کہا جاتا ہے کہ پچھلے پچاس ساٹھ سال میں دنیا بھر میں لاکھوں گودیں اٹلی کی بوڑھی راہباؤں کے باعث ہری ہو چکی ہیں، ان کی دعا سے، ان کے پیشاب سے بننے والی دوا سے۔
دعا تو راہبائیں کرتی ہی ہیں لیکن دوا کی کہانی کیا ہے، جاننے کے لیے چلتے ہیں 1940 کی دہائی میں۔
ان برسوں میں اطالوی سائنس دان پایرو ڈونینی نے یہ دریافت کیا کہ مختصر طور پر ’ایل ایچ‘ اور ’ایف ایس ایچ‘ کہلانے والے دو ہارمون خواتین کی بیضہ دانی یا اووری سے انڈوں کو نکلنے اور یوں ان کے حاملہ ہونے میں مدد دیتے ہیں۔
سنہ 1940 کی دہائی میں انھوں نے ان ہی دو ہارمونز کے لیے سینکڑوں خواتین کے پیشاب کی جانچ کی اور جانا کہ یہ ایسی خواتین میں زیادہ تھے جن کی ماہواری رُک چکی تھی۔
ماہواری رکنے یا مینوپاز کے بعد، جب بیضہ دانی انڈے پیدا کرنا بند کر دیتی ہے، تو ایل ایچ اور ایف ایس ایچ بڑھ جاتے ہیں کیونکہ جسم ان کی پیداوار کو متحرک کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی لیے ڈونینی نے یہ طے کیا کہ ایسی خواتین سے ان ہارمونز کا حصول کہ جن کی ماہواری رک چکی ہو، بانجھ خواتین کے لیے مددگار ہو سکتا ہے۔
اس تولیدی حقیقت کا پتا کیسے چلا؟
ڈونینی نے پیشاب کے کچھ ایسے نمونوں سے ہارمونز الگ کر کے بنائی ترکیب کو ’پرگونال‘ کا نام دیا۔ اطالوی زبان میں اس کا مطلب ہے ’گوناڈز میں سے‘ (گوناڈز بیضہ دانی اور خصیے ہیں)۔
ڈونینی کے پاس دوا کا نسخہ تو تھا اور انھیں یقین بھی تھا کہ پرگونال حمل میں مددگار ہو گی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اسے بڑی مقدار میں تیار کہاں کیا جائے اور ہارمونز الگ کرنے کے لیے درکار پیشاب کی اتنی زیادہ مقدار کہاں سے حاصل کی جائے۔ اسی الجھن میں کم و بیش دس سال گزر گئے۔
اولیور سٹیلے کی تحقیق ہے کہ ایک دہائی بعد بانجھ پن پر تحقیق کرنے والے سائنس دانوں نے ڈونینی کے کام کے بارے میں سنا۔
سنہ 1996 میں شائع ہونے والی کتاب ’اے ٹیل آف ٹو ہارمونز‘ کے مطابق اس دریافت کا پتا دیتا ان کا مقالہ اس پیشرفت تک گمنامی ہی میں تھا۔
سٹیلے نے لکھا ہے کہ ’ڈونینی سے جنیوا میں کام کرنے والے میڈیکل کے طالب علم برونو لونن فیلڈ نے رابطہ کیا جو حمل کو متحرک کرنے کے لیے انسانی ہارمونز کے استعمال پر تحقیق کر رہے تھے۔ آسٹریا کے ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھنے والے لونن فیلڈ، ہولوکاسٹ میں یہودیوں کی آبادی بہت کم ہونے کے بعد ان میں شرح پیدائش بڑھانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔
’لونن فیلڈ نے کلینیکل ٹرائل کے لیے کافی مقدار میں دوا تیار کرنے کے لیے دواساز کمپنی سیرونو کے ایگزیکٹوز کے سامنے اپنا کیس پیش کیا لیکن اس دوا کے لیے مینوپاز والی خواتین سے ہزاروں گیلن پیشاب کی ضرورت تھی۔ نوجوان لونن فیلڈ دوا کے لیے لابی کرنے سیرونو کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے ملے۔‘
