ہم سب جانتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ سنہ 1945 میں اُس وقت ختم ہوئی تھی جب امریکہ نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے۔
ہیروشیما اور ناگاساکی کے بم دھماکوں کو تاریخ کے سب سے طاقتور دھماکوں کے طور پر جانا جاتا ہے۔
لیکن اگر امریکہ نے جاپان پر یہ دو بم نہ گرائے ہوتے، تو اس وقت کا سب سے زور دار دھماکہ کون سا تھا؟
دوسری جنگ عظیم کے دوران ممبئی کے وکٹوریہ ڈاک میں اپریل 1944 میں ’ایس ایس فورٹ سٹائیکن‘ نامی بحری جہاز میں ہونے والا دھماکا تاریخ کے سب سے بڑے دھماکوں میں سے ایک جانا جاتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس واقعہ کو اب بہت سے لوگ بھول چکے ہیں۔
اپریل 1944 کو بمبئی بندرگاہ میں فورٹ سٹائیکن نامی جہاز میں دو خوفناک دھماکے ہوئے۔ دھماکوں کے نتیجے میں 700 سے زائد افراد کے ہلاک ہونے کی رپورٹس چلیں مگر اس ضمن میں سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔
اس زوردار دھماکے کے جھٹکے انڈین شہر پونے تک محسوس کیے گئے۔ ممبئی میں کئی عمارتیں منہدم ہو گئیں جبکہ ٹرام اور ٹرین سروس دو دن کے لیے معطل رہی۔
یہی نہیں وکٹوریہ ڈاک کے دھماکے سے ہونے والے نقصان کو ٹھیک کرنے اور بندرگاہ کو اچھی حالت میں بحال کرنے کے لیے مزدوروں کو اگلے چھ ماہ تک سخت محنت کرنی پڑی۔
اس دھماکے میں ممبئی کے 66 فائرمین (آگ بجھانے والے عملے کے اراکین) ہلاک ہوئے تھے، جن کی یاد میں ملک بھر میں 14 اپریل سے 21 اپریل تک ’فائر فائٹرز شہدا‘ کا ہفتہ منایا جاتا ہے۔
آئیے جانتے ہیں اس فور سٹائیکن جہاز کی مکمل کہانی۔
برطانوی کارگو جہاز ایس ایس فورٹ سٹائیکن
یہ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا۔ فروری 1944 میں فورٹ سٹائیکن نامی جہاز انگلستان کے شہر لیورپول کی برکن ہیڈ بندرگاہ سے ہندوستان کے لیے روانہ ہوا۔
برطانوی حکومت کی ملکیت یہ جہاز دوسری جنگ عظیم کے دوران اتحادیوں کے لیے جنگی سازوسامان لے جانے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ جہاز برکن ہیڈ سے کراچی کے راستے ممبئی میں داخل ہونا تھا۔
ممبئی کی تاریخ کے سکالر اور محقق نتن سالونکھے کی لکھی گئی کتاب ’نامعلوم ممبئی‘ میں فورٹ سٹائیکن نامی جہاز کے ساتھ ڈاک میں ہونے والے دھماکے کا تفصیلی ذکر ہے۔
تن سالونکھے لکھتے ہیں ’فورٹ سٹائیکن 424 فٹ طویل اور 7142 ٹن وزنی تھا۔‘
’اس جہاز میں جنگی طیارے، جہازوں کے سپیئر پارٹس، مختلف صلاحیتوں کے بم، بندوق کی گولیاں، ہتھیار، زمین اور پانی میں بچھائی جانے والی بارودی سرنگیں، سلفر اور گولہ بارود بھرا ہوا تھا۔ اس تمام تر جنگی مواد کا وزن تقریباً 1400 ٹن تھا اور یہ انتہائی تباہ کن تھا۔‘
