دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکی حکومت نے ’مینہیٹن پراجیکٹ‘ کی ابتدا کرتے ہوئے ملک بھر سے سائنسدانوں اور انجینیئروں کو بھرتی کرنے کے کام کا آغاز کیا۔ ان سائنسدانوں اور انجینیئروں کو نیو میکسیکو میں لاس ایلموس کے خفیہ ریسرچ سینٹر میں رہنا اور کام کرنا تھا۔ صحرا میں قائم اس ریسرچ سینٹر میں رہتے ہوئے رابرٹ اوپنہائمر کی سربراہی میں انھوں نے دنیا کا پہلا ایٹمی دھماکہ کیا۔
وہ بم کی تیاری کے ماہر تھے اور انھوں نے اس میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ جولائی 1945 میں ان کی تیار کردہ ’ٹرینیٹی‘ ڈیوائس کی پہلی آزمائش ہوئی۔ اس کے ایک ماہ بعد جاپان پر ’فیٹ مین‘ اور ’لٹل بوائے‘ نامی ایٹم بم گرائے گئے۔ یہ جنگ میں استعمال ہونے والے دو واحد ایٹمی ہتھیار تھے۔
مگر لوئس سلوتن کو احساس ہوا کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے منصوبے میں مزید کام نہیں کر سکتے اور یہ کہ وہ دوبارہ سویلین زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ اوپنہائمر کو یہ احساس اس منصوبے پر کام کرنے کے کئی ماہ بعد جا کر ہوا تھا۔
سلوتن اپنے متبادل سائنسدان ایلون گریوز کو ریسرچ سینٹر کا دورہ کروا رہے تھے۔ دوپہر تین بجے سے کچھ قبل لیبارٹری کی عمارتوں کے بیچ و بیچ گریوز نے بم کی تیاری کے مرکز ’کریٹیکل اسمبلی‘ کی جانب رُخ کیا۔ سلوتن یہاں کے ماہر تھے۔ یہ جوہری ہتھیاروں کی آزمائش کا طریقہ ہے جس میں پلوٹونیئم کور کی محفوظ انداز میں جانچ کی جاتی ہے۔
گریوز نے انھیں کہا کہ انھوں نے آج تک ایٹم بم کی اسمبلی میں ہونے والے کام کا مشاہدہ نہیں کیا۔ سلوتن نے انھیں اس کا تجربہ دکھانے کی پیشکش کر دی۔
کمرے میں دوسری جانب سلوتن کے ساتھی ریمر شرائبر نے اتفاق کیا۔ تاہم انھوں نے محتاط انداز میں اور آرام سے کام کرنے کی تلقین کی۔
شرائبر نے بعد میں کہا کہ یہ تبصرہ سنجیدہ نہیں تھا کیونکہ ’ہمیں سلوتن کی صلاحیت پر اعتماد تھا۔‘
سلوتن کا ارادہ تھا کہ پلوٹونیئم کور کو کسی کار کے انجن کی طرح سٹارٹ کیا جائے اور دھیمے مگر مستحکم انداز میں ری ایکٹ کروایا جائے۔
غلطی کہاں ہوئی، اس حوالے سے متضاد دعوے موجود ہیں۔ قریب موجود ایک شخص کے مطابق سلوتن نے اس بار ایک ’جگاڑ‘ نکالا تھا۔ دوسروں کا کہنا ہے کہ یہ بالکل معمول کے مطابق تھا۔
شرائبر نے اپنی آفیشل رپورٹ میں کہا کہ سلوتن نے ’بہت جلدی میں کام کیا اور احتیاط نہ برتی۔‘ کمرے میں دوسرے لوگوں نے ’اپنی خاموشی سے کارروائی میں حامی بھری۔‘
شرائبر نے لکھا کہ ’کسی شور یا اچانک حرکت کی وجہ سے میں مڑ گیا تھا۔ میں نے نیلے رنگ کی روشنی دیکھی۔۔۔ اور اسی دوران مجھے گرمی کی لہر محسوس ہوئی۔‘