لونن فیلڈ نے بعد میں اسرائیلی اخبار ہارٹز کو بتایا کہ ’میں ان کے سامنے ایک بچہ ہی تو تھا۔ میں نے اس دریافت کے بارے میں بات کرنے کے بعد بورڈ آف ڈائریکٹرز سے درخواست کی کہ وہ روزانہ اپنا پیشاب جمع کرنے پر راضی مینوپاز والی چار سوخواتین کی تلاش میں مدد کریں۔ میں نے اپنی بات ختم کی، سب نے شائستگی سے تالیاں بجائیں اور پھر بورڈ کے چیئرمین کھڑے ہوئے اور کہا کہ بہت اچھا، لیکن ہم دوا کی فیکٹری ہیں، نہ کہ پیشاب کی فیکٹری۔ میں روتے ہوئے باہر بھاگا۔‘
تاہم سیرونوکے ایک ایگزیکٹو نے انھیں اطالوی اشرافیہ اور پوپ پیوس کے بھتیجے گیولیو پیسیلی سے متعارف کرایا۔ پیسلی سیرونو بورڈ کے رکن بھی تھے۔ پیسیلی نے لونن فیلڈ کے کام میں دلچسپی لی اور بہت سی ملاقاتوں کے بعد، لونن فیلڈ کے ساتھ بورڈ آف ڈائریکٹرز سے بات کرنے پہنچے۔
’پیسیلی نے بالکل وہی تقریر کی جو میں نے 10 دن پہلےکی تھی لیکن آخر میں انھوں نے ایک جملے کا اضافہ کیا: میرے چچا پوپ پیوس نے ہماری مدد کرتے ہوئے اولڈ ایج ہومز میں راہباؤں کو اس مقدس مقصد کے لیے روزانہ پیشاب جمع کرنے کے لیے کہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یقیناً اس جملے نے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو فوری طور پر پیسے اور وسائل کے ساتھ ہمارے تحقیقی منصوبے کی مدد کے لیے قائل کیا۔ مجھے بعد میں پتا چلا کہ ویٹیکن کے پاس سیرونو کے 25 فیصد حصص ہیں۔‘
دس راہبائیں، دس دن ،ایک علاج
جلد ہی ٹینکر ٹرک اٹلی بھر میں کیتھولک ریٹائرمنٹ ہومز سے سیکڑوں راہباؤں کا پیشاب روم میں سیرونو کے ہیڈ کوارٹر لے جانے لگے۔ ایک علاج کے لیے کافی پیشاب پیدا کرنے میں تقریباً دس راہباؤں کو دس دن لگتے۔
سنہ 1962 میں تل ابیب میں پرگونال کے علاج سے ایک خاتون نے ایک بچی کو جنم دیا۔ پرگونل کی خوراک پٹھوں میں ٹیکے کے ذریعہ دی جاتی۔ یہ اس علاج سے پیدا ہونے والا پہلا بچہ تھا۔ دو سال کے اندر اندر، پرگونال کےعلاج سے مزید 20 حمل ٹھہرے۔
یکم اکتوبر 1964 کو نیویارک ٹائمز کی خبر تھی کہ پرگونال کی امریکی تقسیم کار لیبارٹریز نے ایک انتباہ جاری کیا ہے کہ پرگونل صرف تحقیقی استعمال کے لیے ہے۔ اسی خبر میں تھا کہ کوئینز اور سویڈن میں دوا کے استعمال کے بعد چار چار بچوں کی پیدائش ہوئی۔
ستر کی دہائی کے آغاز سے امریکی خواتین بھی باقاعدگی سے یہ دوا استعمال کرنے لگیں۔
ٹائمز ہی کی ایک اور خبر کے مطابق کچھ ہی عرصے میں امریکہ میں سالانہ تقریباً دو لاکھ خواتین حمل کی دوا لے رہی تھیں۔ ان میں سے تقریباً 9,000 ایسی تھیں جن کا علاج پرگونال سے ہو رہا تھا، جس پر ڈاکٹروں کی فیس اور کلینک کے اخراجات سمیت تقریباً 10,000 ڈالر خرچ ہوتے تھے۔
مردوں کے لیے دوا کی منظوری
ٹائمز ہی کی 21 جنوری 1982 کی خبر تھی کہ بانجھ خواتین کی مدد کے لیے 10 سال سے استعمال ہونے والی ہارمونل دوا پرگونال کو گذشتہ روز فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے زرخیزی کے مسائل والے مردوں کے استعمال کے لیے بھی منظور کر لیا ہے۔
‘اس حالت میں مبتلا مردوں میں پٹیوٹری غدود یا گلینڈ کے دو ضروری ہارمونز، ایل ایچ یا ایف ایس ایچ، یا دونوں میں سے کسی ایک کے اخراج میں ناکامی سے سپرم کی پیداوار رک جاتی ہے۔‘
