اہم خبریں

ببی سٹاک ہوم: تارکین وطن کو ہوٹل نما بحری جہاز میں ٹھہرانے کا نیا برطانوی منصوبہ کیا ہے؟

برطانیہ کے جنوب مغرب میں واقع پورٹ لینڈ ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ یہ برطانیہ کا وہ پہلا مقام بننے جا رہا ہے جہاں تارکین وطن کو ایک بحری جہاز پر رکھا جائے گا۔

’ببی سٹاک ہوم‘ نامی جہاز کو گزشتہ ہفتے ہی فالماؤتھ نامی بندرگار سے نکالا گیا۔ اس جہاز پر 500 افراد کو 18 ماہ تک رکھا جا سکتا ہے۔

امید کی جا رہی ہے کہ اگلے چند دن میں اس جہاز کو پورٹ لینڈ پہنچا دیا جائے گا۔

بی بی سی ویسٹ آف انگلینڈ کے نامہ نگار ڈان جانسن نے اس جزیرے کا دورہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس جزیرے کے رہائشی نئے حکومتی منصوبے کو متنازع کیوں سمجھتے ہیں۔

78 سالہ چارلس رچرڈز کہتے ہیں کہ ’وہ سمجھتے ہیں کہ پورٹ لینڈ کچرا پھینکنے والی جگہ ہے۔ ان کا خیال ہے ہم اہم نہیں اور ہم شور نہیں مچائیں گے۔‘

انھوں نے اپنی عمر اسی جزیرے پر گزاری ہے۔

ہم ان کے باغیچے کی دیوار پر بیٹھے بات چیت کر رہے تھے جہاں سے وہ بندرگار دکھائی دیتی ہے جس پر وہ محکمہ دفاع کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔

ایسا لگتا ہے اس جزیرے پر موجود ہر فرد کسی نہ کسی طریقے سے فوج یا جیل میں خدمات سرانجام دیتا رہا ہے۔

چارلس کہتے ہیں پورٹ لینڈ کا ہمیشہ سے استحصال ہوا۔

’پتھر کی کمپنیوں نے زمین میں گڑھے کھودے۔ محکمہ دفاع نے یہاں دفاعی اور بحری تنصیبات بنائیں۔ حکومت نے یہاں دو جیلیں بنائیں۔ کئی برسوں سے وہ ہمارے ساتھ جو کرنا چاہتے ہیں، کر رہے ہیں۔‘

پورٹ لینڈ کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے میں 10 منٹ لگتے ہیں لیکن یہاں یہ احساس موجود ہے کہ اس دور دراز مقام نے قوم کا ضرورت سے زیادہ بوجھ برداشت کیا۔

یہاں ایک ایسی جیل موجود ہے جس میں 580 ایسے مجرم رکھے گئے ہیں جن پر سیکس جرائم کا الزام ثابت ہوا۔ ایک دوسری جیل میں بھی 500 مجرم قید ہیں۔

ان دو جیلوں کے علاوہ یہاں ایک بحری جیل بھی موجود رہی جسے ایک عارضی بندوبست کے طور پر ’ایچ ایم پی ویئر‘ نامی بحری جہاز میں اس لیے قائم کیا گیا تھا کیونکہ ان دو جیلوں میں قیدیوں کی تعداد ضرورت سے زیادہ ہو گئی تھی۔ یہ عارضی انتظام آٹھ سال تک قائم رہا۔

اس عارضی جیل کے 400 قیدی جزیرے کی مجموعی آبادی کا 11 فیصد حصہ تھے اور اب ایک اور بحری جہاز اسی مقام پر پہنچنے والا ہے۔

یہ حکومت کے ایک اہم منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت برطانوی زمین تک رسائی حاصل کرنے والے تارکین وطن کی کشتیوں کے خطرناک اور جان لیوا سفر کی روک تھام مقصود ہے۔

پیسہ

ڈورسیٹ سٹی کونسل کو ان 18 ماہ کے لیے 22 لاکھ امریکی ڈالر سے زیادہ پیسہ ملے گا جن کے دوران یہ بحری جہاز یہاں لنگر انداز رہے گا۔

