باڑہ تھانے میں زخمی ہونے والا شخص، جس نے خودکش حملہ آور کی کلاشنکوف پکڑ کر اسے روکنے کی کوشش کی

’جب میں نے خودکش حملہ آور کی کلاشنکوف پکڑ کر کہا کہ ہم معصوم ہیں، ہمیں کیوں مارتے ہو تو اس کی آنکھوں میں کوئی پشیمانی نہیں دکھائی دے رہی تھی۔‘

یہ الفاظ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر ایجنسی میں باڑہ تحصیل کے رہائشی محمد ارشد کے ہیں جنھوں نے 20 جولائی کو تحصیل بلڈنگ پر ہونے والے حملے کے دوران ایک خودکش حملہ آور سے اس کی کلاشنکوف چھین لی تھی۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ضلع خیبر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ارشد کی بہادری پر ضلعی انتظامیہ نے ان کا نام سول ایوارڈ کے لیے تجویز کیا ہے۔

بی بی سی نے محمد ارشد سے ملاقات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس دن کیا ہوا تھا-

واضح رہے کہ 20 جولائی کو خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر ایجنسی میں باڑہ تحصیل بلڈنگ پر ہونے والے حملے میں تین پولیس اہلکار ہلاک جبکہ مجموعی طور پر 11 افراد زخمی ہوئے تھے۔

اس بلڈنگ میں پولیس سٹیشن اور سی ٹی ڈی کے دفاتر سمیت ضلعی انتظامیہ کے اہم دفاتر بھی موجود ہیں اور آئی جی خیبرپختونخوا کے مطابق حملہ آوروں کا ہدف پولیس سٹیشن تھا۔

لیکن اس دن محمد ارشد اس جگہ کیوں اور کیسے پہنچے؟

باڑہ، جو پشاور سے تقریباً 12 کلومیٹر دور واقع ہے، کے بازار میں محمد ارشد فوٹو سٹیٹ اور پرنٹنگ پریس کی دکان چلاتے ہیں۔

انھیں اکثر کسی نہ کسی کام کے سلسلے میں تحصیل بلڈنگ میں واقع تھانہ میں جانا پڑتا تھا۔ ایک زمانے میں ان کی دکان تھانے کے قریب ہوا کرتی تھی اور اسی لیے پولیس اہلکاروں سے ان کی کافی جان پہچان بھی تھی۔

بعد میں انھوں نے اپنی دکان تبدیل کر لی۔ پولیس اہلکاروں سے واقفیت ہونے کی وجہ سے اب ان کے کام فون پر ہی ہو جایا کرتے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ تقریباً تین ماہ سے ان کا مذکورہ تھانے کا چکر نہیں لگا تھا تاہم اس دن ان کو ایک کام کے سلسلے میں اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ تھانے جانا تھا لیکن اس صبح جب ان کے چچا زاد بھائی وقت پر نہیں پہنچے تو محمد ارشد اکیلے تھانے کی جانب روانہ ہو گئے۔

’میں نے اپنی موٹر سائیکل سڑک کے پار ایک دوست کی دکان پر کھڑی کی اور عمارت کی جانب چل پڑا لیکن وہاں اس دن کافی سختی تھی۔ وہ کسی انجان شخص کو اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔‘

’سب میری جاننے والے تھے، اسی لیے مجھے اندر جانے دیا گیا۔‘

یاد رہے کہ 13 جولائی کو انٹیلیجنس اداروں کی جانب سے ایک’تھریٹ الرٹ‘ جاری ہوا تھا جس کے مطابق باڑہ کی تحصیل بلڈنگ پر حملہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔

عمارت میں داخل ہونے کے بعد محمد ارشد تھانے کے اندر گیٹ کے ساتھ ہی موجود ہیڈ محرر کے دفتر میں پہنچے۔

’ہیڈ محرر میرا دوست تھا۔ میں نے اس کو اپنے کام کے بارے میں بتایا تو وہ مجھے ساتھ والے ایک اور کمرے میں لے گیا۔‘

