کسی بھی کپڑے کو سونگھ کر یا اس کے داغ دیکھ کر ہم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا اسے دھونے کی ضرورت ہے یا ابھی اسے مذید استعمال کیا جا سکتا ہے۔
لیکن ہمیں یہ کیسے علم ہو گا کہ تولیے کو کب دھونا چاہیے؟
یہ ایک اہم سوال ہے جس کا براہ راست تعلق ہماری صحت سے بھی ہے۔ تو آخر تولیے کو کتنے عرصے بعد دھونا یا بدل لینا چاہیے؟
یہ ایک ایسی بحث ہے جس کا جواب جاننے کے لیے برطانوی ٹی وی میزبان رومان کیمپ نے بھی حال ہی میں سوشل میڈیا پر سوال کیا اور برطانیہ ہی میں 2200 افراد کے ایک حالیہ سروے نے اس سوال کا جواب دیا ہے کہ کسی کو اس کا درست جواب معلوم نہیں ہے۔
سروے میں 44 فیصد افراد نے جواب دیا کہ ان کو ہر تین ماہ بعد تولیہ دھو لینا چاہیے۔
لیکن ماہرین کی رائے کیا ہے؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے ڈاکٹر سیلی بلوم فیلڈ سے رابطہ کیا جو حفظان صحت اور متعدی امراض کی ماہر ہیں۔
بی بی سی نیوز بیٹ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے سروے کے نتائج پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں تو اتنے عرصے میں تولیہ استعمال کے قابل نہیں رہتا۔‘
سروے کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک فرد نے جواب دیا کہ وہ ماہانہ ایک بار تولیہ دھو لیتے ہیں جبکہ ایک چوتھائی نے کہا کہ وہ ہر ہفتے تولیہ دھوتے ہیں اور 20 میں سے ایک کا جواب تھا کہ وہ روزانہ نہانے کے بعد تولیہ دھوتے ہیں۔
لیکن ہمیں تولیہ دھونے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟
ڈاکٹر سیلی کا کہنا ہے کہ بظاہر صاف نظر آنے والے تولیے پر بھی لاکھوں جراثیم اکھٹے ہو جاتے ہیں جو مضر صحت ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ اپنے تولیے کو باقاعدگی سے نہیں دھوتے تو ان جراثیم کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے جس کی وجہ سے بلاآخر جب تولیہ دھویا جاتا ہے تو یہ سب جراثیم نہیں مرتے۔‘
اور یہی سے ایک مسئلہ جنم لیتا ہے۔
’جب ہم اپنے جسم کے مختلف حصوں کو تولیے کی مدد سے خشک کرتے ہیں تو اس پر جراثیم اکھٹے ہوتے ہیں جیسا کہ ہمارے پاؤں سے ایسے جراثیم جو ’ایتھلیٹ فٹ‘ نامی بیماری کی وجہ بن سکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر سیلی کا کہنا ہے کہ ’ہماری جلد پر موجود زیادہ تر جراثیم متعدی امراض کی وجہ نہیں بنتے لیکن اگر وہ جسم میں کسی زخم کی مدد سے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ بیماری پیدا کر سکتے ہیں اور ایک سنجیدہ مسئلہ جنم لے سکتا ہے۔‘
اور اگر آپ اکیلے نہیں رہتے تو آپ کو زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔
ڈاکٹر سیلی کا کہنا ہے کہ ’اکثر ہمارے جسم پر ایسے جراثیم ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ہم خود تو بیمار نہیں ہوتے لیکن جب وہ کسی اور شخص پر منتقل ہو جاتے ہیں تو ان کو بیمار کر دیتے ہیں۔‘
’ایسا اس صورت میں بھی ممکن ہے اگر دو افراد ایک ہی تولیہ استعمال کریں یا اگر آپ ایک ہی جگہ یا مشین میں کپڑے دھوتے ہوں۔‘
ڈاکٹر سیلی کے مطابق متعدی امراض کے یوں پھیلنے کے شواہد موجود ہیں۔
ایسے لوگ جو تنہا رہتے ہیں شاید یہ سوچیں کہ وہ اس خطرے سے آزاد ہیں۔ لیکن ڈاکٹر سیلی کا مشورہ ہے کہ ان افراد کو بھی زیادہ سے زیادہ دو ہفتے کے بعد اپنا تولیہ دھو لینا چاہیے۔
ڈاکٹر کرسچینا سوماڈاکس این ایچ ایس میں ماہر امراض جلد ہیں جن کا کہنا ہے کہ لوگوں کو اپنے تولیے دھونے کا ایک شیڈول بنانا چاہیے۔
’اگر آپ کو جلد کا کوئی مسئلہ ہے تو آپ کو اپنا تولیہ زیادہ کثرت سے دھونے کی ضرورت ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ گھروں میں حفظان صحت کی کمی، جس میں تولیے شامل ہیں، جلدی بیماریوں کی ایک وجہ ہے۔
’اس مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے ورنہ صحت کے مسائل جنم لیتے رہیں گے۔‘
اگر آپ کو ورزش کی عادت ہے اور آپ جم جاتے ہیں تو یقینا آپ ایک تولیہ ساتھ رکھتے ہوں گے۔
ڈاکٹڑ سیلی کا کہنا ہے کہ اگر آپ پسینہ خشک کرنے کے لیے تولیہ استعمال کر رہے ہیں تو اسے زیادہ باقاعدگی سے دھونا چاہیے۔
’آپ کا پسینہ نکل رہا ہے تو آپ کے جسم کی سطح سے جلد کے خلیے ٹوٹ رہے ہیں اور تولیے پر بکٹیریا منتقل ہو رہے ہیں۔‘
ان کے مطابق اگر آپ تولیہ باقاعدگی سے نہیں دھوئیں گے تو یہ جراثیم کا گڑھ بن جائے گا اور پھر اسے دھو کر صاف کرنا ناممکن ہو جائے گا۔
ڈاکٹر کرسچینا سوماڈاکس مشورہ دیتی ہیں کہ جم اور گھر کے ساتھ ساتھ جسم اور چہرے کے لیے الگ الگ تولیے رکھنے چاہیں۔
’یاد رکھیں کہ اگر آپ جسم پر تولیہ استعمال کر رہے ہیں تو ایسی جگہوں پر بھی یہ استعمال ہو رہا ہے جہاں سورج کی روشنی عام طور پر نہیں پہنچتی اور یہاں ایسے بکٹیریا موجود ہو سکتے ہیں جن کا تعلق پاخانے سے ہوتا ہے۔‘
’تو آپ کے جسم پر ایسے جراثیم موجود ہوتے ہیں جن کو آپ اپنے چہرے کے قریب نہیں چاہیں گے۔‘
واشنگ مشین استعمال کرنے کے ماحولیاتی اور مالیاتی مسائل اپنی جگہ لیکن ڈاکٹر سیلی تجویز دیتی ہیں کہ کپڑوں کو باقاعدگی سے کم درجہ حرارت پر دھونا کبھی کبھار زیادہ درجہ حرارت میں دھونے سے بہتر ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اپنے جراثیم اپنے آپ تک رکھیں۔‘