’گولہ بارود کے علاوہ جہاز پر 382 کلو گرام وزنی سونے کی حقیقی سلاخیں بھی لدی ہوئی تھیں جن کی مالیت اس وقت 10 لاکھ پاؤنڈ تھی۔ یہ سونا بینک آف انگلینڈ سے ریزرو بینک آف انڈیا میں جمع کرانے کے لیے بھیجا جا رہا تھا۔ جہاز میں 12 کلو 700 گرام وزنی سونے کی اینٹوں سے بھری لکڑی کے کل 30 بکس رکھے گئے تھے۔‘
حفاظتی وجوہات کی بنا پر ان لکڑی کے ڈبوں کو سٹیل کے ڈبوں میں ڈال کر ویلڈنگ کے ذریعے سیل کر دیا گیا۔ یہ ڈبے اسی جگہ رکھے گئے تھے جہاں گولہ بارود رکھا گیا تھا۔
45 سالہ کیپٹن الیگزینڈر نیسمتھ جہاز پر سامان کے شعبے کے سربراہ تھے۔ وہ پریشان تھے کیونکہ جہاز کا کارگو سامان خطرناک نوعیت کا تھا۔
مزید یہ کہ جنگ بھی جاری تھی اس لیے وہ پورے سفر میں یہی سوچتے رہے کہ اگر دشمن نے جہاز حملہ کر دیا تو کیا ہو گا۔
خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے جہاز میں عملے کے کسی بھی رکن کی طرف سے سگریٹ نوشی اور شراب نوشی پر پابندی تھی۔
کراچی پورٹ پر مزید سامان لاد دیا گیا
یہ جہاز 24 فروری 1944 کو لیورپول سے نکلا اور 30 مارچ کو کراچی پہنچا۔ کراچی بندرگاہ پر لڑاکا طیارے اور جہازوں کے سپیئر پارٹس اور دیگر چھوٹی اشیا اتاری گئیں۔
درحقیقت یہ جہاز انگلینڈ سے اتنی جلدی میں نکلا تھا کہ اسے ضروری مرمت کرنے کا وقت ہی نہیں ملا تھا۔ چنانچہ چیف انجینیئر ایلکس نے کراچی میں جہاز کی مرمت کی کوشش کی، لیکن انھیں اس کی اجازت نہیں ملی۔
جہاز میں موجود گولہ بارود اور سونا جلد از جلد ممبئی پہنچائے جانے کے احکامات تھے اس لیے ضروری مرمت کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
اگرچہ جہاز 30 مارچ کو کراچی پہنچا لیکن اگلے 10 دن تک یہ وہیں لنگرانداز رہا۔ اس کی وجہ جہاز پر کارگو اتارنے کے بعد بننے ہونے والی جگہ تھی۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران جہازوں کی تعداد محدود تھی۔ ہر جہاز سامان سے لدا ہوا تھا۔ اس لیے سامان کو ترسیل کرنے کی سہولت آسان نہیں تھی۔
یہی وجہ ہے کہ کراچی پورٹ حکام فورٹ سائیکن میں کھلی جگہ پر سامان لوڈ کر کے ممبئی بھیجنے کے لالچ سے باز نہ آ سکے۔ انھوں نے کارگو لوڈ کرنے کے لیے کراچی میں جہاز کو 10 دن تک روکے رکھا۔
نیسمتھ کو پہلے یہ خیال نہیں آیا کہ انگلینڈ جاتے وقت اسے کراچی سے سامان لینا پڑے گا۔ بعد میں یاد آنے پر وہ بہت ناراض ہوئے۔ لیکن حکام کے ساتھ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو رہا تھا۔ چونکہ جنگ جاری تھی اس لیے نیسمتھ نے سب کو کہا کہ اوپر سے حکم ہے کہ کوئی مزید سامان نہ لادا جائے۔
