خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی جانب سے ایک نئی سیاسی جماعت، جسے تحریک انصاف پارلیمینٹیریئن کا نام دیا گیا ہے، کے قیام کے فوری بعد متعدد اراکین کی جانب سے ایسے اعلانات سامنے آئے جن میں اس جماعت سے وابستگی کی تردید کی گئی۔
ایسے میں جہاں پرویز خٹک کی جانب سے کیے جانے والے دعوے مشکوک ہوتے جا رہے ہیں وہیں سیاسی مبصرین تحریک انصاف کے اس دھڑے کی سیاسی اور انتخابی اہمیت پر بھی سوال اٹھاتے دکھائی دیے۔
نئی جماعت کے اعلان میں کہا گیا کہ پرویز خٹک کو 57 سابق اراکین کی حمایت حاصل ہے تاہم سوموار کے دن ایک نجی شادی ہال میں منعقدہ تقریب سے صحافیوں کو دور رکھا گیا جس کے بعد مختلف اراکین کی جانب سے بیانات آئے تھے کہ ان کا پرویز خٹک کی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے ساتھ ہی کھڑے ہیں۔
ایسے میں سوال اٹھ رہا ہے کہ آئندہ انتخابات میں یہ نئی جماعت کیا پاکستان تحریک انصاف کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچا پائے گی؟
اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ پرویز خٹک کی حمایت کرنے والے اراکین کا سیاسی پس منظر کیا ہے۔
کن اراکین نے پرویز خٹک سے وابستگی سے انکار کیا؟
پاکستانی ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا اور ٹیلیفون کے ذریعے بی بی سی کو موصول ہونے والے ایسے نو سابق اراکین اسمبلی کے آڈیو اور ویڈیو پیغامات موجود ہیں جن میں ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے پرویز خٹک کی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کی بلکہ وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ایسے ہی ایک امیدوار اعظم خان پی کے 13 لوئر دیر سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ انھوں نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ عمران خان کے سپاہی ہیں اور مرتے دم تک ان کے ساتھ رہیں گے۔
اسی طرح پی ٹی آئی رہنما افتخار مشوانی نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ جو جماعت پی ٹی آئی پارلیمینٹیرینز کے نام سے قائم کی گئی ہے، اس میں میری اسمبلی کی تصویر لے کر یہ تاثر دیا گیا ہے کہ میں نے پرویز خٹک کی جماعت میں شمولیت اختیار کی ہے حالانکہ یہ درست نہیں بلکہ میں عمران خان کے ساتھ کھڑا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ اب یہ مشکل وقت ہے اس میں ہم عمران خان کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔
اسی طرح پی کے 36 سے منتخب سابق ایم پی اے نواب زادہ فرید صلاح الدین اور پی کے 41 سے سابق ایم پی اے قلندر خان لودھی نے تردیدی پوسٹ اور وضاحتی پوسٹس جاری کی ہیں جن میں انھوں نے کہا ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ ہیں اور آئندہ بھی ان کے ساتھ رہیں گے۔
واضح رہے کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کے لیے گئے تھے تاہم انھوں نے جماعت کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔
تحریک انصاف نے بعد میں ان پر جماعت کے اراکین کو پارٹی چھوڑنے کی ترغیب دینے کا الزام لگاتے ہوئے پہلے شو کاز نوٹس جاری کیا اور پھر انھیں پارٹی سے نکال دیا۔
پرویز خٹک نے جہانگیر ترین کی سرپرستی میں قائم ہونے والی استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت کی خبروں کو رد کیا تو یہ تاثر گہرا ہوا کہ وہ ایک الگ گروپ یا جماعت قائم کریں گے۔
پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ اسد قیصر، تیمور سلیم جھگڑا، شوکت یوسفزئی، علی امین گنڈا پور، مراد سعید، عمر ایوب، ارباب شیر علی، عاطف خان سمیت دیگر رہنماوں سے بھی رابطہ کیا گیا تاہم انھوں نے پرویز خٹک کے گروپ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔
تاہم سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان پرویز خٹک کے ساتھ اس تقریب میں شامل نظر آئے۔
دباؤ یا نظریہ
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پرویز خٹک نے 2013 میں پی ٹی آئی کو مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا اور بطور وزیر اعلیٰ انھوں نے متعدد ترقیاتی منصوبے شروع کیے جیسے بی آر ٹی، صحت کارڈ، ہسپتالوں اور سکولوں کی صفائی اور مرمت کے علاوہ بلین ٹری سونامی، لنگر خانے، سرائے اور روزگار کے مواقع فراہم کیے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پرویز خٹک کی کوشش ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے ووٹ بینک کو کیش کر لیں۔ سینئر صحافی محمد فہیم کا کہنا ہے کہ ’پرویز خٹک کے پاس اس وقت اپنی جماعت بنانے کے علاوہ بظاہر کوئی اور راستہ نہیں تھا کیونکہ صوبے میں اس وقت پی ٹی آئی کا ہی ووٹ بینک ہے۔‘