بظاہر پیچکس پھسل گیا اور رفلیکٹر کے گرنے سے پلوٹونیئم کور بے قابو ہو گیا۔ شرائبر نے لکھا ہے کہ ایسا ’ایک سیکنڈ کے دسیوں حصے میں ہوا۔‘ سلوتن نے اوپر موجود رفلیکٹر کو الٹا کر زمین پر رکھ دیا مگر اس ردعمل میں بہت دیر ہو چکی تھی۔ حادثے کے چند لمحات بعد کمرے میں خاموشی چھا گئی۔
حادثے کے بعد افراتفری کا منظر تھا۔ سائنسدان باہر کے احاطے میں جمع ہوئے۔ سلوتن نے ڈرائنگ بنائی کہ حادثے کے دوران کون کہاں کھڑا تھا۔ شرائبر، جو سب سے دور کھڑے تھے، واپس گئے اور تابکاری کے اعداد و شمار حاصل کرنے لگے۔ وہاں انھوں نے اپنی جیکٹ بھی پکڑ لی۔
حادثے پر ایک اندرونی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تابکاری سے متاثر ہونے کے بعد انسان ’دانش مندانہ رویے کے قابل نہیں رہتے۔‘ اس کے مطابق انھیں چکر آ سکتے ہیں اور وہ اپنا توازن کھو سکتے ہیں۔ اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ آیا ایسا بے انتہا توانائی کے حامل پارٹیکلز کی وجہ سے ہوتا ہے یا جسم ایسا ردعمل موت کے قریب دیتا ہے۔‘
نو روز بعد سلوتن کی موت اعضا کی خرابی کی وجہ سے ہوئی۔ ان کے ایک ساتھی نے کہا کہ ’آسان لفظوں میں یہ خالصتاً تابکاری سے موت کا کیس تھا۔‘
ایٹم بم کی تیاری کے برعکس ڈنمارک کے فزیسسٹ نیلز بوہر سائنس کے نئے شعبے کوانٹم مکینکس پر کام کر رہے تھے۔ یہ وہ شعبہ ہے جو سائنس میں معروضیت کے اصولوں کو عیاں کرتا ہے۔
قدیم فزکس کے اصولوں کو چیلنج کرنے والے بوہر نے کہا کہ کوانٹم (یعنی تابکاری میں توانائی کی مقدار جو اس کی شدت سے مطابقت رکھتی ہے) کی پیمائش صرف اس وقت ممکن ہے جب یہ متعلقہ ذرات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس ملاپ سے نہ صرف ذرات بلکہ انھیں ناپنے والے اوزاروں کی خصوصیات بدل جاتی ہیں۔
یعنی کوانٹم کا معاملہ اسے ناپنے والے اوزاروں اور ان پر کام کرنے والے لوگوں سے منسلک ہے۔
جب بوہر نے تجربے میں ’اجسام‘ کا ذکر کیا تو اس سے مراد تجربہ گاہ تھا، نہ کہ انسان۔ تاہم اس روز جب سلوتن خود اسمبلی کا حصہ بن گئے تو ان کا جسم ایک تجربہ گاہ تھا جو کوانٹم کے اثرات سے نہ بچ سکا۔
سنہ 2018 میں اس حادثے پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ پلوٹونیئم کور اس قدر جان لیوا ثابت نہ ہوتا اگر ان کا ہاتھ نیوٹران رفلیکٹر نہ بنتا۔
پریشانی کی بات یہ ہے کہ سلوتن کی موت ایسی پہلی موت نہیں تھی۔ انھیں اس سال اسی طرح کے ایک حادثے میں اپنے ساتھی کی موت کا علم تھا۔
درحقیقت ان کے بوس انریکو فرمی نے سلوتن کو کچھ ماہ قبل متنبہ کیا تھا کہ وہ تجربہ گاہ میں اپنے رویے کو محتاط بنائیں۔ انھیں کہا گیا تھا کہ ’اگر آپ نے اسے دہرایا تو آپ ایک سال کے اندر مر سکتے ہیں۔‘