آخر کار نیسمتھ کی مخالفت کے باوجود کپاس کی 87 ہزار بوریاں، 300 ٹن سے زیادہ گندھک، 10 ہزار لکڑی، رال، 100 تیل کے پمپ، مختلف دھاتیں، چاول کی بوریاں اور مچھلیاں خالی جگہ پر لاد دی گئیں۔ جہاز پر دھماکہ خیز مواد روئی کے تھیلوں میں ایک ڈبے کے اندر رکھا گیا تھا۔
جہاز جو پہلے سے ہی گولہ بارود سے بھرا ہوا تھا، کپاس، تیل، رال اور لکڑی جیسے انتہائی آتش گیر مواد سے لاد دیا گیا۔ نسیمتھ نے اس پر احتجاج کیا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
ممبئی بندرگاہ پر افراتفری
فورٹ سٹائیکن جہاز 9 اپریل کو کراچی سے روانہ ہوا اور 12 اپریل کی صبح ممبئی کی بندرگاہ میں داخل ہوا۔ تاہم کراچی بندرگاہ کی طرح فورٹ سٹائیکن جہاز کو لے کر ممبئی میں بھی کافی ابہام تھا۔
گولہ بارود اور دھماکہ خیز مواد لانے والے جہازوں اور کشتیوں کو بندرگاہ پر پہنچنے پر سرخ جھنڈا لہرانا پڑتا ہے۔ اس کے بعد پہلی ترجیح اس کشتی یا جہاز سے سامان اتارنے کو دی جاتی ہے۔ لیکن فورٹ سٹائیکن میں سرخ جھنڈا تھا ہی نہیں۔
اس لیے جہاز کو لنگر انداز ہونے میں کافی وقت لگا۔ اور وکٹوریہ ڈاک کے برک نمبر ایک پر ڈوبنے والے جہاز سے سامان اتارنے میں کافی تاخیر ہوئی۔
ابتدائی طور پر حکام نے پہلے جہاز سے کپاس کی بوریاں اور تیل اتارنے کا فیصلہ کیا۔
ساتھ ہی یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ دھماکہ خیز مواد اور گولہ بارود کے حوالے سے حفاظتی اصولوں کے مطابق مرحلہ وار ان اشیا کو سمندر کے کنارے سے اتارا جائے۔ لیکن مطلوبہ چھوٹی کشتیاں دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے یہ کام تعطل کا شکار رہا۔
اس دوران انجن کی مرمت کے کام کے لیے انجن کے پرزہ جات کو کھولنا شروع کر دیا گیا۔ انجن کو کھول دینے کی وجہ سے جہاز کو کہیں اور منتقل کرنا ممکن نہیں تھا۔
اگلا دن طلوع ہونے کے باوجود جہاز کا بیشتر سامان وہیں پڑا تھا۔ اس وقت تک سونے اور سٹیل کے ڈبوں کو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ انھیں بتایا گیا کہ جب بنک اہلکار آئیں گے تو وہ خود جہاز پر موجود ڈبوں کو کھولیں گے اور پھر سامان اتار دیا جائے گا۔
حکام کے مطابق سٹیل کے ڈبوں کو کھولنے کے لیے جہاز میں ہی ویلڈنگ مشین لانی پڑی۔ اس دوران اس بات کا امکان موجود تھا کہ گولہ بارود چنگاریوں کی وجہ سے پھٹ سکتا ہے۔
نیسمتھ کے انکار کے بعد دھماکہ خیز مواد اتارنے کے بعد ہی حکام کے سامنے سونے کے ڈبوں کو کھولنے کا فیصلہ کیا گیا۔
دھماکہ خیز مواد اتارنے کے لیے جن چھوٹی کشتیوں کی ضرورت تھی وہ 13 اپریل کی دوپہر تک نہیں پہنچی تھیں۔ اس لیے بارودی مواد اور گولہ بارود جہاز میں پڑا تھا۔
سامان اتارنے کے لیے استعمال ہونے والی کرین چونکہ کم گنجائش کی تھی اس لیے سامان آہستگی سے اتارا جا رہا تھا۔ بندگارہ کر کام کرنے والے مزدوروں کے ٹولے لکڑی کا بھاری بھر کم بوجھ اتارنے کے لیے آگے آ گئے۔
