینہ طور پر وزیراعظم سیکرٹریٹ میں ایک کمرہ بھی الاٹ کیا گیا تاہم پاکستان تحریک انصاف اس کی تردید کرتی ہے۔
جہانگیر ترین اور عمران خان میں دوریاں
ترین اور عمران میں فاصلے بڑھنے لگے مگر ’جب بھی کوئی بڑا معاملہ ہوتا کسی پارٹی سے ڈائیلاگ یا اتحاد کی بات ہوتی تو جہانگیر ترین کو بلایا جاتا۔ مگر پھر وقفے بڑھتے گئے۔‘
’اس دوران عمران کی نئی کچن کابینہ بن گئی پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ، فرسٹ لیڈی بشریٰ بی بی اور زلفی بخاری اس کابینہ کے اہم ترین رکن بن گئے۔ یوں جہانگیر ترین کا رہتا سہتا اثرو رسوخ اور بھی کم ہو گیا۔‘
ان کے مطابق ’ترین کے دوستوں کا الزام ہے کہ عمران اور جہانگیر ترین میں غلط فہمیوں کا آغاز آئی بی کی ایک رپورٹ سے ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ جہانگیر ترین، سپیکر اسد قیصر، پرویز خٹک اور کچھ دوسرے وزرا نے ایک غیر رسمی اجلاس میں پارٹی لیڈر اور پالیسیوں کے خلاف گفتگو کی۔‘
’عمران کے قریبی حلقے میں یہ بات زیر گردش رہی مگر پھر دم توڑ گئی۔ بعد ازاں خان کے قریبی حلقے میں اسد عمر بھی شامل ہوگئے جو ترین کے خلاف پہلے سے ہیں۔ اس سے ترین مخالف حلقہ اور طاقتور ہو گیا۔‘
’خان اور ترین کے درمیان فاصلے اس وقت بڑھے جب دونوں خاندانوں کی خواتین میں بھی بن نہ سکی۔ اس کی ایک وجہ فرسٹ لیڈی کی روحانی کرامات کے حوالے سے ترین خاندان کی خواتین کی غیر محتاط گفتگو بھی بتائی جاتی ہے۔‘
’دوسری طرف ترین نے بھی معاملات کو درست کرنے کے حوالے سے کوئی سنجیدہ اور بامقصد منصوبہ بندی نہ کی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم خان، ترین کی زراعت، آٹا اور چینی کے حوالے سے کارکردگی پر بھی ناراض تھے۔‘
اس وقت جہانگیر ترین نے نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز سے اس بارے میں خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میرے اور میرے خاندان کے خلاف تمام الزامات بے بنیاد اور من گھڑت ہیں، میرا سب کچھ ڈکلیئر ہے، یہ ہمارے خلاف سوچی سمجھی سازش ہے، حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے ہمارے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔‘
ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جہاگیر ترین سیاست کے میدان میں اب دوبارہ قدم نہیں رکھیں گے۔ لیکن پھر عمران خان کی حکومت کا ایک تحریک عدم اعتماد کے ذریعے خاتمہ ہوا اور پی ڈی ایم نے حکومت بنائی۔
ایسے میں جہانگیر ترین کے زیرسایہ ایک اور ہم خیال گروپ تشکیل پایا جس میں تحریک انصاف کے قومی اور پنجاب اسمبلی کے تقریبا 30 اراکین شامل تھے۔
نو مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف میں تخریب کا ایک اور سلسلہ شروع ہوا تو جہانگیر ترین ایک بار پھر سے متحرک ہوئے
لیکن یہ سوال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ آیا جہانگیر ترین 2018 کی طرح اس بار بھی ’کنگ میکر‘ کا کردار ادا کریں گے یا نہیں۔