مگر فرمی اس ادارے میں واحد شخص تھے جو اس نوعیت کے کام سے جڑے خطرات کو سنجیدگی سے لے رہے تھے۔ لیفٹیننٹ ایڈوارڈ ویلڈر دوسری عالمی جنگ کے دوران لاس ایلموس کی اسمبلی ٹیم کا حصہ تھے۔ انھوں نے لیبارٹری میں آتشزدگی، کرنٹ لگنے اور دھماکوں کے واقعات دیکھے تھے۔
انھوں نے ایک بار ایک شخص کو دھماکہ خیز مواد کے ذرات نگھلتے دیکھا جو اڑ کر ان کے منھ میں آ گئے تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’اس وقت احتیاط کا کوئی تصور نہ تھا۔‘
لاس ایلموس میں دو حقیقتیں ایک ساتھ رونما ہو رہی تھیں۔ پہلی یہ کہ کام کی نوعیت کافی سنجیدہ تھی۔ سنہ 1986 میں فزیسسٹ فلپ موریسن نے اسے یوں بیان کیا ہے: ’ہمارے ذہنوں میں کوئی شک نہیں تھا کہ جرمن حکومت۔۔۔ دنیا کا سب سے طاقتور ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔۔۔ اس کا ردعمل پریشانی اور خوف تھا۔‘
دوسری یہ کہ تجربانی حالات کو بیان کرنے کے لیے انسانی جسم کا استعمال عام تھا۔ اس کام کے اثرات یوں تھے جیسے حقیقت سے آنکھیں پھیری جا چکی تھیں۔ اسے فزیسسٹ اور فیمنسٹ تھیورسٹ کیرن براڈ نے ’پلے‘ یا ’اینٹی ریئلزم‘ کا نام دیا ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں نتائج کی تلاش آج بھی دیکھی جا سکتی ہے، جیسے مصنوعی ذہانت کی تیزی سے پنپتے شعبے میں۔ معمولی منصوبے بھی تباہ کن اثرات کی صلاحیت رکھ سکتے ہیں۔
سنہ 2022 میں ادویات کی کمپنی کے محققین نے تجربہ کیا کہ آیا ان کا سافٹ ویئر بائیو کیمیکل ہتھیار بنا سکتا ہے۔ صرف چھ گھنٹوں میں مصنوعی ذہانت نے 40 ہزار سے زیادہ ایسے مرکبات کی نشاندہی کی جو ’جنگ میں استعمال ہونے والے کیمیائی مواد سے بھی زیادہ زہریلے ہیں۔‘
محققین نے لکھا کہ ’اس خیال نے ہمیں پہلے کبھی حیران نہیں کیا تھا۔ ہم اس کام کے ممکنہ غلط استعمال کا علم نہیں رکھتے تھے۔۔۔ جان لیوا کیمیائی ہتھیار کی غیر انسانی خودکار ایجاد بالکل ممکن ہے۔‘
نیلز بوہر کے مطابق تجربہ ان حالات کو کہتے ہیں جن میں ’ہم دوسروں کو بتا سکیں کہ ہم نے کیا کِیا ہے اور کیا سیکھا ہے۔‘
اس پس منظر میں سلوتن کا حادثہ وہ موقع تھا جسے گنوا دیا گیا۔ یہ ٹیکنالوجی کی دنیا کا وہ پریشان کن لمحہ تھا جس کا ریکارڈ رکھا گیا نہ اس کا بہترین انداز میں جائزہ لیا گیا۔
ہزاروں لوگ ان کی آخری رسومات میں شریک ہوئے۔ ان کے آبائی علاقے نے ایک پارک کو ان کا نام دیا۔ لیکن عوامی سطح پر اس بات پر بہت کم بحث ہوئی کہ ان کی موت کا مطلب کیا ہے۔ ایک محقق کے مطابق امریکی حکومت نے سلوتن کی موت پر ’رازداری برتی جو آج بھی قائم ہے۔‘
شرائبر اس حادثے سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے۔ انھوں نے اس تجربہ گاہ کو دوبارہ ڈیزائن کیا جس میں سلوتن کی موت ہوئی تھی اور انھوں نے حفاظتی اقدامات پر زور دیا۔
