’میں نے تمام ضروری چھان پھٹک مکمل کر لی ہے اور انھیں ایک دیانت دار شخص پایا ہے۔ وہ ایک باوقار آدمی ہیں جو نئے پاکستان کے حوالے سے میرے نظریے اور ویژن کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘
سابق وزیر اعظم عمران خان نے ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ سے تعلق رکھنے والے عثمان احمد خان بزدار کی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب نامزدگی پر ہونے والی تنقید کے جواب میں یہ بیان دیا تھا۔
جب اگست 2018 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر نامزد کرنے کی خبر سامنے ائی تو اس کے ردعمل میں مقامی میڈیا میں عثمان بزدار کے خلاف ناصرف ’مبینہ کرپشن‘ اور ’مجرمانہ سرگرمیوں‘ کی خبریں شائع ہوئیں بلکہ تحریک انصاف کے بعض رہنماؤں نے اس نامزدگی پر اعتراض کیا۔
تاہم ان تمام تر اعتراضات کا جواب عمران خان نے یہ کہہ کر دیا عثمان ان کے نظریے اور ویژن کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اس واقعے کے لگ بھگ پانچ سال بعد پاکستان تحریک انصاف نے خود عثمان بزدار کی بنیادی پارٹی رکنیت ختم کر دی ہے اور انھیں خبردار کیا ہے کہ وہ مستقبل میں پارٹی کا نام کسی بھی صورت استعمال نہ کریں۔ عثمان بزدار کے علاوہ پارٹی کے درجن بھر سے زیادہ سابق رہنماؤں کی بنیادی رکنیت ختم کی گئی ہے۔
عمران خان کی جانب سے ملک کے ایک بڑے اور اہم صوبے میں نسبتاً ایک کم تجربہ کار شحض کو وزارت اعلیٰ کا منصب دینے پر پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے علاوہ اپوزیشن نے بھی حیرت کا اظہار کیا تھا۔ اس کے جواب میں عمران خان نے بارہا عثمان بزدار کا دفاع کیا اور انھیں ’وسیم اکرم پلس‘ کا خطاب بھی دیا۔
اپنے دور حکومت میں عمران خان نے بطور وزیر اعظم متعدد مرتبہ عثمان بزدار کے کام اور شخصیت کی برملا تعریف کی۔
اگرچہ عثمان بزدار کے تقریباً ساڑھے تین سال کے دور حکومت کے دوران متعدد مرتبہ پی ٹی آئی کے صوبائی ارکان اسمبلی نے ان کے انتظامی امور، بیوروکریسی اور صوبے کے دیگر معاملات پر کمزور گرفت کے متعلق عمران خان سے شکایات بھی کیں لیکن وزیر اعظم نے ہمیشہ ان کی حمایت کی۔
تاہم صورتحال اس وقت بدلی جب نو مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے بعد تحریک انصاف کے کارکنان اور رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز ہوا اور اسی دوران جون کے اوائل میں عثمان بزدار نے کوئٹہ پریس کلب پہنچ کر ناصرف تحریک انصاف بلکہ سیاست ہی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔
اس موقع پر کوئٹہ پریس کلب میں عثمان بزدار کے نام سے نہیں بلکہ ’سیاسی اور قبائلی شخصیات‘ کے نام سے پریس کانفرنس کی بکنگ کرائی گئی تھی اور چونکہ وہ ماسک پہنچ کر داخل ہوئے تو صحافیوں کو اس وقت ان کی پریس کلب میں موجودگی کا علم ہوا جب انھوں نے اپنا مختصر خطاب شروع کیا۔
یاد رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد احتساب کے قومی ادارے نیب نے ان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا جبکہ پنجاب کی انٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ ان کے خلاف تقرریوں اور تبادلوں میں رشوت لینے کے الزام کی تحقیقات شروع کر دیں۔
انھوں نے غیر قانونی اثاثوں کے کیس میں احتساب عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کی تھی اور وفاقی حکومت پر سیاسی انتقام کا الزام لگایا تھا۔
’جو خلا بزدار کے جانے سے پیدا ہوا۔۔۔‘
تحریک انصاف کی جانب سے عثمان بزدار کو پارٹی سے نکالنا وہ موضوع ہے جو سوشل میڈیا پر بھی توجہ حاصل کر رہا ہے۔
اقصیٰ زہرہ نے کہا کہ ’عثمان بزدار وہ شخص ہیں جنھوں نے پنجاب کا بیڑا غرق کیا مگر اس کے باوجود عمران خان کے فیورٹ رہے۔‘
عمر سیف نے اس وقت کو یاد کیا جب عثمان بزدار پر تنقید سے سوشل میڈیا پر ’ٹرول بریگیڈ آپ کے پیچھے لگ جاتی تھی۔‘
