تنخواہوں اور پینشن میں اضافے کے علاوہ آپ کے لیے اس بجٹ میں کیا خاص ہے؟

پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے مالی سال 2023-24 کا بجٹ آج قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے جسے حکومت کی جانب سے مشکل معاشی حالات میں ایک ’ذمہ دارانہ‘ بجٹ قرار دیا جا رہا ہے۔

وفاقی وزیرِ خزانہ نے اپنی تقریر میں اس بجٹ کے اہم نکات قومی اسمبلی میں بتائے تو اس بات پر زور دیا کہ انکم ٹیکس میں کوئی نیا اضافہ نہیں کیا گیا اور صنعتی شعبے کے لیے بھی کوئی نئے ٹیکس نہیں لگائے جا رہے ہیں۔

اس بجٹ میں تنخواہوں اور پینشن میں اضافے کا اعلان کیا گیا، کچھ مخصوص ٹیکس بھی لگائے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مختلف شعبوں میں خصوصی ریلیف بھی دیا گیا ہے۔

آئندہ مالی سال کے بجٹ کے لیے ان تنخواہوں اور پینشنز، ٹیکسز اور خصوصی ریلیف کی مد میں کیا تجاویز دی گئی ہیں اور ان کا عام آدمی کے لیے مطلب ہے، آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں کتنا ریلیف دیا گیا ہے؟

وفاقی حکومت کی جانب سے نئے مالی سال میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد تک کے ’ایڈہاک ریلیف الاؤنس‘ کا اعلان کیا گیا ہے۔

اس کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ ایک سے 16ویں گریڈ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد جبکہ 17 سے 22ویں گریڈ کے افسران کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافہ ایڈہاک ریلیف الاؤنس کی مد میں کیا گیا ہے۔

اب یہ ایڈہاک ریلیف الاؤنس کا مطلب کیا ہے؟ ایسا ایڈہاک ریلیف الاؤنس اس سے قبل بھی حکومتوں کی جانب سے دیا جاتا رہا ہے، تاہم بعد میں اسے ملازمین کی بنیادی تنخواہوں میں ضم کر دیا جاتا ہے۔

تاہم فی الحال یہ الاؤنس ایک سال کے لیے ہو گا۔ سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی 17ویں گریڈ کے ملازم کی تنخواہ پچاس ہزار ہے تو اسے تنخواہ کی مد میں ساڑھے 17 ہزار روپے زیادہ دیے جائیں گے۔ تاہم اس کے ساتھ سرکاری ملازمین کو ملنے والی مراعات میں یہ اضافہ شامل نہیں کیا جائے گا، اور یہ ان کی پینشن میں بھی کاؤنٹ نہیں ہو گا۔

اس کے علاوہ سرکاری ملازمین کی پینشنز میں ساڑھے 17 فیصد کا فلیٹ اضافہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

جبکہ وفاقی ملازمین کی کم سے کم تنخواہ 32 ہزار تک بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔

کیا انکم ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے؟

عام طور پر بجٹ میں جو اقدام نجی شعبے کے تنخواہ دار طبقے کو متاثر کرتا ہے وہ انکم ٹیکس کی مد میں اضافہ یا سلیبز میں تبدیلی ہوتی ہے تاہم اس مرتبہ نہ تو کوئی اضافہ کیا گیا ہے اور نہ ہی سلیبز میں کوئی تبدیلی کی گئی ہے۔

حکومت کی جانب سے امیر افراد سے ’سپر ٹیکس‘ کی وصولی کے لیے تین نئے سلیب متعارف کروانے کی تجویز دی گئی ہے۔ اسی طرح صنعتی شعبے پر آئندہ سال میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔

فنانس بل کےمطابق فی الوقت اس وقت پندرہ کروڑ روپے سے زائد آمدن کمانے والے افراد پر یکساں طور پر سپر ٹیکس لگتا ہے تاہم اب حکومت کی جانب سے اس میں مزید تین سلیبز متعارف کروانے کی تجویز دی گئی ہے۔

تجویز کردہ تین نئے سلیب کے مطابق پینتیس کروڑ سے چالیس کروڑ کمانے والے افراد پر چھ فیصد سپر ٹیکس لگے گا۔

چالیس سے پچاس کروڑ سالانہ آمدن والے افراد پر سپر ٹیکس کی شرح آٹھ فیصد کرنے کی تجویز ہے جبکہ پچاس کروڑ سے زائد سالانہ آمدن والے افراد پر دس فیصد کے حساب سے سپر ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔

دوسری جانب کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ سے بیرون ملک ادائیگیوں پر ٹیکس فائلرز کے لیے ٹیکس ایک سے بڑھا کر 5 فیصد جبکہ نان فائلرز کے لیے دو سے بڑھا کر 10 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

اسی طرح نان فائلرز کے بینکوں سے کیش نکالنے پر 0.6 فیصد کی شرح سے ٹیکس لگانے کی تجویز بھی دی گئی ہے، یعنی اگر آپ نان فائلر ہیں تو بینک سے ایک لاکھ کیشن نکلوانے پر آپ کو 600 روپے ٹیکس دینا ہو گا۔

حکومت نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ گھر سے باہر کھانا کھانے کے لیے اگر آپ ادائیگی ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے کریں گے تو آپ کو 15 کے بجائے 5 فیصد ٹیکس دینا پڑے گا۔

وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے اپنی تقریر میں جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے یا کمی کا بھی کوئی اعلان نہیں کیا جو اس وقت 18 فیصد ہے اور اس میں ظاہر ہے کھانے پینے کی اشیا بھی آتی ہیں۔

کن شعبوں کو ریلیف دیا گیا ہے؟

حکومت کی جانب سے جن تین شعبوں میں ریلیف دیا گیا ہے ان میں زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور توانائی کے شعبے شامل ہیں۔ تاہم سب سے پہلے ایک ایسا ریلیف جس پر اکثر افراد خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔

حکومت کی جانب سے غریب افراد کو سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کی فراہمی کے لیے اس کی درآمد میں ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں برآمدات بڑھانے کے لیے انکم ٹیکس کی موجودہ رعایتی شرح جو 0.25 فیصد ہے اسے تیس جون 2026 تک بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔

حکومت کی جانب سے چوبیس ہزار ڈالر تک سالانہ برآمدات پر فری لانسرز کو سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور گوشواروں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا آئی ٹی اور اس کی خدمات فراہم کرنے والوں کو اجازت ہو گی کہ وہ اپنی برآمدات کے ایک فیصد کے برابر مالیت کے ہارڈ وئیر اور سافٹ وئیر کو بغیر کسی ٹیکس کے درآمد کر سکیں گے۔

ان درآمدات کی حد پچاس ہزار ڈالر سالانہ مقرر کی گئی ہے جبکہ آئی ٹی کی سیلز ٹیکس کی شرح پندرہ فیصد سے پانچ فیصد کر دی گئی ہے۔

توانائی کے شعبے کی بات کی جائے تو اس میں سولر پینلز کے حوالے سے حکومت نے خصوصی ریلیف دیا ہے۔

سولر پینل کی اندرون ملک تیاری کے لیے آلات کو کسٹم ڈیوٹی سے استثنیٰ دینے کی تجویز دی ہے۔

حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے فنانس بل کے مطابق سولر پینل، انونٹرز اور بیٹریوں کی پیداوار کے لیے مشینری، آلات اور دوسرے خام مال کو کسٹم ڈیوٹی سے چھوٹ دینے کی تجویز ہے۔

زراعت کے شعبے کی بات کی جائے تو حکومت کی جانب سے اس حوالے سے مختلف سبسڈیز دی جا رہی ہیں جن میں مختلف زرعی درآمدات پر ریلیف دیا جا رہا ہے جبکہ کم مارک اپ پر قرضہ دینے کی بھی تجویز ہے۔

زرعی قرضوں کو بڑھا کر 2200 ارب تک بڑھانے اور پچاس ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو سولر پر منتقل کرنے کے لیے 30 ارب روپے رقم مختص کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔

اس کے علاوہ فنکاروں کے لیے ہیلتھ انشورنس کی مد میں ایک ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلات زر کی مد میں بھیجی جانے والی رقوم کی مدد سے غیرمنقولہ جائیداد خریدنے پر موجودہ دو فیصد ’فائنل ٹیکس‘ کو ختم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

ساتھ ہی 1300 سی سی کی اوپر کی گاڑیوں کے لیے ڈیوٹی اور ٹیکسز کی مد میں جو کیپ لگایا گیا تھا وہ ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے تاہم اس حوالے سے مزید وضاحت آنا باقی ہے۔

حکومت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 450 ارب روپے رکھ رہی ہے جس سے مجموعی طور پر 93 لاکھ غریب خاندانوں کی امداد ہو گی۔