افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد چین گذشتہ ہفتے وہ پہلا ملک بن چکا ہے جس نے کابل میں اپنا سفیر تعینات کیا ہے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت کو کسی ملک نے ابھی تک باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا جبکہ چین کا کہنا ہے کہ کابل میں سفیر کی تعیناتی روٹین کی بات ہے اور یہ کہ چین افغانستان کے ساتھ ڈائیلاگ اور تعاون کے عمل کو آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
یاد رہے کہ امریکی فوج کی افغانستان میں موجودگی کے 20 سال کے دوران چین نے طالبان کو کبھی فوجی مدد فراہم نہیں کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاملے میں چین مغرب کے ساتھ فوجی کشیدگی میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔
تاہم سیاسی میدان میں جہاں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کو آگے بڑھایا، وہیں اس کے بعد چین نے بھی اس طریقہ کار پر عمل کیا۔
طالبان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے سنہ 2017 کے اوائل میں چین کا دورہ کیا تھا، اس سے قبل چینی نمائندے کئی بار طالبان سے ملاقات کر چکے تھے۔
طالبان کے سیاسی نمائندوں کا چین کا ایک اور اہم دورہ جولائی 2021 میں تھا جب امریکہ افغانستان سے اپنی فوجوں کے مکمل انخلا کے قریب تھا اور اس نے ملک میں موجود آخری فوجی بگرام اڈہ چھوڑ دیا تھا۔
تب چین کا سرکاری مؤقف یہ تھا کہ وہ علاقائی استحکام کے لیے افغان تنازع میں ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔
درحقیقت اس ملاقات کے چند ہفتے بعد ہی طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور چین ان ممالک میں شامل تھا جس نے طالبان کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے تھے۔
طالبان رہنما چین کی جانب سے بھیجی گئی امداد کو ایئرپورٹ سے لینے خصوصی طور پر جایا کرتے تھے۔
ایک ایسے موقع پر جب کئی مغربی ممالک نے کابل میں اپنے سفارت خانے بند کر دیے تھے، چین نے اپنا سفارت خانہ کُھلا رکھا۔ چینی سفارت خانے کا کابل میں موجود ہونا طالبان کے حوالے سے ملک کی پالیسی میں تبدیلی کی علامت تھا۔
یاد رہے کہ 1996 میں جب طالبان نے پہلی بار کابل پر قبضہ کیا تھا تو چین نے افغانستان میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا تھا اور سنہ 2002 میں افغانستان میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہی سفارتی تعلقات بحال کیے تھے۔ افغانستان کی سابقہ حکومت کے چین کے ساتھ تعلقات کافی گہرے ہوا کرتے تھے۔
سنہ 2014 میں بیجنگ میں افغانستان کے سفیر جانان موسیٰ زئی نے کہا کہ ’چین افغان فوجیوں کو تربیت دینے کے لیے تیار ہے۔‘
تاہم چین اور طالبان کے درمیان تعلقات کی تاریخ افغانستان میں اس گروپ کی حکمرانی کے پہلے دور تک جاتی ہے۔
چین اور طالبان کے درمیان سفارتی تعلقات کب شروع ہوئے؟
سنہ 1999 میں پہلا چینی سفارتی وفد طالبان رہنماؤں سے ملاقات کے لیے پاکستان بھیجا گیا اور نومبر 2000 میں پاکستان میں چین کے سفیر نے ایک وفد کی قیادت کرتے ہوئے قندھار جا کر طالبان کے رہنما اور بانی ملا محمد عمر سے ملاقات کی تھی۔
اسلام آباد میں طالبان کے اس وقت کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف اس ملاقات کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’وہ (چینی سفیر) ملا محمد عمر سے ملنے والے پہلے غیر مسلم غیر ملکی سفارتکار تھے۔‘
اس وقت چین کو طالبان کی جانب سے ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (چین مخالف مسلح گروپ) کی حمایت اور افغانستان میں اس کے ارکان کی موجودگی پر تشویش تھی۔
اس وقت طالبان کی وزارت خارجہ کے ایک تجزیہ کار اور اہلکار واحد مجدد نے اپنی کتاب ’افغانستان اور طالبان کے پانچ سال‘ میں لکھا: ’چین سے ایک وفد کابل آیا اور قندھار روانہ ہوا۔ یہ اس وقت ہوا جب مہاتما بدھ کے مجسموں کو تباہ کرنے پر عالمی برادری کی طرف سے طالبان پر شدید تنقید کی جا رہی تھی۔‘
