اہم خبریں

برطانوی انڈیانا جونز: ایک قدیم شہر کی تلاش میں لاپتہ ہونے والے مہم جو جن کی گمشدگی آج تک معمہ ہے

سنہ 1984 میں ریلیز ہونے والی ہالی وڈ فلم انڈیانا جونز اینڈ دی ٹیمپل آف ڈوم میں ایک منظر ایسا ہے جس میں ایک مقدس پتھر کی تلاش کرنے والے ہیرو ہیریسن فورڈ کو ایک کردار تنبیہ کرتا ہے کہ تم دولت اور عظمت کے پیچھے دوڑتے ہوئے خود کو ہلاک کروا لو گے۔

انڈیانا جونز جواب دیتا ہے شاید، لیکن آج نہیں۔

نینا پیٹرسن نے بھی شاید کچھ ایسا ہی کہا ہو گا جب ان کے شوہر اور برطانوی مہم جو پیرسیوال ہیریسن نے اعلان کیا ہو گا کہ وہ برازیل کی ایک قدیم تہذیب کا سراغ لگانے کے لیے نکل رہے ہیں۔

ان دونوں کی ملاقات سری لنکا میں ہوئی تھی جہاں پرسیوال برطانوی رائل توپ خانے میں افسر تھے۔

لاطینی امریکہ ان کے لیے نیا نہیں تھا لیکن اس بار وہ ایسی مہم پر جا رہے تھے جس میں وہ دو سال تک گھر سے دور رہتے۔

ناکام کوشش

پرسیوال 1906 میں پہلی بار لاطینی امریکہ پہنچے تھے جہاں برٹش رائل جیوگرافیکل سوسائٹی نے انھیں ایمازون جنگل کا نقشہ بنانے کے لیے بھیجا تھا۔ انھوں نے اس جنگل کو دریافت کرنے کی مہم کا آغاز کیا جس کے دوران ان کو یقین ہو گیا کہ اس جنگل کے اس حصے میں جو برازیل میں موجود ہے، ایک کھوئے ہوئے قدیم شہر کی باقیات موجود ہیں۔

سنہ 1920 میں وہ اس شہر کی دریافت کے ارادے سے ریو ڈی جنیریو پہنچے۔

صحافی ہرمیز لیل جنھوں نے پرسیوال پر ایک کتاب تحریر کی ہے کہتے ہیں کہ زیڈ شہر کی کہانی ایک ایسے دستاویز سے منظر عام پر آئی جو ریو ڈی جنیریو کی مقامی لائبریری میں موجود ہے۔

یہ اٹھارویں صدی کی کہانی ہے جس میں ایک شخص نے جنگل میں ایک شہر کے کھنڈرات دریافت کیے اور اسی دستاویز کی کاپی پرسیوال کے ہاتھ آئی۔ برازیل میں پرسیوال کی ملاقات ملک کے صدر سے ہوئی جن کو برطانوی سفیر نے درخواست کی تھی کہ وہ اس مہم کی حمایت کریں۔

برازیل کے صدر نے پرسیوال اور مارشل کینڈیڈو روندون کی ملاقات طے کروائی۔ روندون کو برطانوی مہم جو کی نیت پر شک تھا اور انھوں نے متعدد بار اصرار کیا کہ ان کے ساتھ کسی ایسے فرد کو جانا چاہیے جس پر برازیل کی حکومت اعتماد کر سکے۔ تاہم پرسیوال بضد تھے کہ وہ اکیلے ہی جائیں گے۔

برازیل کے فوجی افسر مارشل روندون کو شک تھا کہ پرسیوال کی مہم کا اصل مقصد سونے اور چاندی کی تلاش تھی اسی لیے انھوں نے ان سے اس راستے کے بارے میں سوالات کیے جس پر وہ جانا چاہتے تھے۔

پرسیوال نے جواب دیا یہ خفیہ ہے، میں اسے ظاہر نہیں کر سکتا۔

برازیل پہنچ جانے کے چھ ماہ بعد، 12 اگست 1920، کو پرسیوال اپنے سفر پر روانہ ہوئے۔ اس دوران انھوں نے ساؤ پاولو اور پھر کشتی کے ذریعے جنگل تک پہنچنے کا سفر کیا۔

جنگل میں ایک جگہ قیام کے دوران ان کو ایمازون کے جنگلی انڈینز کے بارے میں پتہ چلا تو انھیں یقین ہو گیا کہ وہ درست راستے پر ہیں۔

