فن لینڈ دنیا کا پہلا ایسا ملک بننے کے دہانے پر ہے جو اپنے جوہری فضلے کو ایک لاکھ سال کے لیے ایک گہری سرنگ میں دفن کرے گا۔
’اونکالو‘ فنش زبان کا ایک لفظ ہے جس کا مطلب غار یا زمین کا کھوکھلا حصہ ہے۔ اس کا مطلب کچھ بڑا اور گہرا ہے، اتنا گہرا کہ آپ کو یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ اونکالو کہاں ختم ہوتا ہے یا یہ ختم ہوتا بھی ہے یا نہیں۔
یہ گذشتہ 20 سال میں فن لینڈ میں بنائی گئی ایک بڑی غار کے لیے ایک مناسب نام ہے۔ اونکالو، جو ملک کے جنوب مغرب میں اولکیلوٹو جزیرے کی بنیاد کے اندر 450 میٹر (1500 فٹ) گہرائی میں واقع ہے، جوہری فضلے کو محفوظ ٹھکانے لگانے کا دنیا کی پہلی مستقل سٹوریج سائٹ ہے۔
اولکیلوٹو کو جانے والی خم دار سڑک آسمان کو چھوتے ہوئے چیڑ کے درختوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں پانچ طویل موسم سرما ختم ہو چکا ہے اور یہاں ہر طرف سبزہ ہے۔ زمین پیلے پیلے پھولوں سے ڈھکی ہوئی ہے اور فضا پرندوں کے چہچانے سے بھری ہوئی ہے۔ یہ اتنا خوبصورت منظر ہے کہ یقین نہیں آتا کہ یہ دراصل ایک اہم صنعتی سائٹ ہے۔
اولکیلوٹو تین جوہری ری ایکٹرز کا گھر ہے۔ تیسرا ری ایکٹر رواں سال لانچ کیا گیا تھا، جو 15 سال میں مغربی یورپ میں بجلی فراہم کرنے والا پہلا نیا ری ایکٹر بن گیا۔ یہ ری ایکٹرز جنوبی ساحل پر لوویسا میں دو دیگر ری ایکٹرز کے ساتھ مل کر فن لینڈ کی 33 فیصد بجلی پیدا کرتے ہیں۔
اولکیلوٹو ری ایکٹرز سے چند منٹ کی مسافت پر جوہری فضلے کو محفوظ انداز میں ٹھکانے لگانے والی دنیا کی پہلی جیولوجیکل ڈسپوزل سہولت (جی ڈی ایف) تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔
اونکالو کی تعمیر پر ایک ارب یورو لاگت آئی اور توقع ہے کہ تقریباً دو سال میں کام شروع ہو جائے گا۔
جوہری فضلے کے ڈسپوزل کی اس سہولت کو بین الاقوامی جوہری ایجنسی سمیت بہت سے لوگوں نے گیم چینجر کے طور پر سراہا۔
آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریانو گروسی نے 2020 میں جائے وقوعہ کا دورہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر کوئی تابکار جوہری فضلے کے لیے ارضیاتی ذخیرے کے خیال کے بارے میں جانتا تھا لیکن فن لینڈ نے ایسا کر دکھایا ہے۔
یونیورسٹی آف ہیلسنکی میں ریڈیو کیمسٹری کے پروفیسر گیرتھ لا کہتے ہیں کہ برطانیہ، امریکہ، سویڈن، فرانس اور کینیڈا سمیت دیگر ممالک پہلے ہی اسی طرح کے حل پر غور کر رہے ہیں۔ فن لینڈ ان سب ممالک سے کم از کم ایک دہائی آگے ہے۔
اونکالو کو اعلی سطح کے جوہری فضلے کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جو لامحدود عرصے تک تابکار رہ سکتا ہے لیکن یہاں پہلے ہی یہ بحث چھڑ چکی ہے کہ کیا کچھ غلط ہو سکتا ہے۔ تو کیا فن لینڈ کو واقعی جوہری فضلے کو محفوظ انداز میں ٹھکانے لگانے کا حل مل گیا ہے اور کیا کوئی اس بات کی ضمانت دے سکتا ہے کہ یہ مستقبل میں محفوظ رہے گا؟
