’وہ جعلی نہیں بلکہ اصلی ایجنٹ ہے اور اس نے مجھ سے حلف لے کر وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے بڑے معاوضے پر نوکری دلائے گا۔ اس کے لیے میں نے اپنی بہن کے زیورات گروی رکھے اور اسے ایک لاکھ 40 ہزار روپے دیے، لیکن بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا۔ اب میں مقروض ہو چکا ہوں۔‘
34 برس کے کشمیر الدین ایک دھوکے اور فراڈ کا شکار ہو گئے ہیں۔ انڈیا کی ریاست راجستھان سے تعلق رکھنے والے کشمیر چھوٹی موٹی نوکری کر کے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالتے ہیں۔
کشمیر الدین بتاتے ہیں کہ اپنے مالی حالات کے باعث وہ اچھی تنخواہ والی نوکری کی تلاش میں تھے کیونکہ انھیں اپنے خاندان کے مالی بحران پر قابو پانے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی۔
اچھی تنخواہ اور نوکری کے لالچ میں لوٹنے والے کشمیر اس علاقے کے واحد شخص نہیں ہیں۔ احمد آباد تھانے میں اس سلسلے میں درج مقدمے میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر کشمیر سمیت کُل 13 افراد کو دھوکہ دیا گیا اور ملزمان 22 لاکھ سے زیادہ کی رقم لوٹ کر غائب ہو گئے ہیں۔
پولیس نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ ملزمان نے دیگر لوگوں کو بھی دھوکہ دیا ہو گا لہذا اس ضمن میں مزید تحقیق جاری ہے۔
شہری فراڈ کے جال میں کیسے پھنسے؟
کشمیر بتاتے ہیں کہ ’ہم اچھی نوکری حاصل کرنا چاہتے تھے تاکہ ایک بہتر زندگی گزار سکیں۔ اسی دوران ملزمان ہمارے گاؤں آئے۔ انھوں نے ہمیں قسم کھا یقین دلایا اور کہا کہ وہ دھوکہ نہیں کریں گے اور ہمیں بیرون ملک نوکری لگوا دیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں اللہ کی قسم سن کر یقین کر بیٹھا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔ اس کے بعد میں نے اپنی بہن کے زیورات گروی رکھ کر انھیں ایک لاکھ اور 40 ہزار روپے دیے۔ لیکن انھوں نے ہمیں دھوکہ دیا۔ ہمیں فلائٹ کا ٹکٹ تک دے دیا گیا تھا مگر جب ہم خوشی خوشی ایئرپورٹ پہنچے تو ٹکٹ چیکر نے ہمیں بتایا کہ آپ کا ٹکٹ جعلی ہے، تب ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ ہم نے ایجنٹ کی تلاش شروع کر دی لیکن وہ مجھ سمیت فراڈ کے چکر میں آنے والے کسی بھی شخص کو نہیں مل سکا۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سائبر کرائم پولیس انسپکٹر منجولا پردوا نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش سے پتا چلا ہے کہ ’ملزمان احمد آباد میں کرائے کے مکان میں رہتے تھے اور انھوں نے وہاں ایک دفتر بھی بنا رکھا تھا۔ اب تک اس فراڈ کے 13 متاثرین اپنی شکایت درج کروا چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ابتدائی تحقیقات کے بعد ایک نامزد ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے جس کے قبضے سے پانچ پاسپورٹ برآمد ہوئے ہیں۔‘
اخبار میں اشتہار
کشمیر کے مطابق اس فراڈ کی ابتدا ملزمان کی جانب سے دیے گئے ایک اخبار اشتہار سے ہوئی۔ اس اشتہار میں بتایا گیا تھا کہ کمبوڈیا میں ڈرائیورز، ہیلپرز اور مزدوروں کی ضرورت ہے۔ یہ اشتہار ’ایس ڈی ٹورز اینڈ ٹریولز‘ نامی ایک کمپنی کے نام پر تھا۔
کشمیر بتاتے ہیں کہ گجرات میں رہنے والے ان کے ایک رشتہ دار نے انھیں یہ اشتہار بھیجا تھا۔
کشمیر کے مطابق ان سمیت بہت سے افراد نے اشتہار پر درج نمبروں پر رابطہ کیا اور ان تمام افراد کو مشتاق انصاری نامی شخص نے احمد آباد میں اپنے دفتر میں ملنے کے لیے بلایا۔ ’مشتاق نے کمبوڈیا میں ملازمت کی تفصیلات بتائیں اور کچھ ہی دنوں میں بہت سے لوگوں کو کمبوڈیا میں گیل نامی کمپنی میں مختلف ملازمتوں کے آفر لیٹر بھی دیے۔‘
’اس کے بعد ہمارا باقاعدہ طبی معائنہ کیا گیا اور ہمارے پاسپورٹ مشتاق نے اپنے پاس رکھ لیا جبکہ فیس کے نام پر فی کس 1 لاکھ 40 ہزار کا مطالبہ کیا۔‘
اس کی بات پر یقین کرتے ہوئے کشمیر سمیت بہت سے افراد نے رقم جمع کروائی جس کے بعد انھیں ممبئی سے کمبوڈیا تک سفر کا ہوائی ٹکٹ بھی دیا گیا۔
نیو دہلی پہنچ کر ان افراد کو معلوم ہوا کہ ٹکٹ جعلی ہے۔
اسی دوران ملزمان نے ایک شخص سے رابطہ کیا اور ٹکٹوں کی بابت تسلی دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ کمبوڈیا تک جانے کے لیے اب انھیں دہلی سے دبئی جانا ہو گا جس کے لیے فی کس مزید 60 ہزار روپے دینے ہوں گے۔ تاہم اس وقت تک بیشتر افراد کو احساس ہو چکا تھا کہ ان کے ساتھ فراڈ ہو چکا ہے۔
کشمیرالدین کہتے ہیں کہ ’ہم 25 اپریل کو دہلی آئے تھے۔ ہم نے کافی دیر تک انتظار کیا، لیکن ملزمان نہ تو خود وہاں آئے بلکہ انھوں نے اپنے فون بھی بند کر دیے۔ ہم نے مشتاق کو فون کیا تو ان کا فون بھی بند تھا۔ پھر ہمیں معلوم ہوا کہ انھوں نے کمبوڈیا میں نوکری دلانے کے بہانے ہم سب سے 22 لاکھ 40 ہزار روپے لیے ہیں اور یہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔‘
فراڈ پر یہ کیس سامنے آنے پر پولیس نے تفتیش شروع کی دی جس کے نتیجے میں ملزمان گرفتار ہوئے۔
پولیس انسپیکٹر کے مطابق ’تفتیشی ٹیم بہار گئی، جہاں سے گینگ لیڈر انصار الحق عرف منا چوہان کو حراست میں لیا گیا۔ 43 سالہ ملزم اس وقت بے روزگار ہے اور انھوں نے صرف نویں جماعت تک تعلیم مکمل کی ہے۔‘
پولیس نے ملزمان کے خلاف دھوکہ دہی اور عوام سے فراڈ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