اہم خبریں

بشریٰ انصاری جن کا گلوکاری کا جنون، ان کی اداکاری میں کہیں کھو گیا

تاکے کی آئے گی بارات، اُڈاری، ففٹی ففٹی، آنگن ٹیڑھا، سمیت کئی ایسے ڈرامے ہیں جن کا سنتے ہی بشریٰ انصاری کا نام ذہن میں آتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں بشریٰ انصاری کو ’ایور گرین‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔

آج کل بشریٰ انصاری جیو کے مشہور ڈرامے ’تیرے بن‘ میں اپنے کردار کی وجہ سے سوشل میڈیا پر زیرِ بحث ہیں۔ اس ڈرامے میں وہ مرکزی کردار مرتسم کی والدہ کا کردار ادا کر رہی ہیں۔

ہر قسط کے بعد سوشل میڈیا پر اس ڈرامے میں ان کی لُک پر لوگ تبصرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ جس پر بشریٰ انصاری کا کہنا ہے کہ ’میں نے اس ڈرامے میں اپنی لُک پر خود کام کیا۔‘

ان کے مطابق ’مجھے بتا دیا گیا تھا کہ یہ کردار ایک سنجیدہ ماں کا ہے تو میں سمجھ گئی کہ مجھے شال، شلوار قمیض اور کھسے پہننے ہیں تاکہ رائل لُک نظر آئے‘۔

بشریٰ انصاری کے کرئیر پر اگر ایک نظر دوڑائیں تو اب تک جو بھی کردار اُنھوں نے نبھائے ہیں وہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف نظر آتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہیں۔

اس بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ’میں کوشش کرتی ہوں کہ میرا ہر کردار دوسرے سے مختلف نظر آئے۔ جس طرح اُڈاری میں، میں ایک گلوکارہ بنی تھی جس کا تعلق گاؤں سے تھا تو میں نے کہا کہ میں لاچا پہنوں گی۔ گاؤں سے تعلق رکھنے والی گلوکارہ تالی بجا کے گاتی ہیں تو میں نے خود ہاتھ میں پہننے کے لیے بریسلیٹ بنوائے تھے تاکہ کردار میں گلیمر لا سکوں۔‘

بشریٰ انصاری نے اپنے باقاعدہ کریئر کا آغاز سنہ 1978 میں پی ٹی وی کے مزاحیہ ڈرامے ففٹی ففٹی سے کیا تھا۔ اُس کے بعد اُنھوں نے کئی ڈراموں اور فلموں میں کام کیا، جس میں کبھی سنجیدہ تو کبھی مزاحیہ کردار شامل تھے۔ اس کے علاوہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ مختلف میوزک ویڈیوز میں بھی نظر آتی رہتی ہیں۔

گلوکاری، بشریٰ انصاری کا جنون

بشریٰ انصاری کے ٹیلنٹ میں سے ایک گلوکاری بھی ہے۔ اُن کی والدہ کی آواز بہت اچھی تھی اور اُن کے والد بھی کلاسیکل گانے سننے کا شوق رکھتے تھے۔ ایسے ماحول میں اُن کا بچپن سُروں کی پختگی اور ریاضت میں گزرا۔

بشریٰ انصاری کی تمام بہنوں کو بھی گلوکاری کا شوق ہے۔ اُنھوں نے یہ بھی بتایا کہ اس کی وجہ اُن کے گھر کا ماحول ہے۔

بشریٰ انصاری نے ہمسایہ ماں جایا، تیرے عشق میں، جیسے بے شمار مشہور گانے گائے مگر اُنھوں نے مکمل طور پر گلوکاری کے شعبہ کو نہیں چُنا جبکہ اُن کا جنون بھی گلوکاری ہی تھا۔

ان کے مطابق ’میں نے پی ٹی وی میں سارے بڑے پروڈیوسرز کے ساتھ گانا گایا۔ میں اُس وقت بھی گلوکاری کو سنجیدہ لیتی تھی، ابھی بھی میں گلوکاری کو سنجیدہ لیتی ہوں مگر مجھے کھبی کوئی کہتا تھا ڈارمہ کرو، کبھی کچھ تو بہت سی چیزیں جب میں ایک ساتھ کرنے لگی تو گلوکاری کہیں دب گئی۔‘

بشریٰ انصاری کا ماننا ہے کہ اُن کو جو پذیرائی بطور گلوکار ملی، وہ ہر ایک کو نہیں ملتی۔ اُنھوں نے بتایا کہ پاکستان میں کئی گلوکار ہیں جو بس گائے جا رہے ہیں مگر اُن کو وہ مقام نہیں ملا۔

’اپنی ملازمہ کو کچھ نہیں کہتی، تھپڑ مارنا تو دور کی بات ہے‘

نئی نسل کے ساتھ کام کرنا نوے کی دہائی کے اداکاروں کے لیے مشکل ہے یا نہیں اس پر ہر کوئی مختلف رائے رکھتا ہے مگر بشریٰ انصاری کا ماننا ہے کہ اُن کو کبھی بھی مشکل پیش نہیں آئی۔