کیا اونکالو واقعی پہلا ہے؟
جوہری توانائی اس وقت دنیا کی بجلی کا تقریباً 10 فیصد فراہم کرتی ہے۔ کم کاربن ہونے کی وجہ سے اسے بہت سے لوگ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مؤثر ہتھیار سمجھتے ہیں۔
لیکن بہت سے ممالک میں جوہری ری ایکٹر کی حفاظت اور فضلے کے محفوظ ڈسپوزل کے لیے ایسی غار کی تعمیر کے لیے درکار وقت ایک متنازع موضوع رہا ہے۔ اونکالو واقعی پہلا ہے؟
فن لینڈ پہلا ملک ہے جس نے سویلین آپریشن سے خرچ ہونے والے جوہری ایندھن کو ذخیرہ کرنے کے لیے جی ڈی ایف تیار کیا ہے۔
امریکہ میں دفاعی استعمال کے لیے پہلے سے ہی ایک فعال سائٹ موجود ہے: ویسٹ آئسولیشن پائلٹ پلانٹ (ڈبلیو آئی پی پی)، جو نیو میکسیکو میں زیر زمین نمک کی تشکیل میں واقع ہے۔
ڈبلیو آئی پی پی اوناکالو سے بہت مختلف مواد ذخیرہ کرتا ہے۔ ڈبلیو آئی پی پی میں امریکی جوہری ہتھیاروں کی تحقیق اور پیداواری پروگراموں سے نکلنے والے فضلے کو رکھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی ممالک جوہری صلاحیت بڑھانے کے لیے نئے ری ایکٹرز تعمیر کر رہے ہیں یا موجودہ ری ایکٹرز کو اپ گریڈ کر رہے ہیں جبکہ انڈیا، چین اور روس اپنے جوہری پروگراموں میں بڑے پیمانے پر توسیع کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
البتہ جوہری تنصیبات کی حفاظت کے بارے میں بحث جاری ہے لیکن جوہری فضلے کو محفوظ انداز میں ٹھکانے لگانے کے مسئلے کا حل بھی تلاش کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بڑی تعداد میں جوہری فضلہ اکٹھا ہو رہا ہے جو سینکڑوں ہزار سال تک ماحول اور انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے.
اس فضلے کو لوگوں سے اتنے لمبے عرصے تک دور رکھنے اور ماحول سے الگ تھلگ رکھنے کی ضرورت ہے جس کے بارے میں انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔
اس مسئلے نے تابکار فضلے کے محفوظ انتظام کو جوہری توانائی کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ بنا دیا ہے۔
آئی اے ای اے کا اندازہ ہے کہ سنہ 2016 تک دنیا بھر میں عبوری سٹوریج میں تقریباً 260،000 ٹن جوہری فضلہ موجود ہے، جس میں سے زیادہ تر ری ایکٹر سائٹس پر ہیں۔ دنیا کا تقریباً 70 فیصد ایندھن ذخیرہ کرنے والے تالابوں میں ہے، باقی کنکریٹ اور سٹیل کے کنٹینرز میں ہے جسے ’ڈرائی کاسک‘ کہا جاتا ہے۔
بہت کم لوگوں کا خیال ہے کہ اس صورت حال کو غیر معینہ مدت تک برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف شیفیلڈ میں جوہری مواد کے لیکچرر لیوس بلیک برن کا کہنا ہے کہ ’ہم سب 60 سال سے زیادہ عرصے سے جوہری توانائی سے مستفید ہو رہے ہیں۔ یہ ہماری نسل کے سائنسدانوں اور انجینئروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ فضلے کو آنے والی نسلوں پر چھوڑنے کے بجائے اسے ٹھکانے لگانے کا چیلنج قبول کریں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اونکالو کو عوامی حمایت حاصل ہے اور اسے جمہوری عمل کے ذریعے تخلیق کیا گیا تھا۔ ’یہ غیر معمولی اور ایک بہت بڑا سنگ میل ہے۔ فن لینڈ نے دنیا کے سامنے ایک مثال قائم کی ہے کہ عوام کے ساتھ بات چیت اور عوام کے تعاون سے کیا حاصل کیا جاسکتا ہے۔‘