تیسرا دن، رُکا ہوا کام اور اڑتا ہوا دھواں
تین دن گزرنے کے باوجود جہاز پر سامان اتارنے کا کام مکمل نہیں ہو سکا۔ 14 اپریل کو فورٹ سٹائیکن جہاز کے ساتھ 10-12 دوسرے جہاز بھی کھڑے تھے۔
دوپہر میں 12:30 پر کھانے کے وقفے کے دوران، دو افسران نے سٹائیکن سے دھواں اٹھتے دیکھا، لیکن پھر اچانک یہ دھواں غائب ہو گیا۔
دوپہر 12.45 پر وہاں کھڑی پولیس نے بھی دھواں دیکھا۔ لیکن چونکہ اس علاقے میں آگ لگنے کے واقعات ہمیشہ ہوتے رہتے تھے لہذا انھوں نے بھی اسے بھی نظر انداز کر دیا۔
مزدور جو دوپہر 1:30 بجے کے بعد دوبارہ کام شروع کرنے کے لیے جہاز پر گئے تھے، انھوں نے خام مال کے ایک بڑے بنڈل کو باہر نکالا، اندر سے دھوئیں کا ایک بہت بڑا شعلہ نکلا۔
فوراً فائر الارم بج گیا۔ فائر مین نے اندر جانے کی کوشش کی کہ آگ کہاں سے لگی لیکن دھوئیں نے اسے اندر جانے نہ دیا۔ جہاز کے پمپ نے آگ نہ بجھائی، چنانچہ فائر بریگیڈ کو بلایا گیا۔
دوپہر 2:25 بجے دو فائر انجن موقع پر پہنچ گئے۔
آگ کتنی بڑی تھی، یا جہاز میں دھماکہ خیز مواد تھا یا نہیں، اس کا کوئی اندازہ نہ ہونے کے باعث، انھوں نے صرف دو ٹرک بھیجے۔ لیکن بعد میں جب دوبارہ بلایا گیا تو انھوں نے 10-12 ویگنیں بھیجیں۔
پتا چلا کہ جہاز کے کمپارٹمنٹ نمبر دو میں آگ لگی تھی۔ اس جگہ پر بھاری مقدار میں دھماکہ خیز مواد، روئی کی بوریاں اور سونا بھی رکھا گیا تھا۔ جس کے باعث آگ بجھانے کی سرتوڑ کوششیں شروع کر دی گئیں۔
آگ نہیں بجھ رہی تھی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ کیا کرنا ہے۔ جہاز کو دور لے جانے کے لیے انجن نیچے کر دیا گیا۔ بالآخر ہر کوئی گھبرا گیا کیونکہ جہاز کا دھاتی حصہ گرمی کی وجہ سے پگھلنا شروع ہو گیا تھا۔
اچانک جہاز کے باہر آگ کا ایک بڑا گولہ نمودار ہوا۔ چنانچہ کیپٹن نیسمتھ نے سب کو فوراً جہاز سے نکلنے کا حکم دیا، لوگ جہاز سے دور ہونے لگے۔
دو دھماکے اور افراتفری: 10-12 جہاز پانی میں ڈوب گئے، ٹنوں وزنی جہاز ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گیا
پہلا دھماکہ فورٹ سٹائیکن پر شام 4:06 پر ہوا۔ اس دھماکے میں جہاز کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ ایک ٹکڑا سمندر میں رہ گیا جبکہ دوسرا ٹکڑا اڑ کر آدھا کلومیٹر دور ایک عمارت سے ٹکرا گیا۔
دھماکے سے اردگرد عمارتیں تباہ ہو گئیں اور پانی کے پائپ پھٹ گئے جبکہ فائر والی گاڑیاں اڑ گئیں۔
سمندر میں ایک بڑی لہر اٹھی اور تقریباً 10-12 جہاز پانی میں ڈوب گئے۔ قریب ہی پڑا تین ٹن وزنی جہاز ٹکڑے ٹکڑے ہو کر سمندر میں بکھر گیا۔ کئی لوگ ٹکڑوں کے نیچے دب کر مر گئے۔