یہ تقریباً سوا گیارہ بجے کا وقت تھا۔ اسی وقت گیٹ پر تعینات کانسٹیبل طیب نے ایک اجنبی شخص کو تحصیل بلڈنگ کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہونے کی کوشش پر تنبیہ کی تو مسلح شخص نے فائرنگ کر دی۔

محمد ارشد بتاتے ہیں کہ ’ابھی ہم نے دوسرے کمرے میں پہنچ کر سلام دعا کی اور بیٹھے ہی تھے کہ ایک دم فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔‘

جس کمرے میں محمد ارشد موجود تھے، وہ گیٹ سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔

’ایسا لگ رہا تھا کہ اسی کمرے پر فائرنگ ہو رہی ہے۔ میں نے کمرے میں موجود کھڑکی کے سوراخوں سے باہر دیکھنے کی کوشش کی مگر کچھ سمجھ نہیں آیا۔‘

ابھی ارشد اور کمرے میں موجود پولیس اہلکار اسی شش و پنج کا شکار تھے کہ ایک مسلح شخص نے کمرے میں گھس کر آٹومیٹک رائفل سے ایک برسٹ مارا اور باہر نکل گیا۔

ارشد بتاتے ہیں کہ ’اس کمرے میں 10 یا 11 لوگ تھے۔‘ جیسے ہی پہلا فائر ہوا، ارشد سمیت باقی لوگ زمین پر لیٹ گئے۔

ارشد کے بازو اور ٹانگ پر گولیاں لگ چکی تھیں۔ خون بہہ رہا تھا لیکن وہ بتاتے ہیں کہ ’میرے دل میں خیال آیا کہ کچھ تو کرنا چاہیے۔ سب لوگ لیٹے ہوئے تھے۔‘

’میں نے سوچا اب وہ دوبارہ کمرے میں آ سکتا ہے۔ میں اٹھا ہی تھا کہ وہ پھر سے اندر آ گیا۔ اس نے ہاتھ میں کلاشنکوف پکڑی ہوئی تھی۔ جسم پر کافی تعداد میں میگزین بندھے ہوئے تھے۔‘

ارشد بتاتے ہیں کہ اس لمحے ان کے ذہن میں خیال آیا کہ ’شاید آج میری موت لکھی ہوئی ہے۔‘

’مجھے اپنی چھوٹی چھوٹی بیٹیوں کاخیال آیا، باقی گھر والے یاد آئے لیکن پھر اچانک سب کچھ ذہن سے نکل گیا اور یہ سوچ حاوی ہو گئی کہ اگر مرنا بھی ہے تو کچھ کرنا ہے۔‘

ارشد نے سامنے کھڑے حملہ آور کی کلاشنکوف دبوچنے کی کوشش کی۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’چونکہ مجھے گولیاں لگی چکی تھی تو حملہ آور کا زور زیادہ تھا لیکن پھر بھی میں نے ہمت نہ ہاری۔‘

ارشد کہتے ہیں کہ تین چار سیکنڈ تک زور آزمائی کر کے انھوں نے کلاشکوف چھین لی۔

’اسی زور آزمائی کے دوران میں نے اسے پشتو میں کہا ’کیوں مارتے ہو، معصوم ہیں، ہمیں کیوں مارتے ہو‘ لیکن اس کی آنکھ میں ترس نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔‘

ارشد نے جیسے ہی حملہ آور کی کلاشنکوف چھینی اس نے دائیں ہاتھ سے کچھ نکالنے کی کوشش کی۔

ارشد کہتے ہیں کہ ’مجھے لگا وہ خودکش بم کا بٹن نکال رہا ہے۔‘

’میں وہاں سے بھاگا لیکن میرے ذہن میں یہ خیال تھا کہ اب کلاشنکوف سے وہ کمرے میں موجود لوگوں کو نشانہ نہیں بنا سکے گا، کسی کو یرغمال نہیں بنا سکے گا۔‘