سائنسدان کئی دہائیوں سے اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ انتہائی تابکار جوہری فضلے کو کیسے ٹھکانے لگایا جائے۔ استعمال شدہ جوہری ایندھن کو محفوظ انداز میں ٹھکانے لگانا انتہائی مشکل ہے۔ بلیک برن کا کہنا ہے کہ یہ تابکاری کی ایسی سطح پیدا کرتا ہے جو اس کے قریب آنے والے شخص کو متاثر کر سکتا ہے۔
پروفیسر گیرتھ لا کے مطابق اس پر سائنسی اتفاق رائے موجود ہے کہ اونکالو جسی پتھریلی سرنگ میں لاکھوں سال تک محفوظ رکھنے کا بہترین طریقہ ہے۔ ’ہمارے پاس کھدائی کرنے اور سرنگیں کھودنے، فضلے کو نیچے ڈالنے اور اس کے ارد گرد موجود رکاوٹوں کی تعمیر کے لیے انجینئرنگ کے حل موجود ہیں۔‘
فن لینڈ کی تابکاری اور نیوکلیئر سیفٹی اتھارٹی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اونکالو جیسی پتھریلی غار جوہری ایندھن کو ہمیشہ کے لیے ٹھکانے لگانےاور حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے سازگار ہیں۔
فن لینڈ کے باقی حصوں کی طرح اونکالو بھی ارضیاتی لحاظ سے بہت مستحکم ہے اور زلزلوں کا خطرہ کم ہے۔ پوسیوا کے پرنسپل جیولوجسٹ انٹی جوتسن بتاتے ہیں کہ ’اونکالو کی چٹان میگمیٹ گنیز ہے: ایک چٹان میں دو مختلف چٹانوں کی اقسام کا مرکب ہے۔ یہ تقریباً دو ارب سال پرانا ہے اور یہ بہت مضبوط ہے۔‘
یہ اہم ہے کیونکہ چٹان جوہری فضلے کو ٹھکانے کے لیے تین حفاظتی رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔ اسے اتنا مستحکم بھی ہونا چاہیے کہ زمین کے نیچے جمع سرنگوں اور سوراخوں کی تعمیر کی اجازت دی جا سکے۔
پروفیسر گیرتھ لا کا کہنا ہے کہ اونکالو کی موجودہ جوہری بجلی گھروں سے قربت بھی اسے وہاں نصب کرنے کے فیصلے سے متعلق تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جوہری سرمایہ کاری کے حوالے سے دنیا بھر کے مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ لوگ ایسی کسی تعمیر کو اپنے قریب بننے کی اجازت نہیں دیتے لیکن فن لینڈ کے اس حصے میں لوگ پہلے ہی جوہری توانائی کا استعمال کررہے ہیں لہذا یہیں جوہری فضلے کو ٹھکانے لگانے کی سہولت پر لوگوں کو اعتراض نہیں۔‘
اونکالو پہلے دوبارہ پروسیسنگ کے عمل سے گزرے ہوئے استعمال شدہ جوہری ایندھن کی سلاخیں لے گا۔
بعض سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ پلوٹونیم اور یورینیم کو جوہری ایندھن سے الگ کرنے کا عمل جو دوبارہ قابل استعمال جوہری مواد اور اعلیٰ سطح کا جوہری فضلہ پیدا کرتا ہے، باقی رہ جانے والے فضلے کی مجموعی مقدار کو کم کرکے انہیں محفوظ بنائے گا۔