دوسرا دھماکہ 4:20 کے فوراً بعد ہوا۔ اس دھماکے کی شدت کئی گنا زیادہ تھی۔
دھماکے سے ڈاک کے پورے علاقے میں لکڑی اور کوئلے کے شیڈز میں آگ لگ گئی۔ ریلوے ٹریفک رک گئی۔ ٹرام کی تاریں ٹوٹنے سے ٹرام کی آمدورفت بھی بند ہو گئی۔ ممبئی میں پانی کی سپلائی میں خلل پڑا۔
دھماکے کے بعد نہ پھٹنے والے بم اور بندوق کی گولیاں کہیں اور بکھر گئیں۔ عمارتوں کے منہدم ہونے اور بموں کے پھٹنے کی بھی اطلاعات ملیں۔
ایک اندازے کے مطابق اس پورے واقعے میں تقریباً دو کروڑ پاؤنڈ مالیت کی املاک کو نقصان پہنچا۔
بتایا جاتا ہے کہ آگ بجھانے کی کوشش میں 66 فائر مین ہلاک ہو گئے۔ مجموعی طور پر جانی نقصان کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ لیکن ایک اندازے کے مطابق اس میں 500 سے 700 لوگ مارے گئے۔
کئی لوگ لاپتہ ہو گئے۔ کچھ لوگوں کی لاشیں شناخت کے قابل نہیں تھیں۔ اگلے کئی دنوں تک ممبئی کے سمندر میں لاشیں مل رہی تھیں۔
اس واقعے کے بعد اخبارات میں طرح طرح کی خبریں شائع ہوئیں۔
سونے کا کیا ہوا؟
دھماکے کے بعد بندرگاہ سے آدھا کلومیٹر دور ایک پارسی شخص کے گھر کی چھت پر دھات کا ایک بڑا ٹکڑا گرا۔ وہ یہ سوچ کر اس ٹکڑے کو دیکھ رہا تھا کہ اگر یہ اس کے سر پر گرتا تو اس کی جان چلی جاتی۔
ہوش میں آنے کے بعد اس شخص کو معلوم ہوا کہ یہ سونے کی اینٹ ہے جس کا وزن 28 پاؤنڈ تھا۔
جہاز میں 382 کلو سونے کا ذخیرہ تھا۔
پارسی شخص کے گھر کی چھت کو توڑنے والی سونے کی اینٹ ملنے کے بعد بہت سے لوگوں نے مبالغہ آرائی سے اسے ’سونے کی بارش‘ قرار دیا۔
لیکن پارسی شخص کے معاملے کو چھوڑ کر ایسی خبر کہیں اور نہیں ملی۔
فورٹ سٹائیکن نامی جہاز پر سونے کو نیچے والے کمپارٹمنٹ نمبر دو میں رکھا گیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ سونا والٹ کے کھلنے سے بچ گیا ہو، لیکن اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ دھماکا خیز مواد کی وجہ سے یہ سمندر کی تہہ میں گہرائی میں دھنس گیا ہو۔
فروری 2009 میں وکٹوریہ ڈاکس میں ڈریجنگ کے دوران، ایک کارکن کو سونے کے بسکٹ ملے۔ اس کے علاوہ سنہ 1980 میں ایک مرتبہ بندرگاہ کی صفائی کے دوران 10 کلو وزنی سونے کی اینٹ ملی تھی۔ بتایا جاتا ہے اسے سرکاری خزانے میں جمع کرانے والے ملازم کو ایک ہزار روپے کا نقد انعام دیا گیا۔
آج بھی وکٹوریہ ڈاکس میں کئی کلو سونا پڑا ہو سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کئی لوگوں کو یہ ملا بھی ہو۔
لیکن اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ فورٹ سٹائیکن کے گولہ بارود کے ڈپو سے نہ پھٹنے والے بم بھی سونے کے اس ذخیرے کو تلاش کرنے والوں کو مل سکتے ہیں۔