یہ تخمینہ فی بستر کے حساب پر آنے والے خرچ کو ذہن میں رکھ کر طے کیا گیا ہے جو تقریباً ساڑے چار ہزار ڈالر ہے۔ چار لاکھ 93 ہزار ڈالر کی رقم اس کے علاوہ ہو گی۔

تاہم مقامی کونسلر لارا بیڈو کا کہنا ہے کہ ان کو حکومت کے اس منصوبے پر سنجیدہ خدشات ہیں کیونکہ پورٹ لینڈ اس طرح کے جہاز کو ٹھہرانے کے لیے غلط مقام ہے۔

دوسری جانب برطانوی وزارت داخلہ کا خیال ہے کہ یہ جہاز تارکین وطن کے لیے موجودہ نظام پر بڑھتے دباؤ میں کمی لائے گا لیکن جزیرے پر بسنے والے بھی اس اقدام کے خلاف ہیں۔

چارلس کہتے ہیں کہ لوگ ان نوجوانوں کے بارے میں پریشان ہیں۔ ’وہ یہاں کیا کریں گے؟ گھومیں پھریں گے؟ ہم نہیں جانتے کہ وہ کیا کریں گے۔ کیا وہ منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہوں گے؟ ہمیں اس پریشانی کی ضرورت نہیں۔‘

وکٹوریا گارڈنز میں بھی مجھے ایسی ہی آرا سننے کو ملیں۔

کیتھی سمتھ کہتی ہیں کہ ’ہمارے جزیرے پر وسائل محدود ہیں۔ آنے کا ایک راستہ ہے اور باہر جانے کا بھی۔ ہمیں طبی سہولیات کے حصول میں، ڈاکٹر سے وقت لینے میں مسائل کا سامنا ہے۔ کیا ان کو اس معاملے میں ترجیح ملے گی؟‘

خدشات

یہ خدشات مظاہروں میں، فیس بک گروپس میں اور عوامی اجتماعات میں دہرائے جا رہے ہیں۔

ایک ایسی ہی تقریب میں، جہاں محکمہ داخلہ، پولیس اور شہر کے حکام فیس بک پر اکھٹے موجود تھے، ایک خاتون نے خواتین اور لڑکیوں کی حفاظت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔

کسی نے ذہنی صحت کے حوالے سے سوال اٹھائے۔ کسی نے کہا کیا یہ ہوٹل سے زیادہ سستا طریقہ ہے، کسی نے سکیورٹی کا پوچھا تو کسی نے کہا کہ اس سے سیاحت متاثر ہو گی۔

مقامی حکام بھی اس بات پر نالاں نظر آئے کہ اس منصوبے کو طے کرنے سے پہلے ان سے رائے نہیں لی گئی۔

سوال زیادہ ہیں اور جواب کم۔

محکمہ داخلہ کے اہلکار نے کہا کہ یہ ایک ایمرجنسی صورتحال ہے اور زیادہ تر تارکین وطن کی ابتدائی چھان بین مکمل کر لی گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ جہاز پر ان تارکین وطن کے لیے وقت گزارنے کا بندوبست کیا جائے گا۔

ہجوم میں سے ایک شخص نے چلا کر کہا کہ ’تم جھوٹے اور بزدل ہو۔‘

بحث کا رخ پورٹ لینڈ میں موجود سہولیات کی جانب مڑ گیا۔ ایک خاتون نے شکایت کی کہ ایک ڈاکٹر کو دکھانے میں چار ہفتے لگتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہاں کوئی ڈینٹسٹ نہیں اور مقامی فارمیسی پر کافی دباؤ ہے۔

حکام اتنی تنقید کی وجہ سے دنگ دکھائی دیے۔ انھوں نے مزید معلومات اور بہتر خدمات کا وعدہ کیا لیکن یہ اعتراف بھی کیا کہ بحری جہاز پر سوار 500 افراد کو علاقے میں جی پی ایس پر رجسٹر کرنا باقی ہے۔