ہیلسنکی یونیورسٹی کے شعبہ کیمسٹری کی لیکچرر مرجا سیتارو کوپی کہتی ہیں کہ ’آپ یورینیم اور پلوٹونیم کو ری پراسیسنگ کے عمل سے گذار کر تازہ جوہری ایندھن بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘
دنیا کے تقریباً ایک تہائی جوہری فضلے کو دوبارہ پراسیس کیا جاتا ہے، جسے بعد میں شیشے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ری پروسیسنگ سے جوہری دہشت گردی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ طویل مدت میں، شیشے میں تبدیل فضلہ (ویٹریفڈ فضلہ) زیر زمین پانی کے ساتھ رابطے میں بھی تحلیل ہوسکتا ہے۔
اونکالو کی تعمیر اور اسے چلانے کے لیے قائم کی گئی کمپنی پوسیوا خود کہتی ہے کہ ری پروسیسنگ تکنیکی طور پر مشکل اور مہنگا ہے۔ پوسیوا میں ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کوآرڈینیٹر، جوہانا ہینسن بتاتی ہیں کہ یہ اب بھی کچھ مقدار میں اعلی سطح کا فضلہ بھی پیدا کرتی ہے۔ لہٰذا کسی بھی صورت میں ڈسپوزل سہولت کی ضرورت ہو گی۔
فن لینڈ میں دو دہائی قبل جب دو جوہری توانائی پیدا کرنے والوں نے اپنے جوہری فضلے کو ایک ہی مقام پر ٹھکانے لگانے پر اتفاق کیا تو فن لینڈ کی حکومت نے دسمبر 2000 میں اس تنصیب کی تعمیر کے منصوبے کی منظوری دیتے ہوئے کہا تھا کہ جوہری فضلے کو زمین کی گہرائی میں تلف کرنا سب سے بہترین آپشن ہے۔
اونکالو منصوبہ سویڈش نیوکلیئر فیول اینڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی طرف سے پوسیوا کے تعاون سے تیار کردہ کے بی ایس -3 تصور پر مبنی ہے۔
اس خیال کے مطابق جوہری فضلے کو تین تہیوں میں رکھا جائے گا۔ سب سے پہلے، اسے تانبے کے کنستروں میں ڈالیں، پھر کنستروں کو بینٹونائٹ میں لپیٹیں، جو پانی جذب کرنے والی مٹی ہے اور آخر میں، انھیں تہہ میں گہری سرنگوں میں دفن کریں۔
اس منصوبے پر 20 سال سے زیادہ عرصے سے کام کرنے والے ہینسن کا کہنا ہے کہ یہ عمل انکیپسولیشن پلانٹ سے شروع ہوتا ہے جو سطح پر ہوتا ہے۔ ’یہاں ہم استعمال شدہ ایندھن کی سلاخوں کو ایک ڈسپوزل کنستر میں ڈالیں گے جس کے دو حصے ہیں: ایک اندرونی خول کاسٹ آئرن سے بنا ہوا ہے اور ایک بیرونی شیل ہے جو 2 انچ موٹے تانبے سے بنا ہوا ہے۔‘
اس کے بعد کنسٹر پر ایک ڈھکن ویلڈ کیا جاتا ہے، جسے ڈسپوزل کی سہولت میں سٹوریج ایریا میں لے جایا جاتا ہے، وہ کہتی ہیں۔ ایک بار سائٹ تیار ہونے کے بعد انھیں زمین سے 1500 فٹ نیچے سرنگ میں منتقل کیا جائے گا۔
ابتدائی طور پر ایک لفٹ کنستروں کو 1430 فٹ گہرائی میں لینڈنگ ایریا تک نیچے لے جائے گی۔
جب میں مئی 2023 میں وہاں گئی تو یہ لفٹ شافٹ ایک ایسے دروازے کے پیچھے ہے جس پر دو بڑے سرخ ایکس لگے ہوئے ہیں۔ حفاظت یہاں بہت اہم ہے۔ ہینسن کا کہنا ہے کہ یہاں سے ایک روبوٹک ٹرانسفر گاڑی کنستروں کو جمع کرنے والے سوراخ میں لے جائے گی۔