یہ سب کچھ چند سیکنڈز کے اندر اندر ہوا جس کے دوران کمرے سے نکلتے ہوئے ارشد تھانے کی اندرونی عمارت کی جانب بھاگے تو ان کا کہنا ہے کہ ’ایک دوسرے حملہ آور نے پیچھے سے فائر کیا جو مجھے پیٹھ پر لگا لیکن شکر ہے اس نے زیادہ نقصان نہیں کیا۔‘

ارشد کے ذہن میں یہ خدشہ بھی موجود تھا کہ ایسی صورتحال میں کوئی پولیس والا ان کو حملہ آور نہ سمجھ لے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ایسی صورتحال میں سول لوگوں پر کوئی اعتبار نہیں کرتا۔‘

لیکن ارشد خوش قسمت تھے۔ ان کو ایک جاننے والا پولیس اہلکار مل گیا جو ان کو ایک کمرے میں لے گیا۔

ابھی ارشد اس کمرے میں داخل ہی ہوئے تھے کہ ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ ارشد بتاتے ہیں کہ یہ میرا موبائل فون تھا جو ’گولیاں لگنے کی وجہ سے پھٹ گیا۔ پولیس والوں کو لگا کہ یہ ہینڈ گرنیڈ کا دھماکہ ہے۔‘

لیکن اسی لمحے خودکش حملہ آور نے بھی خود کو اڑا لیا۔

ارشد کہتے ہیں کہ ’خودکش دھماکہ اور میرے موبائل کا دھماکہ ایک ہی وقت ہوا تھا۔‘

انھوں نے کسی کے موبائل فون سے اپنے چھوٹے بھائی کو مطلع کیا کہ وہ زخمی ہو چکے ہیں۔

’پتا نہیں کس کا موبائل تھا۔ میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو فون کیا کہ حملہ ہوا ہے اور مجھے گولیاں لگی ہیں، تحصیل تھانہ میں پڑا ہوں، جلدی پہنچو۔‘

خیبرپختونخوا پولیس کے مطابق اس خودکش دھماکے کے نتیجے میں عمارت کی دیوار اور چھت کا کچھ حصہ زمین بوس ہو گیا۔

ارشد کہتے ہیں کہ اسی دوران تھانہ کلئیر ہو گیا تو ’بس پھر تسلی ہو گئی کہ بچ گیا ہوں اور دیگر ساتھی بھی بچ گئے ہیں۔ اس کمرے میں سے باقی کسی کو چوٹ تک نہیں آئی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے اپنے عمل پر کوئی پچھتاوا نہیں۔ اگر دوبارہ بھی ایسا کرنا پڑے تو پھر بھی کروں گا۔‘

’بعد میں پتا چلا کہ اگر میں اس وقت ہمت نہ کرتا تو کافی جانی نقصان ہوتا۔ اس بلڈنگ میں پولیس سٹیشن کا سٹاف اور ضلعی انتظامیہ کے دفاتر بھی ہیں۔ وہ جس ارادے سے آئے تھے وہ پورا نہیں ہو سکا۔‘

ان کے مطابق یہ سارا واقعہ پانچ منٹ سے زیادہ کا نہیں تھا۔ ’بس یہ بہادری میرے حصے میں آنی تھی۔‘

ان کو دائیں ہاتھ، ایک ٹانگ اور پیٹھ پر گولیاں لگنے کی وجہ سے کافی تکلیف ہے تاہم وہ بتاتے ہیں کہ ’تکلیف تو ہے مگر ڈاکٹروں کے مطابق ڈیڑھ دو ماہ میں صحتیاب ہو جاؤں گا۔‘

ہسپتال میں کئی پولیس والوں نے بھی ان سے مل کر شکریہ ادا کیا۔

’ہسپتال میں سب ملنے آ رہے ہیں۔ خصوصاً وہ لوگ جن کو بچایا ہے، آ کر شکریہ ادا کر رہے ہیں کہ آج آپ کی وجہ سے سانسیں لے رہے ہیں۔ اللہ نے اس کام کے لیے مجھے چنا تھا۔ اگر میں بھی اوروں کی طرح زمین پر لیٹا رہتا تو مر چکا ہوتا۔ لوگ اس وقت میری فاتحہ خوانی کر رہے ہوتے۔‘