’میرے ساتھ آج کل کے نوجوان بچے جب کام کرتے ہیں تو بہت تہذیب کے ساتھ پیش آتے ہیں، میں نے سنا ضرور ہے کافی نوجوان ادکار جو سیٹ پر بہت سنجیدہ نہیں ہوتے۔‘

ماضی اور حال کا موزانہ کرتے ہوئے بشریٰ انصاری نے کہا کہ ماضی میں ’سکرپٹ‘ پر بہت محنت کی جاتی تھی اور وہ اس طرح لکھے ہوئے ہوتے تھے کہ اُس میں تبدیلی کی ضرورت ہی نہیں ہوتی تھی۔

بشریٰ انصاری اُن اداکاروں میں سے ہیں، جو ڈائریکٹر کے کام اور سکرپٹ میں تبدیلی کا مطالبہ نہیں کرتی ہیں۔

’تیرے بن‘ کا حوالہ دیتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ اس ڈرامے میں بہت سی چیزیں ہیں، جن سے وہ حقیقی دنیا میں اتفاق نہیں کرتیں مگر کیونکہ سکرپٹ کی ڈیمانڈ تھی تو اُنھوں نے وہ سین کیے۔

’میں نے ایک سین میں یمنیٰ کو تھپڑ مارا تھا، میں ذاتی زندگی میں اپنی ملازمہ کو کچھ نہیں کہتی تو تھپڑ مارنا تو بہت دور کی بات ہے مگر یہ سکرپٹ کی ڈیمانڈ تھی اس وجہ سے میں نے یہ سین بھی کیا‘۔

’افسوس ہے کہ انڈیا میں کام کا موقع نہیں مل سکا‘

بشریٰ انصاری صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں مشہور ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُنھیں انڈیا میں بھی متعدد بار کام کرنے کی پیش کش کی گئی۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’دو بار مجھے انڈیا میں کام کرنے کی آفر آئی اور ایک بار تو میں کام کرنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ پلوامہ حملہ ہو گیا۔ ایک بڑی مارکیٹ تھی، مجھے افسوس ہے کہ کام کا موقع نہیں مل سکا۔‘

ماضی میں کئی پاکستانی اداکار انڈیا میں جا کر کام کر چکے ہیں، جس میں فواد خان، ماہرہ خان، ماورہ حسین اور کئی دوسرے ادکار شامل ہیں مگر پاکستان اور انڈیا کی حکومتوں میں بڑھتی کشیدگی نے فلم انڈسڑی میں دونوں ملکوں کے اداکاروں کے لیے کام کرنا مشکل کر دیا ہے۔

اس بات سے بشریٰ انصاری بھی اتفاق کرتی ہیں مگر اُن کا یہ بھی ماننا ہے کہ پاکستان کے بجائے انڈیا میں حکومت زیادہ سختی کا مظاہرہ کر رہی ہے جبکہ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں۔

بشریٰ انصاری نے زیادہ عمر کے اداکاروں کے لیے لکھے جانے والے ڈراموں میں اداکاری کا مارجن کم ملنے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ ہمارے پڑوسی ملک میں دیکھیں تو آج بھی امیتابھ بچن کے لیے لیڈ رولز لکھے جاتے ہیں صرف ہمارے ہاں ہی زیادہ عمر کے ادکاروں کو امی، پھوپی یا آنٹی کا کردار دیا جاتا ہے۔‘

بشریٰ انصاری کا مزاحیہ انداز

بشریٰ انصاری کی پاکستان فلم اور ڈرامہ انڈسڑی کے لیے خدمات کی وجہ سے پاکستان کی حکومت نے انھیں سنہ 1981 میں ’پرائیڈ آف پرفارمنس‘ اور سنہ 2021 میں ’ستارہ امتیاز‘ سے نوازا۔

بشریٰ انصاری کے مطابق اُنھیں کچھ نہ کچھ نیا کرنے کا شوق ہر وقت رہتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ اُنھیں بدلتے وقت او حالات کے ساتھ کام کرنے میں مشکل نہیں ہوتی۔

بشریٰ انصاری کا مزاحیہ انداز ہر ایک کو ان کا دلدادہ بنا دیتا ہے۔ جیو کی مشہور ٹیلی فلم ’تاکے کی آئے گی بارات‘ میں صائمہ چوہدری ہو یا پھر بجلی کا کردار دیکھنے والا اپنی ہنسی کو کنڑول نہیں کر سکتا۔

اُنھوں نے کئی مزاحیہ ٹی وی شوز کے ساتھ تھیٹر بھی کیا ہے۔

بی بی سی کو انٹرویو میں بشریٰ انصاری نے بتایا کہ ’میں ایک سنگل پروفائل تھیٹر کرنے جا رہی ہوں، جہاں میں لوگوں سے بات چیت کروں گی، اس کے علاوہ شاید میں اُس میں کامیڈی کروں یا شاید پھر ایکٹنگ، یہ سرپرائز ہو گا‘۔

پاکستان میں کامیڈی شوز پہلے کے مقابلے میں بہت کم بن رہے ہیں۔ اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے بشریٰ انصاری نے کہا کہ ’پاکستان میں اب جو بھی پروگرام بن رہے ہیں، اُن میں جان نہیں اور ایسی زبان استعمال کی جا رہی ہے جو پہلے کبھی نہیں استعمال کی گئی۔‘