ان کے جذبے کو راستے میں پیش آنے والی مشکلات نے شدید متاثر کیا۔ بارش بہت زیادہ تھی، ندیوں میں طغیانی تھی اور سامان لے جانے والے جانور ڈوب گئے یا پھر تھکاوٹ سے ہلاک ہو گئے۔

پرسیوال کا اپنا گھوڑا بھی ایک مقام پر گر کر ہلاک ہو گیا۔ اس مقام کو ڈیڈ ہارس کیمپ کہا جاتا ہے۔ اب ان کے پاس مہم ترک کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

بہت سے لوگوں نے جب ان سے سوال کیا کہ مہم کیوں ترک کی گئی تو انھوں نے ہمیشہ ایک ہی جواب دیا کہ جانوروں کی وجہ سے۔ انھوں نے واپس لوٹنے کا بھی اعلان کیا۔

جنوری 1925 میں پرسیوال نے ہمیشہ کی طرح مہم کے آغاز سے قبل ایک نیا ہیٹ خریدا۔ یہ کوئی عام ہیٹ نہیں تھا بلکہ کافی مہنگا سٹیٹسن ہیٹ تھا جو ان کا پسندیدہ تھا۔

اس بار مددگاروں کی خدمات لینے کے بجائے وہ اپنی دو قریبی افراد کو ساتھ لے کر گئے۔ ان کا 21 سالہ بیٹا جیل، اور ان کا ایک دوست رائلی رمل ان کے ساتھ تھے۔

پرسیوال نے ان دونوں کو دریا میں تیراکی، اور صرف سبزی کھا کر زندہ رہنے کی مشق کروائی۔ پرسیوال نے ان کو پندرہ کلو تک کا وزن اٹھا کر چلنے کی بھی مشق کروائی اور پرتگالی زبان کے چند لفظ بھی سکھائے۔

چار مارچ کو انھوں نے کویبا سے دو لکڑ ہاروں، پانچ خچروں، پانچ گھوڑوں اور دو کتوں کے ساتھ سفر کا آغاز کیا۔

جیک کو تصاویر لینے کا کام سونپا گیا تھا جبکہ رمل کے ذمے کھانا تیار کرنا تھا۔ دن میں اوسطاً وہ چھ کلومیٹر سفر کرتے اور صبح سویرے دوبارہ سفر کا آغاز کرتے۔

تیس اپریل کو وہ ریو نووو فارم پہنچے جس کے مالک نے انھیں خوراک اور جانوروں کے لیے چارہ دیا۔ یہاں انھوں نے پانچ دن قیام کیا جس کے بعد وہ آگے روانہ ہوئے۔

باکائری گاوں پہچننے پر جیک کی سالگرہ آئی تو پرسیوال نے ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ یہاں پرسیوال کی ملاقات مقامی قبائلی گروہ کے سردار یامارا سے ہوئی۔

پرسیوال نے سردار کو ساتھ چلنے کی پیشکش کی تو انھوں نے جواب دیا کہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں۔

یامارا نے ایک موقع پر ترجمہ کرنے والے فرد کے کان میں سرگوشی کی تو اس نے پرسیوال کو بتایا کہ یہ تمھیں سفر جاری رکھںے سے روک رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بیٹ انڈین باہر سے آنے والوں کو برداشت نہیں کرتے۔ وہ انسانوں کا گوشت کھا جاتے ہیں۔

پرسیوال نے جواب دیا میں اپنا دفاع کرنا جانتا ہوں۔ سردار نے کہا یہ مہم بہت خطرناک ہے۔

اگلے دن پرسیوال نے مزدوروں کو چھٹی دے دی۔ وہ اپنی دریافت کے وقت کسی کو ساتھ نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ اب انھوں نے ڈیڈ ہارس کیمپ کی طرف سفر کا آغاز کیا۔ آٹھ دن بعد اس کیمپ پر پہنچنے کے بعد انھوں نے اپنی بیوی کے نام خط میں لکھا تمھیں ناکامی کا ڈر نہیں ہونا چاہیے۔

یہ ان کے آخری الفاظ تھے۔ تاریخ تھی 29 مئی، 1925۔ اس کے بعد پرسیوال، جیل اور رمل کا کچھ پتہ نہیں چلا۔

ان کی تلاش میں نکلنے والوں کو بھی کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