اب تک پانچ ڈیڈ اینڈ ڈیپوزیشن سرنگیں تعمیر کی جا چکی ہیں، جو تمام 1150 فٹ لمبی ہیں۔ موجودہ سرنگوں کے بھر جانے پر مزید 85 سرنگوں کی تعمیر کی جائے گی۔ ہر سرنگ کے فرش میں تقریباً 40 عمودی گول سوراخ ہوتے ہیں، جن میں سے ہر ایک 26 فٹ گہرا اور7 فٹ چوڑا ہوتا ہے۔ ہر عمودی سوراخ میں تقریباً 3،000 کنستروں کی گنجائش ہوتی ہے۔
جوتسن کہتے ہیں کہ ’ان میں کل 5500 ٹن کچرا ہوگا، لہٰذا اونکالو فن لینڈ کے پانچ جوہری بجلی گھروں کی جانب سے پیدا ہونے والے جوہری فضلے کو سمیٹ لے گا۔‘
ہینسن کا کہنا ہے کہ ہر کنستر کو دفن کرنے کے بعد، اس کے سوراخ کو بینٹونائٹ سے بھر دیا جائے گا۔ ’جب ہم ہر سوراخ میں ایک کنستر ڈال دیں گے، تو ہم سرنگ کو مزید بینٹونائٹ سے بھر دیں گے اور اسے کنکریٹ سے بند کر دیں گے۔‘
استعمال شدہ جوہری ایندھن کو حتمی طور پر ٹھکانے لگانے کا کام اگلے چند سالوں میں شروع ہو جائے گا۔ پوسیوا کا اندازہ ہے کہ ذخیرہ بھرنے میں 100-120 سال لگیں گے۔ اس موقع پر پوری تنصیب کو سیل کر دیا جائے گا، جس سے امید ہے کہ کنستروں کو کم از کم 100،000 سال تک بغیر کسی رکاوٹ کے رکھا جا سکے گا، اور ان کے مہلک تابکار مواد کو بیرونی دنیا سے الگ کر دیا جائے گا۔
جوتسن کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہاں زلزلوں کا خطرہ کم ہے، لیکن زلزلے کی سرگرمی کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگلے دس لاکھ سالوں میں کئی برفانی دور ہوں گے اور ان سے زلزلوں کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ اونکالو کے اوپر 2-3 کلومیٹر (1.2-1.9 میل) موٹی برف کی چادر ہوگی جو زمین کی تہہ کو سینکڑوں میٹر نیچے دھکیل دے گی۔ اونکالو کو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تعمیر کیا گیا ہے۔
جب برفانی دور ختم ہو جائے گا، تو پرت دوبارہ بڑھنا شروع ہو جائے گی۔ یہی وہ وقت ہے جب کنستروں کو توڑنے کی طاقت کے ساتھ زلزلے آسکتے ہیں۔
اس کی روک تھام کے لیے، ہم انھیں بہترین طریقے سے پیش کر رہے ہیں۔
تابکار فضلے کو طویل عرصے تک محفوظ رکھنے کے لیے جی ڈی ایف واحد مجوزہ خیال نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ناروے جوہری فضلے کو گہرے سوراخ میں ٹھکانے لگانے پر غور کر رہا ہے، جہاں کچرے کو کنستروں میں 3،500 فٹ تک کم کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ کچھ کم مستند طریقے بھی تجویز کیے جا رہے ہیں جیسے جوہری فضلے کو راکٹ کے ذریعے خلا میں پھینکنا یا اسے ٹیکٹونک پلیٹ کے سبڈکشن زون میں ڈالنا جہاں ایک پلیٹ دوسری پلیٹ کے نیچے چلی جاتی ہے۔
جوہری فضلے کو محفوظ انداز میں ٹھکانے لگانے کے متبادل طریقوں کی تلاش جاری رکھنا میں سمجھ میں آتا ہے، اس لیے نہیں کہ سائنسدان فن لینڈ کے نقطہ نظر کے بارے میں پریشان ہیں۔
پوسیوا کا کہنا ہے کہ اس کے نظریاتی اور لیبارٹری مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ اونکالو جوہری فضلے سے طویل المدتی تحفظ فراہم کرے گا۔ لیکن ناقدین اونکالو میں استعمال ہونے والے کے بی ایس-3 ڈسپوزل تصور کی حفاظت کے بارے میں فکرمند ہیں۔