سلوتن کے ساتھ کھڑے گریوز بھی تابکاری سے متاثر ہوئے اور ایک سنگین بیماری میں مبتلا ہو گئے۔ سرکاری رپورٹ میں اس کے اثرات کو کم ظاہر کیا گیا۔ ان کی بائیں آنکھ کی بینائی چلی گئی اور ان کے سپرم کی مقدار ٹھیک ہونے میں کئی ماہ لگ گئے۔
ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ’مرض تابکاری سے متاثر ہونے کے 38 ماہ بعد ٹھیک ہوا۔ وہ بڑی ذمہ داری کی پوزیشن میں سخت محنت کر رہے تھے۔‘
خون اور اعضا کی بیماریوں کی ڈاکٹر فلوئے ایگنس لی نے حادثے کے بعد گریوز کا علاج کیا۔ انھوں نے 2017 کے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’ان کے وائٹ بلڈ سیلز اتنے کم تھے کہ انھیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اب تک زندہ کیسے ہیں۔‘
’مجھے یاد نہیں پڑتا کہ حادثے کے کتنے عرصے بعد ان کے بال واپس اُگنا شروع ہوئے۔‘
گریوز اس کے بعد لاس ایلموس میں چیف سائنٹیفک افسر بن گئے تھے۔ سرد جنگ کے دور میں انھوں نے تاریخ کے سب سے تباہ کن ہتھیاروں کی آزمائش کی سربراہی کی۔
انھوں نے پورے پیسیفک جزیروں پر تابکاری کے سمندری حیات پر اثرات کا مطالعہ کیا۔
سابق امریکی وزیر داخلہ سٹیورٹ اوڈال کے مطابق 1946 کے حادثے نے گریوز کو تنقید سے بچا لیا۔ ’کوئی ان کی حفاظتی پالیسیوں کو چیلنج نہیں کر سکتا تھا کیونکہ انھیں اپنے ’ذاتی تجربے‘ سے تابکاری کی شدت کا علم تھا۔‘
سلوتن کو ہلاک کرنے والے پلوٹونیئم کو ’ڈیمن کور‘ یعنی شیطانی کور کی عرفیت دی گئی۔ مارچ 1965 میں اپنی موت سے چار ماہ قبل گریوز نے ایک تقریر دی تھی جس میں انھوں نے ایک الگ مگر رنگین محاورے کا استعمال کیا تھا۔ انھوں نے جوہری ہتھیاروں کے وجود کا موازنہ ’انسانوں کو کھانے والی شارک‘ سے کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’شارک کی تمام جبلتیں اسے کہتی ہیں کہ اسے پانی میں گوشت کا بے یار و مددگار ٹکڑا حاصل کرنا ہو گا۔ یہاں غیر اخلاقی کام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘
’اخلاقیات کا سوال اس وقت آتا ہے جب تصویر میں انسان داخل ہوتا ہے اور اس سے پہلے ایسا نہیں ہوتا۔ لہذا میرا خیال ہے کہ ایٹم بم غیر اخلاقی کام کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں مگر بذات خود غیر اخلاقی نہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ایٹم بموں نے جوہری جنگ کو ’ناقابل فہم‘ بنا دیا جس سے دشمنوں کو آپس میں بات چیت کا وقت ملا۔ ’جنگ کے ہتھیاروں میں جدت ہمیشہ امن کے ہتھیاروں میں جدت لاتی ہے۔‘
گریوز نے سلوتن کی موت پر کبھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق وہ اس پر بات کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس‘ کرتے تھے۔