اپنے سفر پر نکلنے سے پہلے پرسیوال نے اپنی اہلیہ سے کہا تھا کہ ان کی گمشدگی کی صورت میں ان کی تلاش میں کسی کو نہ بھیجا جائے۔ معاملہ اس لیے بھی پیچیدہ تھا کہ پرسیوال کو یہ عادت تھی کہ وہ راستے پر غلط نشانات چھوڑ جاتے تھے تاکہ کوئی ان کا پیچھا نہ کر سکے۔

مورخ ڈیبورا لیوراٹو کا کہنا ہے کہ ان کی گمشدگی ایک معمہ ہے۔ ایک مفروضہ یہ ہے کہ ان کی موت فاقوں کی وجہ سے ہوئی۔ بیماری، کسی جانور کے حملے یا انڈینز کے حملے کے مفروضے بھی ہیں۔ لیکن کسی ثبوت کے بغیر یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ مانتے ہیں کہ انھوں نے زیڈ شہر دریافت کر لیا تھا۔ لیکن سو سال بعد بھی کوئی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔

نینا فاسیٹ 1954 میں 83 سال کی عمر میں وفات پا گئیں لیکن انھوں نے مرتے دم تک اپنے شوہر کی موت کو تسلیم نہیں کیا اور سوئٹزر لینڈ میں ان کا انتظار کرتی رہیں۔

ان کے چھوٹے بیٹے برائن فاسیٹ نے اپنے والد اور بھائی کی تلاش ترک نہیں کی۔ 1952 میں، گمشدگی کے 27 سال بعد، ایسوسی ایٹڈ نیوز پیپرز کے مالک نے ایک مہم کا اعلان کیا تو برائن نے شمولیت کی دعوت قبول کی۔

اس وقت برازیل کے اورلینڈو ولاس کو ایک مقامی قبائلی گروہ سے ایسی خبر ملی تھی کہ سفید فام افراد کو مارا گیا ہے اور ان میں سے دو کی لاشیں گرین لیگون جبکہ ایک کو دریا کے قریب دفنایا گیا۔

ماہرین نے جلد ہی یہ لاشیں دریافت کر لیں لیکن یہ پرسیوال اور ان کی مہم میں شامل افراد کی لاشیں نہیں تھیں۔

پرسیوال کی گمشدگی کے تین سال بعد امریکی مہم جو جارج ملر نے بھی ایک کوشش کی۔ ان کی ملاقات ایک مقامی قبائلی گروہ کے لوگوں سے ہوئی جنھوں نے گلے میں کاپر باندھ رکھا تھا۔ اس پر لندن کی اس فرم کا نام درج تھا جس نے کرنل پرسیوال کو سفر کا سامان مہیا کیا تھا۔

ایک مقامی گھر سے ان کو برطانوی افسر کے زیر استعمال سوٹ کیس سے ملتا جلتا سوٹ کیس بھی ملا تھا۔

صحافی پیٹر فلیمنگ بھی پرسیوال کی تلاش میں برازیل جا چکے ہیں۔ یہ جیمز بانڈ کے خالق، این فلیمنگ کے بڑے بھائی ہیں۔

ایک امریکی مشنری مارتا موینچ کی کہانی سننے کے بعد رپورٹر ایڈمار موریل نے 1943 میں ایک مہم کی سربراہی کی۔

مارتا نے پرسیوال کی اہلیہ کے نام خط میں کوئیکرو گاؤں میں ایک سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والے انڈین کی موجودگی کی اطلاع دی تھی۔ قبائلی گروہ کا ماننا تھا کہ وہ کسی غیر ملکی اور ایک مقامی عورت کا بیٹا تھا۔

لیکن موریل کو مہم کے دوران پتہ چلا کہ زنگو کا سفید خدا کہلایا جانے والا یہ بچہ پرسیوال کا بیٹا نہیں تھا بلکہ برص سے متاثر تھا۔

آندرے دنیز کا کہنا ہے کہ لوگ مفروضوں پر یقین نہیں کرتے اور اسی لیے کئی غیر معمولی نظریے جنم لے چکے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ وہ کسی خفیہ دنیا میں زندہ ہیں اور ان کا بیٹا جیل ایک نئی انسانی نسل کا باپ بن چکا ہے۔

پرسیوال کی زندگی پر کافی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور زیڈ دی لاسٹ سٹی نامی فلم کا ماخذ بھی ان کی مہم ہی ہے۔

کئی اور فلمی کرداروں کی طرح یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ انڈیانا جونز کا کردار بھی ان سے ہی متاثر ہو کر بنایا گیا۔