عائشہ اعجاز کہتی ہیں کہ ’اختتام قریب ہے۔ عثمان بزدار خوش قسمتی کے علامت تھے۔ عمر ایوب نے اس شخص کو پارٹی سے نکالنے کا نوٹس بھیجا جو پہلے ہی پارٹی چھوڑ چکا ہے۔‘
تحریک انصاف کے سابق سیکریٹری جنرل عامر کیانی کا ایک حالیہ کلپ بھی گردش کر رہا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’اگر عمران خان کے پاس اتنا کنٹرول تھا تو وہ اپنے دورِ حکومت میں بزدار کو کیوں نہ نکال سکے۔‘
عامر کیانی نے ایک پوڈکاسٹ میں کہا کہ ’اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی تھی کہ بزدار کام کرے، ہم نے پہلی بار بزدار کو اس وقت دیکھا جب وہ وزیر اعلیٰ بنے۔ میں ان سے پہلے کبھی نہیں ملا تھا۔۔۔ 27 سالوں میں خان صاحب بھی انھیں کبھی نہیں ملے تھے۔ انھوں نے (الیکشن سے) کچھ ماہ قبل پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔‘
عامر کیانی کا کہنا تھا کہ ’بزدار ایک مکمل ناکامی تھی۔۔۔ خدا جانے وہ کیسے آیا۔‘
صحافی اسماعیل خان نے تبصرہ کیا کہ اگر عمران خان کو کوئی پچھتاوا ہونا چاہیے تو بزدار ان میں سے ایک ہوں گے۔
سوشل میڈیا پر عمران خان کے ماضی کے ایسے ویڈیو کلپس بھی گردش کر رہے ہیں جن میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پنجاب میں عثمان بزدار سے بہتر وزیر اعلیٰ نہیں آئے گا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’جیسے میں انضمام اور وسیم اکرم کا انتخاب کرتا تھا، مجھے لگ رہا ہے کہ یہاں بھی وسیم اکرم نکلے گا۔‘
بزدار کی پارٹی رکنیت کے خاتمے نے مزاحیہ تبصروں اور میمز کا نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔
تجمل نے طنز کیا کہ ’جو امریکہ کو امریکیوں سے زیادہ جانتا تھا وہ وسیم اکرم پلس کو نہ جان سکا‘ تو شازیہ نے شاعرانہ انداز میں کہا ’کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی، یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا۔‘
دوالفقار علی نے پیشگوئی کی کہ ’جو خلا بزدار کے جانے سے پیدا ہوا ہے، اس کا نقصان پی ٹی آئی کو آنے والی کئی دہائیوں تک بھگتنا پڑے گا۔‘
ادھر کچھ لوگوں نے شرارتاً عثمان بزدار کو نگران وزیر اعظم لگانے کی تجویز پیش کی ہے۔
البتہ پی ٹی آئی کے بظاہر ایک حامی اکاؤنٹ حمید خٹک نے تبصرہ کیا کہ ’عثمان بزدار۔۔۔ جن کے لیے کپتان نے بہت پریشر برداشت کیا پر وہ کپتان کے لیے پریشر برداشت نہ کرسکے۔‘
ان کا اشارہ شاید ان قیاس آرائیوں کی جانب ہے جن میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ عثمان بزدار عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بھی بن سکتے ہیں۔
عثمان بزدار کا سیاسی کریئر
عثمان بزدار نے صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 286 ڈیرہ غازی خان سے 2018 کے انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر حصہ لیا تھا جس میں کامیاب ہو کر وہ پنجاب اسمبلی پہنچے تھے۔
عثمان بزدار تونسہ اور بلوچستان کے قبائلی علاقے میں آباد بزدار قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا خاندان کئی دہائیوں سے صوبہ پنجاب کی سیاست میں متحرک ہے اور مختلف ادوار میں کئی سیاسی جماعتوں کے ساتھ منسلک رہ چکا ہے۔
ان کے والد سردار فتح محمد خان بزدار قبیلے کے سردار ہیں اور تین مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔ عثمان بزدار نے پہلی مرتبہ سنہ 2013 میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا تھا تاہم وہ کامیاب نہیں ہو پائے تھے۔
سنہ 2018 کے الیکشن سے قبل انھوں نے سیاسی وابستگی تبدیل کر کے تحریکِ انصاف کے ٹکٹ سے انتخابات میں حصہ لیا اور وہ لگ بھگ چھ ہزار ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوئے۔ اس سے قبل سردار عثمان خان بزدار بلدیات کی سطح پر تحصیل ناظم رہ چکے تھے۔