’چینی وفد کے سربراہ نے ملا محمد عمر سے ملاقات کے دوران اپنے پاس موجود ایک ڈبہ کھولا اور چینی مٹی کے برتن سے بنا اونٹ کا مجسمہ نکالا اور پھر ملا عمر کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ ’میں یہ مجسمہ آپ کو تحفے کے طور پر اس امید پر پیش کرتا ہوں کہ ہمارے ممالک کے درمیان تعلقات ایک بار پھر سابقہ روٹین پر لوٹ آئیں گے۔‘
مجدد کے مطابق: ’ملا عمر مشکل صورتحال میں تھے اور نہیں جانتے تھے کہ کیا کریں۔ وہاں موجود مترجم، جو خود ایک طالبعلم تھا، نے پشتو میں ملا عمر سے کہا کہ اگر وہ یہ تحفہ قبول نہیں کریں گے تو مہمان بہت ناراض ہو جائیں گے۔‘
’ملا عمر نے مجسمہ نکالا اور پھر جلدی سے میز پر رکھ دیا جیسے کسی نے انھیں کوئی گرم چیز پکڑا دی ہو۔ میٹنگ ختم ہونے اور چینی وفد کے جانے کے بعد انھوں نے خود ہی مجسمے کو اٹھا کر زمین پر اس زور سے مارا کہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔‘
رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ طالبان نے 1998 میں اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے حکم سے صوبہ خوست میں القاعدہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا اور امریکی میزائلوں کے ٹکڑے چین کو دیے تھے، جس کے بارے میں طالبان نے تاحال کچھ نہیں بتایا۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین اور طالبان کے درمیان تعلقات کا آغاز زیادہ تر مشرقی ترکستان میں چین مخالف مسلح گروپ کے خوف سے ہوا تھا۔
چین ماضی میں افغان مجاہدین کو تربیت دے کر اور افغانستان میں سوویت یونین کی جارحیت کے خلاف کلاشنکوف اور چینی دفاعی میزائل فراہم کر کے اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس نے کسی افغان جہادی گروپ کی حمایت جاری نہیں رکھی، اس کے برعکس ایران، پاکستان اور بعض عرب ممالک نے اس عمل کو جاری رکھا۔
طالبان جہادی گروپوں کے ساتھ محتاط تعلقات پر بہت سے لوگوں کی رائے ہے کہ یہ مشرقی ترکستان اسلامی تحریک کی سرگرمیاں کے باعث تھا جو چین کے سنکیانگ صوبے میں اویغور مسلمانوں کے حقوق اور آزادی کے لیے کام کرتی تھی۔
افغانستان میں اس گروپ کے جنگجو القاعدہ کے زیادہ قریب تھے۔ 2010 میں پاکستانی میڈیا نے مشرقی ترکستان اسلامی تحریک کے رہنما عبدالحق کی ہلاکت کی خبر دی تھی۔
ابتدا میں طالبان نے افغانستان میں اس گروپ کے ارکان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی لیکن جب 2014 اور 2015 میں مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ سمیت غیر ملکی ملیشیا نے داعش کے ساتھ وفاداری کا عہد کیا تو طالبان نے ان کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے۔
امریکی حکام نے بارہا کہا ہے کہ ’داعش کے خلاف طالبان کے حملے کامیاب رہے ہیں۔‘
طالبان کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ اس نے اقتدار میں آنے کے بعد سے 25 خودکش بمباروں کو گرفتار کیا ہے، جن میں سے زیادہ تر غیر ملکی ہیں.
تاہم طالبان حکام نے یہ نہیں بتایا کہ آیا ان افراد میں مشرقی ترکستان گروپ کے ارکان بھی شامل ہیں یا نہیں۔
طالبان کے اہلکار وسط ایشیائی اور مسلم اویغور جنگجوؤں کے خلاف کھل کر کچھ نہیں کہتے لیکن وہ داعش کی شکست میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنے پروپیگنڈے میں اس عسکریت پسند گروپ کو ’خوارج‘ کہتے ہیں۔
طالبان کی احتیاط کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ ان غیر ملکی مسلح گروہوں نے 2001 کے بعد افغانستان میں امریکہ اور اس کے حامیوں کے خلاف جنگ میں اور مسلح مزاحمت کو تقویت دینے میں کردار ادا کیا تھا جنھیں وہ ‘مہمان مجاہدین‘ کہتے تھے۔
اس معاملے پر غور کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ چین طالبان تعلقات کا سب سے اہم پہلو مسلح گروپ ’ایسٹ ترکستان موومنٹ‘ ہے۔
لیکن مغربی میڈیا کا کہنا ہے کہ چین مغرب کی جگہ لے کر افغانستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے، اور ملک کے معدنی وسائل سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، جن پر اس وقت افغانستان کے کچھ علاقوں میں کام ہو رہا ہے۔