گذشتہ ہفتے اردن کے ولی عہد شہزادہ حسین کی شادی ایک اہم بین الاقوامی تقریب تھی جس میں علاقائی اور عالمی رہنماؤں کے علاوہ دنیا بھر کے شاہی خاندانوں کے بہت سے افراد نے شرکت کی۔
دنیا کے مختلف حصوں میں ہر خاص و عام کی نظریں اس تقریب پر جمی ہوئی تھیں جس کا اندازہ سوشل میڈیا پر ہونے والی گفتگو اور شئیر کی جانے والی تصاویر سے لگایا جا سکتا ہے۔
اکثر صارفین کی نظریں تو صرف نوبیاہتا جوڑے پر مرکوز تھیں جبکہ بعض تقریب کی تفصیلات اور کچھ افراد ان ملبوسات سے متعلق بات کر رہے تھے جو شاہی خاندان کے افراد نے زیب تن کیے تھے۔
منظرِ عام پر آنے والی تصاویر میں سے ایک تصویر بالخصوص پاکستانی صارفین کی توجہ کا مرکز بن گئی اور وہ تھی نیدرلینڈز کی ملکہ میکسیما کی۔
تصویر میں ملکہ کو اپنے روایتی باوقار انداز میں ایک خوبصورت گاؤن پہنے دیکھا جا سکتا ہے جس کے ڈیزائن پر اگر غور کیا جائے تو شاید پاکستانی فیشن اور دستکاری سے واقف افراد کو وہ کسی حد تک جانا پہچانا اور دیسی معلوم ہو۔
ہماری نظر سے بھی یہ تصاویر گزریں اور ان کے نیچے دی گئی تفصیلات کے مطابق یہ گاؤن پاکستانی دستکاری کا نمونہ ہی نہیں اور اسے ایک پاکستانی ڈیزائنر ماہ پارہ خان نے ڈیزائن کیا ہے اور ان کے برانڈ کا نام بھی ’ماہ پارہ خان‘ ہی ہے۔
ملکہ میکسیما کا زیب تن گاؤن پاکستانی ڈیزائنر کی تخلیق ہے
بی بی سی نے جب ماہ پارہ سے رابطہ کیا تو انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ملکہ میکسیما کی جانب سے زیب تن کیا گیا گاؤن انھیں کی تخلیق ہے۔
یوں تو جنوبی ایشیا سے بادشاہوں اور ملکاؤں کا دور سے ایک عرصے سے اختتام پذیر ہو چکا ہے لیکن اب بھی پاکستانی ڈیزائنرز اور کاریگر شاہی خاندانوں کے لیے ملبوسات بنا رہے ہیں۔
تاہم اس موقع پر فرق صرف یہ ہے کہ پاکستانی ڈیزائنر نے بین الاقوامی سطح پر کام کیا ہے اور ایک ملک کی ملکہ کو اپنا کلائنٹ بنا لیا ہے۔
ماہ پارہ سے بات کرنے کے بعد پتا چلا کہ جس طرح سے ملکہ میکسیما ماہ پارہ کی کلائنٹ بنیں وہ بات اور بھی زیادہ دلچسپ ہے۔
ملکہ کی ٹیم ماہ پارہ سے 2019 سے رابطے میں تھیں
اس لباس میں ملکہ کی تصاویر چاہے پچھلے ہفتے ہی سامنے آئی ہوں مگر ماہ پارہ کے مطابق تقریباً ایک سال قبل یہ لباس ملکہ تک پہنچا دیا گیا تھا۔
ماہ پارہ نے بتایا کہ دراصل اس سلسلے کا آغاز 2019 سے ہوا جب ملکہ بطور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی خصوصی ایڈوکیٹ برائےا نکلوسو فائنانس برائے ترقی تعینات ہوئیں۔
اس دوران وہ پاکستان کے دورے پر آئیں اور کچھ پاکستانی کاروباری شخصیات سے ملاقات کی جن میں سے ایک ماہ پارہ بھی تھیں اور اپنے برانڈ ’ماہ پارہ خان‘ کی نمائندگی کر رہی تھیں۔
ماہ پارہ کا کہنا ہے کہ ملکہ نے اس ملاقات میں نئے کاروباروں سے منسلک افراد سے مل کر ان کی حوصلہ افزائی کی۔
ماہ پارہ نے بتایا کہ ’جب ملکہ ان کے ڈیزائن سٹوڈیو آئیں تو انھوں نے وہاں ہمارے سٹوڈیو میں ملبوسات کے چند نمونے دیکھے اور یوں انھیں ہر ایک ڈیزائن میں کیے جانے والے کام کی پیچیدگی اور باریکی کا اندازہ ہوا۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’ان (ملکہ) کو وہیں پر (یہ لباس) بہت اچھا لگا۔ انھوں نے اس کی بہت تعریف کی کہ یہ بہت خوبصورت ہے۔ انھوں نے اسے قریب جا کر دیکھا اور اس کی باریکیوں پر غور کیا کہ اس پر کس قسم کا کام ہوا ہے۔