کے بی ایس-3 وی ایک ملٹی بیریئر اصول پر مبنی ہے: خرچ شدہ ایندھن تین حفاظتی رکاوٹوں کے اندر موجود ہے، تانبے کے کنستر، بینٹونائٹ مٹی اور بیڈرک۔ سب سے اہم رکاوٹ تانبے کا کنستر ہے، اور اونکالو یہ مفروضہ بناتا ہے کہ تانبا اینروبک حالات میں خراب نہیں ہوتا ہے – یعنی آکسیجن کی غیر موجودگی میں، جیسے کہ جب اس کے ارد گرد بینٹونائٹ مٹی کے ساتھ بیڈرک میں دفن کیا جاتا ہے۔
لیکن سویڈش رائل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (کے ٹی ایچ) کے محققین نے تانبے کے کنستروں کی زنگ کی مزاحمت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے: ان کا کہنا ہے کہ ان کے تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ تانبا اینوروبک حالات میں بھی خراب ہوسکتا ہے۔
سٹاک ہوم میں کے ٹی ایچ رائل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے کیمیا دان پیٹر سزکالوس کا کہنا ہے کہ ’آپ سرنگوں کو بینٹونائٹ مٹی اور چٹان سے بھر سکتے ہیں لیکن قدرت اپنا کام کرے گی۔ پانی سرنگوں میں داخل ہوگا اور یہ نظریاتی ماڈل کی پیش گوئی سے کہیں زیادہ تیزی سے تانبے کو خراب کرے گا۔‘
زکالوس کا کہنا ہے کہ زنگ سے پڑنے والی دراڑیں ایک سو سال کے اندر اونکالو میں بہت سے کنستروں کو توڑ سکتی ہیں۔
پوسیوا نے تانبے کے تحلیل ہونے کے بارے میں اپنی تحقیق کرنے کے بعد ان دعوؤں کو مسترد کردیا ہے۔ پوسیوا کے سائنس دانوں اور آزاد ماہرین کے ایک مقالے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ’تانبے کے خول کے دباؤ کے سنکنرن ذخیرے کے حالات میں ناممکن سمجھا جاتا ہے۔‘ اس میں یہ بھی دلیل دی گئی ہے کہ لیبارٹری میں تجرباتی حالات میں دیکھا جانے والا سنکنرن اونکالو میں زمین سے 1،500 فٹ نیچے کے حالات سے متعلق نہیں ہے۔
اس متضاد شواہد نے سویڈن میں کے بی ایس -3 کے اسی تصور کی بنیاد پر ایک ذخیرہ تعمیر کرنے کے منصوبوں میں تاخیر کی ہے جیسا کہ اونکالو۔ لیکن جنوری 2022 میں سویڈش حکومت نے سٹاک ہوم سے تقریباً 130 کلومیٹر (81 میل) شمال میں واقع فورس مارک میں جی ڈی ایف کی تعمیر کے لیے گرین سگنل دے دیا۔
ہینسن کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس ایک مضبوط، ملٹی بیریئر تصور ہے اور ہم اگلے ملین سالوں میں ہونے والے منظرنامے کے لئے تیار ہیں۔ مثال کے طور پر، ہم نے دیکھا کہ اگر کنسٹر جلد ہی لیک ہونا شروع ہو جائے تو کیا ہوتا ہے، اگر مٹی غلط طریقے سے نصب کی جاتی ہے، اگر سرنگوں میں زیادہ پانی ہو اور پانی کی کیمسٹری ہماری توقع سے مختلف ہو تو کیا ہوگا۔‘
فی الحال، کم از کم، فن لینڈ اور سویڈن اس منصوبے کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، حالانکہ زکالوس کا کہنا ہے کہ تانبے کے سنکنرن پر مزید تحقیق کی جائے گی..