’وہ خیبر پختونخوا میں جہانگیر ترین کی جماعت میں بھی نہیں جا سکتے تھے کیونکہ جہانگیر ترین کو یہاں کوئی ووٹ نہیں ملے گا۔‘
سینیئر صحافی محمد عرفان کا کہنا ہے کہ ’جو لوگ اس جماعت میں شامل ہو رہے ہیں انھیں ایک دباؤ کے تحت لایا گیا ہے تاکہ نمبر گیم کو مکمل کیا جا سکے۔‘
ان کا ماننا ہے کہ یہ جماعت پی ٹی آئی کے ووٹ بینک پر زیادہ اثرانداز نہیں ہو گی۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ضرور ہے کہ جو بڑی شخصیات اس جماعت میں شامل ہیں ان کا شخصی ووٹ ضرور ہے۔‘
پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کے جانے کے بعد بھی عمران خان اور پی ٹی آئی مضبوط جماعت رہے گی۔
’اس کی وجہ یہ ہے کہ انتخابات کے لیے جتنے بھی حلقے ہیں ہر ایک حلقے سے جماعت کی ٹکٹ کے لیے بڑی تعداد میں درخواستیں موصول ہوئی تھیں اگر یہ نہیں ہوں گے تو کیا جماعت کے پاس الیکشن لڑنے والے نہیں ہوں گے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ جماعت زیادہ مضبوط ہوگی کیونکہ پی ٹی آئی کا کارکن اپنی جماعت کے ساتھ متحد ہے۔‘
جماعت کا اعلان خفیہ کیوں؟
پرویز خٹک کی جماعت کی بنیاد رکھنے والوں نے اس پارٹی کے قیام کو خفیہ کیوں رکھا، یہ ایک معمہ ہے۔ تاہم اس حکمت عملی کا بظاہر نقصان ہوا۔
اس کے ساتھ ساتھ تقریب کی کوریج کے لیے جانے والے صحافیوں کو حراست میں لینا، انھیں تصویریں بنانے پر دھمکیاں دینا، ان سے موبائل فون لینا اور انھیں وہاں سے چلے جانے کا کہنا بھی منفی اثرات چھوڑ گیا۔
اس تقریب میں چند ایسے رہنما بھی موجود تھے جو چند روز پہلے ہی گرفتار ہوئے اور ان کی ہتھکڑیوں میں تصویریں بھی سامنے آئی تھیں۔ ان میں ارباب وسیم اور جواد کے علاوہ ہنگو سے پی ٹی آئی کے رہنما شاہ فیصل شامل ہیں۔
سینیئر صحافی فرزانہ علی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس طرح کا طریقہ کار کافی عرصے سے جاری ہے۔
’کبھی لوگوں کو جہازوں میں لایا جاتا تھا اور کبھی انھیں ہوٹلوں میں قیام کے لیے رکھا جاتا تھا تاکہ من پسند نتائج حاصل کیے جا سکیں۔‘
پرویز خٹک کی جماعت کتنی سیٹیں جیت پائے گی؟
سینئر صحافی فرزانہ علی کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پرویز خٹک ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں جو جوڑ توڑ کی سیاست کے ماہر ہیں۔ لیکن پرویز خٹک کی جماعت الیکشن میں زیادہ سیٹیں نہیں جیت سکے گی۔
فرزانہ علی نے کہا کہ انھیں ایسا لگتا ہے کہ ابھی مزید دھڑے بھی بنیں گے اور پھر انتخابات میں تھوڑی تھوڑی سیٹیں جیتنے والی تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک مخلوط حکومت قائم ہو گی۔
سینیئر صحافی محمد فہیم کہتے ہیں کہ پرویز خٹک کا اپنا حلقہ نوشہرہ ہے جہاں وہ مقبولیت رکھتے ہیں لیکن صوبے کے دیگر شہروں چارسدہ، مردان، ڈیرہ اسماعیل خان وغیرہ میں پرویز خٹک کے نام پر ان کے کسی امیدوار کو ووٹ نہیں ملے گا۔
کچھ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2013 اور پھر 2018 کے انتخابات میں بڑی تعداد میں ایسے نئے چہرے کامیاب ہوئے جنھیں صرف عمران خان کی وجہ سے ووٹ ملے تھے اور اب اگر ان کے ساتھ عمران خان کا نام نہیں ہوگا تو یہ چہرے شاید دوبارہ کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
پاکستان میں سیاسی دھڑوں کی روایت
پاکستان میں سیاسی انجینیئرنگ کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی ایسی ہی دھڑے بندی کا شکار ہوئی جب پیٹریاٹ اور پارلمینٹیرینز گروپ بنے۔
اسی دور میں مسلم لیگ نواز شریف کی سربراہی میں نون لیگ اور چوہدری برادران کی قیادت میں قائد اعظم یا ق لیگ میں بٹی۔
جمعیت علمائے اسلام سے سمیع الحق گروپ اور نورانی گروپ بنے جبکہ ایم کیو ایم کی دھڑے بندی کافی حالیہ مثال ہے۔
سیاسی اتحاد بھی اسی تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس بار جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی اور پرویز خٹک کی پی ٹی آئی پارلیمینٹرینز سامنے آئے ہیں جبکہ اس کے علاوہ بھی کوئی سیاسی دھڑا سامنے آ سکتا ہے۔