’میں نے بھی انھیں تفصیلات بتائیں۔۔۔ جب وہ وہاں سے روانہ ہوئیں تو انھوں نے کچھ نہیں کہا کہ میں اسے ابھی یا بعد میں آرڈر کرنا چاہتی ہوں یا نہیں۔‘
’ماہ پارہ حیران تھیں کہ ملکہ کو روایتی پاکستانی عروسی لباس پسند آ گیا‘
ماہ پارہ نے بتایا کہ بعد میں ملکہ کی ٹیم نے فون پر رابطہ کیا اور بتایا کہ ’ملکہ نے جس لہنگا چولی کی تعریف کی تھی اسے وہ پہن کر دیکھنا چاہتی تھیں اور اس بات کی خواہش ظاہر کی کہ اس لباس کو پاکستان کے اس ہوٹل میں بھیج دیا جائے جس میں وہ رہ رہی تھیں۔‘
ماہ پارہ کہتی ہیں کہ ’جب یہ خبر ملی کہ ملکہ وہ لہنگا چولی خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہیں تو میں خود بھی قدرے حیران ہوئیں۔‘
انھوں نے کہا کہ سٹوڈیو میں ہی ملکہ کی دلچسپی بھانپ لی تھی مگر ان کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ اسے اپنے لیے پسند کر لیں گی۔
وجہ پوچھنے پر ماہ پارہ نے بتایا ’وہ ایک روایتی عروسی لباس تھا۔۔۔ میں یہ امید نہیں کر رہی تھی کہ انھیں لہنگا چولی جیسا روایتی لباس اتنا پسند آئے گا۔ تو بس یہ تھوڑا سا حیرت انگیز تھا۔‘
ملکہ کی ٹیم کے کہنے پر لباس کو فوراً ہوٹل بھیج دیا گیا جسے آزمانے کے بعد انھوں نے خریدنے کا فیصلہ بھی کر لیا۔ مگر ان کو کچھ تبدیلیاں درکار تھیں۔
ہمارے پوچھنے پر ماہ پارہ نے بتایا کہ ’ملکہ کو ڈیزائن جوں کا توں پسند تھا اور اس میں انھوں نے کوئی ردو بدل نہیں کیا۔
’وہ صرف لہنگا چولی کو جوڑ کر ایک ’بال گاؤن‘ میں تبدیل کروانا چاہتی تھیں، اس کی آدھی آستینوں کو پوری آستینوں میں تبدیل کرنا چاہتی تھیں۔ اس کے علاوہ لباس کے سائز کو بھی ملکہ کے کپڑوں کے ناپ کے مطابق بنانے کی ضرورت تھی۔
ماہ پارہ نے ہمیں بتایا کہ ملکہ کی سٹائلنگ ٹیم نے انھیں نیدرلینڈز سے ان کے کپڑوں کے تفصیلی سائز کی معلومات بھیجیں۔ تفصیلات اتنی درست تھیں کہ ماہ پارہ نے جو پہلا نمونہ بنایا کر نیدرلینڈز بھیجا وہ ملکہ کو بالکل پورا آیا۔
ماہ پارہ نے بتایا کہ ملکہ کے علاوہ ان کے اور کوئی ایسے کلائنس نہیں ہیں۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ کسی اور گاہک کی طرف سے ان کو اتنے درست ناپ نہیں ملے اور پاکستان میں انھوں نے عام طور پر یہی دیکھا ہے، کیونکہ یہاں لوگ ان سے ’فری سائز‘ میں ملبوسات خریدتے ہیں۔
اس لباس سے متعلق تفصیلات پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ ’ڈیزائن مکمل طور پر ہاتھ سے تیار کیا گیا تھا جس پر 20 افراد کی ایک ٹیم نے مختلف شفٹوں میں کام کرتے ہوئے تقریباً 100 سے زیادہ روز تک کام کیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ان کے لیے اصل چیلنج یہ تھا کہ درحقیقت ایک روایتی ڈیزائن بظاہر ایک مخصوص علاقے تک محدود رہنے کی بجائے ’گلوبل‘ لگے۔
’ڈیزائن میں مغلیہ نقش و نگار میں روایتی ڈپکا، نقشی، ریشم اور گوٹا کے کام کو ایک ساتھ ملایا گیا ہے۔ کپڑا را سلک ہے۔‘
’ملکہ کے لیے کام کرنے کا تجربہ پروفیشنل، خوش گوار اور آسان تھا‘
ظاہر ہے کہ کسی بھی ڈیزائنر کے لیے جب کلائنٹ اتنی بڑی شخصیت ہوں تو یہ خیال ضرور ذہن سے گزرتا ہو گا کہ ان کے لیے کام کرنا اور ان کی توقعات پر پورا اترنا خاصا مشکل ہو گا۔
تاہم ماہ پارہ نے بتایا کہ یہ سارا عمل اور تجربہ ان کے لیے ’بہت ہی آسان‘ تھا۔