اونکالو اور مجوزہ سویڈش تنصیبات دونوں کا مقصد تابکار فضلے کو کم از کم 100،000 سال تک محفوظ رکھنا ہے۔ جوتسن کا کہنا ہے کہ ‘ہم ایک ایسی چیز بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہومو سیپیئنز کے زندہ رہنے سے زیادہ عرصے تک کام کرے۔‘
جب اونکالو سرنگ بھر جائے گی تو سرنگوں کو سیل کر دیا جائے گا، سطح پر موجود عمارتوں کو مسمار کر دیا جائے گا اور زمین کو بحال کر دیا جائے گا۔ جوتسن کا کہنا ہے کہ ‘وہاں جانور، درخت اور پودے اور گھر ہوں گے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ 120 سالوں میں زندہ ہوئے تو وہ خوشی سے اونکالو میں زمین کا ایک ٹکڑا خریدیں گے۔
بعد میں کیا آتا ہے یہ زیادہ غیر یقینی ہے۔ یہ مکمل طور پر ممکن ہے کہ اونکالو کے بارے میں تمام معلومات چند ہزار سالوں میں ختم ہوجائیں۔
سماجی سائنس دان اس چیلنج سے نبرد آزما ہیں کہ انسانوں یا مستقبل میں ہمارے بعد آنے والے کسی اور شخص کے ساتھ کس طرح بات چیت کی جائے تاکہ انھیں ان خطرات کے بارے میں خبردار کیا جا سکے جو ہم اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔
اونکالو کو نشان زدہ کرنے کے بارے میں ایک بحث اس بات پر مرکوز ہے کہ مستقبل میں زبان غائب ہو جائے تو خطرے کی عالمی سطح پر سمجھی جانے والی علامت تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔
تاہم، پوسیوا، فیصلہ سازوں اور محققین کی موجودہ سوچ اونکالو کو نشان زدہ کرنے کے لئے بالکل بھی نہیں ہے۔
جوتسن کا کہنا ہے کہ ’آنے والی نسلوں کو اس بارے میں جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بہت گہرا اور اتنا الگ تھلگ ہے. یہاں بہت سارے تانبے اور پلوٹونیم ہوں گے اور ایک نشان لوگوں وہاں تانبے اور پلوٹونیم کو نکالنے کے لئے کھدائی شروع کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے۔ یہ مصر کے اہرام کی طرح ہے جہاں ڈاکوؤں نے مقبرے لوٹ لیے تھے۔‘
تاہم ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ کوئی جلدی نہیں ہے کیونکہ یہ سہولت 100 سے 120 سال تک کھلی رہے گی۔
کوپی کا کہنا ہے کہ سائٹ کو نشان زدہ کرنے کے بارے میں بحث کو ایک ایسے نقطہ نظر میں رکھنا ضروری ہے جس سے لوگ تعلق رکھ سکیں۔ وہ اکثر ہیلسنکی یونیورسٹی میں اپنے طالب علموں کو یاد دلاتی ہیں کہ ریڈیوایکٹیویٹی صرف 120 سال پہلے دریافت ہوئی تھی۔ اب ہم ان چیزوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو اگلے سینکڑوں ہزاروں سالوں میں ہو سکتی ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ اگلے سو سالوں میں کیا ہو سکتا ہے۔
کوپی کا کہنا ہے کہ انہیں ‘بہت اعتماد’ ہے کہ فن لینڈ اونکالو کے ساتھ اچھا کام کر رہا ہے، لیکن ان کا ماننا ہے کہ تابکاری فضلے کی محفوظ انداز میں ڈسپوزل کے لیے دیگر آپشنز کے لیے دروازے اب بھی کھلے رہنے چاہئیں۔
’ہم سے بعد میں آنے والے ہم سے زیادہ ذہین ہو سکتے ہیں جن کے پاس تابکاری فضلے سے نمٹنے کے لیے نئے خیالات ہوںہمیں اپنی صلاحیت کے مطابق موجودہ علم کی بنیاد پر ایمانداری کے ساتھ تحقیق کرنی چاہیے۔‘