’فارماسیوٹیکل ریسرچ فار سیرونو کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رسل ڈبلیو پیلہم کا اندازہ ہے کہ 10,000 سے 50,000 مرد اس دوا کے علاج کے امیدوار ہیں۔‘
اخبار نے لکھا کہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ ہیومن ڈویلپمینٹ کے سینیئر تحقیق کار ڈاکٹر رچرڈ شیرنس نے 12 سال تک مردوں پر پرگونل کے اثرات کا مطالعہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کچھ مریضوں میں چھ سے نو ماہ کے اندر اس کا اثر ہوتا ہے جبکہ کچھ کو کئی سال تک علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
’اٹھارہ دیگر ممالک پہلے ہی مردوں کے لیے پرگونل کے استعمال کی منظوری دے چکے ہیں اور اسے کم از کم سات مزید ممالک میں مرد استعمال کرتے ہیں۔‘
ڈاکٹر پیلہم کے مطابق مردوں کے علاج سے زیادہ تعداد میں بچوں کی پیدائش کا واقعہ نہیں ہوا اور نہ ہی مضر اثرات سامنے آئے۔
سنہ 1980 کی دہائی کے وسط تک مانگ اتنی بڑھ گئی کہ سیرونو کو دوا کی کافی مقدار بنانے کے لیے ایک دن میں 30،000 لیٹر پیشاب کی ضرورت پڑتی۔
ایک بار میں کئی بچے
پرگونال نے ایک وقت میں ایک سے زیادہ بچوں کی پیدائش کے لیے بھی شہرت پائی۔
مئی 1985 میں کیلیفورنیا میں ایک جوڑے کے ہاں سات بچے پیدا ہوئے تو انھوں نے فرٹیلٹی کلینک کے خلاف یہ کہہ کر مقدمہ دائر کر دیا کہ انھوں نے دوا کے استعمال کو صحیح مانیٹر نہیں کیا۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق بچوں کے والد سیموئیل فرسٹاسی نے کہا کہ ’ہم کوئی ریکارڈ بنانے نہیں نکلے تھے۔‘
پھر تحقیق اور دوا کا استعمال بہتر ہونے سے ایک سے زیادہ پیدائشوں میں کمی آتی گئی۔
ٹائمز سے بات کرتے ہوئے سیرونو لیبارٹریز کے صدر ڈاکٹر جیرالڈ ای سٹائلز کا کہنا تھا کہ ’پرگونال لینے والی خواتین میں سے 80 فیصد کے ہاں ایک ایک بچہ پیدا ہوا اور 15 فیصد کے ہاں جڑواں بچے۔‘
سنہ 1991 میں اسی جوڑے کے ہاں اسی دوا کی مدد سے جڑواں بچے پیدا ہوئے۔ پیدائش کا اعلان ان کے وکیل براؤن گرین نے کیا۔
گرین وہی وکیل ہیں جنھوں نے سات بچوں کی پیدائش پر اس جوڑے کا 2.7 ملین ڈالر ہرجانے کا مقدمہ لڑا اور جیتا تھا تاہم سنہ 1990 میں جولائی میں تصفیہ کے اعلان کے فوراً بعد یہ معلوم ہوا کہ پیٹی فرسٹاسی نے دوبارہ حاملہ ہونے کے لیے پرگونال کا استعمال کیا۔
چھ سال پہلے قبل از وقت پیدا ہونے والے چار لڑکوں اور تین لڑکیوں میں صرف تین بچے ہی زندہ بچ سکے تھے اور ہر ایک کو طبی اور نشوونما کے مسائل کا سامنا تھا۔
لیکن گرین نے جڑواں بچوں کے بارے میں بتایا کہ ’وہ صحت مند ہیں۔ انھوں نے لڑکے کا نام بھی میرے نام پر رکھا ہے، جو اعزاز کی بات ہے۔‘
دوا کی ضرورت کے مقابلے میں پیشاب کی مقدار کے ناکافی ہونے پر کمپنی نے لیبارٹری میں ہارمونز بنانا شروع کر دیے۔ اس کے نتیجے میں تیار ہونے والا علاج، گونال-ایف کے نام سے پہلی بار 1995 میں منظور کیا گیا۔
سیرونو کو مرک نے سنہ 2007 میں خرید لیا۔ یہ آج بھی اس دوا کی پیداوار جاری رکھے ہوئے ہے تاہم چونکہ ہارمونز اب لیبارٹری میں تیار کر لیے جاتے ہیں اس لیے دوا بنانے کے لیے بوڑھی راہباؤں کے پیشاب کی ضرورت نہیں رہی۔