انھوں نے اسے ایک ’پروفیشنل، خوش گوار اور اچھا تجربہ‘ قرار دیا اور ان پر کوئی دباؤ نہیں تھا بلکہ وہ خاصی پرجوش تھیں۔
انھیں اپنی پسند کے مطابق ڈیزائن بنانے کی مکمل آزادی دی گئی اور فراہم کردہ پیمائش نے ان کے لیے لباس کو بنانے میں مزید آسانی کر دی۔
’نہیں جانتی تھی کہ ملکہ وہ لباس کب استعمال کریں گی‘
عام طور پر ڈیزائنرز بڑے کلائنٹس حاصل کرنے کے بارے میں خبریں شیئر کرنا پسند کرتے ہیں کیونکہ اس سے ان کی ساکھ بنتی ہے اور ان کو مزید کاروبار حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
ماہ پارہ نے ہمیں بتایا کہ وہ وقت سے پہلے خبر نہیں پھیلانا چاہتی تھیں۔ انھوں نے انتظار کرنا بہتر سمجھا۔ درحقیقت وہ خود یہ بھی نہیں جانتی تھیں کہ ملکہ وہ لباس کب استعمال کرنے والی ہیں۔
شہزادہ حسین کی شادی کی تصویر جب سوشل میڈیا پر آئی تو انھیں بھی باقی لوگوں کی طری تب پتا چلا کہ آخرکار ملکہ نے وہ لباس پہن لیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’میں صبح جب جاگی تو سوشل میڈیا پر یہ بات آئی ہوئی تھی۔ کیونکہ ہم نے اس لباس کو تین سال قبل انھیں ڈیلیور کر دیا تھا۔ میرے خیال سے وہ ایک مناسب تقریب کا انتظار کر رہی تھیں۔‘
ملکہ کے لیے دو اور ملبوسات بھی تیار لیے گئے
انھوں نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ انھوں نے اصل میں ملکہ کے لیے تین چیزیں ڈیزائن کی تھیں۔
’ایک شال تھی جو انھیں تحفے میں دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ وہ گاؤن تھا جو انھوں نے حال ہی میں پہنا تھا اور پھر ایک ریشمی لباس تھا جو کہ دوسرا لباس تھا جو ملکہ کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’جو دوسرا جوڑا ملکہ کو پسند آیا تھا وہ ہمارا لان کا جوڑا تھا، کیونکہ یہ ان ممالک میں پہنا نہیں جا سکتا اس لیے ہم نے اس ڈیزائن کو ریشمی کپڑے میں تبدیل کر دیا لیکن پیٹرن وہی رکھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ملکہ کی کلائنٹ بننے کی خبر ابھی بہت نئی ہیں اور انھیں ابھی معلوم نہیں کہ اس بات کا ان کے کاروبار پر کیا اثر پڑے گا لیکن وہ اس بات پر فخر محسوس کرتی ہیں کہ انھیں یہ موقع ملا اور ان کے کام کو سراہا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ ’میں نے ملکہ سے خود نہیں کہا تھا کہ آپ میرا جوڑا لیں، نہ ہی میں نے اس کے لیے کوئی مشہوری یا اشتہار لگایا تھا۔ ملکہ میرے سٹوڈیو میں آئیں، انھیں جوڑا پسند آیا اور وہ اسے خریدنا چاہتی تھیں۔ محنت خود بولتی ہے۔‘
وہ یہ بھی سوچتی ہے کہ ان کی کہانی دوسرے لوگوں کے لیے بھی اچھی مثال قائم کرے گی اور ان کو یہ پیغام دی گی کہ وہ بھی اپنے کام پر یقین کریں اور محنت کریں کیونکہ اسی میں کامیابی ہے۔
اپنے کام اور اس برانڈ کہ بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میں نے سنہ 2015 میں پاکستان کے کچھ بڑے فیشن برانڈز میں اہم عہدوں پر کام کرنے کے بعد اپنا برانڈ قائم کیا۔
’میں 26 سال کی تھی جب میں نے اپنا برانڈ شروع کیا اور 21 سال کی عمر سے پیشہ ورانہ طور پر کام کر رہی تھی۔ میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ تجربہ کرنے اور ایک فنکار اور ایک کاروباری شخص کے طور پر خود کو دریافت کرنے کے لیے اپنا برانڈ شروع کرنا چاہتی تھی۔‘