یہاں موجود ایک شخص کے لیے اب معاملہ حد سے گزر چکا تھا۔ اس نے چلا کر کہا ’اگر ہم طبی مرکز جائیں اور وہاں تارکین وطن بھرے ہوں گے تو وہ ہمیں نکال باہر کریں گے۔‘

’یہ لوگ اب ہمیں مناسب طبی امداد بھی نہیں دے سکتے۔ یہ شرمناک ہے، ان کو شرم آنی چاہیے۔‘

ان خدشات میں نسلی امتیاز کی جھلک بھی ملتی ہے۔ ایک شخص نے کہا کہ ’یہ لوگ کسی جنگ سے متاثرہ علاقے سے نہیں آ رہے، یہ معاشی تارکین وطن ہیں۔‘

’سب سے پہلے ہم‘

سابق مقامی میئر ٹم منرو نے مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے برے خواب سچ ہو جائیں اور ہمیں نوجوان افراد کی ایک بڑی تعداد کا سامنا کرنا ہو جن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہو گا۔‘

’وہ سارا وقت بندر گاہ پر تو نہیں گزاریں گے تو کیا کریں گے؟ میں نہیں جانتا لیکن میرے ذہن میں صرف بری چیزیں آتی ہیں۔‘

انھوں نے مجھے یاد دلایا کہ اس جزیرے پر ہزاروں نوجوان اس وقت آباد تھے جب یہاں کی بندرگاہ کا انتظام بحریہ کے پاس ہوا کرتا تھا۔ ’وہ شراب پیتے اور وہ سب کچھ کرتے جو نوجوان کرتے ہیں۔‘

اس جزیرے پر بحریہ کی رہائش گاہ کے کھنڈرات اب بھی موجود ہیں۔ یہاں 20 سال قبل 750 تارکین وطن کو ٹھہرانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا جسے مسترد کر دیا گیا۔

میں نے ٹم منرو کو یاد دلایا کہ 2012 اولمپکس کے دوران بھی اس جزیرے پر ہزاروں لوگ آئے جب پورٹ لینڈ میں سیلنگ مقابلوں کا انعقاد ہوا۔

انھوں نے جواب دیا کہ ’وہ لوگ کافی بااخلاق اور خوشگوار تھے جو شاپنگ کرتے، ٹرین پر سفر کرتے اور کوڑا کرکٹ اٹھا کر لے جاتے تھے۔‘

’وہ اولمپکس دیکھنے آئے تھے۔ اس بار ایسا نہیں۔ ہم امید کر سکتے ہیں کہ یہ لوگ بھی اچھے ہوں گے جن کا مقامی آبادی پر اثر نہیں ہو گا۔ ہمارا خدشہ انجان چیز سے ہے۔‘

’عجیب جگہ‘

نسلی امتیاز کا سامنا کرنے والا ایک گروہ تارکین وطن کو خوش آمدید کہنے کی مہم چلا رہا ہے اور مقامی لوگوں کو انسانوں کے بجائے سیاست پر توجہ دینے کا کہہ رہا ہے۔

کیرالن پارکس لیبر پارٹی کی کونسلر ہیں اور اس وقت موجودہ میئر ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم ان تارکین وطن سے ہمدردی اور عزت سے پیش آئیں گے اور ان کو خوش آمدید کہنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ان تارکین وطن کو جو رہائش دی جا رہی ہے وہ ’غیر انسانی‘ ہے۔

چارلس رچرڈز نے مجھے بتایا کہ چند ہفتے قبل ان کے گھر ایک پمفلٹ آیا جس میں مقامی لوگوں کو یاد دلایا گیا تھا کہ برطانوی بحریہ اب بھی کبھی کبھار بندرگار کو جوہری آبدوزوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔

اس ایمرجنسی پلان میں سب کو مطلع کیا گیا کہ کچھ بھی غلط ہونے کی صورت میں آئیڈین کی گولیاں جاری کی جائیں گی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پورٹ لینڈ ایک عجیب جگہ ہے۔ یہاں بہت عجیب چیزیں ہوتی ہیں۔‘