اہم خبریں

بالی وڈ میں آج بھی رجعت پسندی اور پدر شاہی سوچ کتنی غالب ہے؟

انڈیا کی فلم انڈسٹری بالی وڈ پر مردوں کی حکمرانی کے باعث اسے ’مینز ورلڈ‘ یعنی مردوں کی دنیا کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر کافی عرصے سے آواز تو اٹھائی جا رہی ہے تاہم ایک نئی تحقیق نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ بالی وڈ کے نہ صرف سکرین پر بلکہ آف سکرین بھی صنفی مساوات کا تناسب کتنا کم ہے۔

انڈیا کی فلمی صنعت سالانہ تقریباً دو اعشاریہ ایک ارب ڈالرمالیت کی سینکڑوں فلمیں تیار کرتی ہے اور جس کے مداح نہ صرف ملک کے اندر بلکہ عالمی سطح پر بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں جو ان فلموں کو پسند کرتے ہیں۔

بالی وڈ فلموں اور اس میں کام کرنے والے ستاروں نے اپنے مداحوں کے دل و دماغ اور تخیل پر جو اثر ڈالا ہے اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اس کے باوجود حالیہ چند برسوں میں عورت سے نفرت ، صنفی تعصب کو فروغ دینے اور رجعت پسندی کے باعث بالی وڈ کی بہت سی فلموں کو تنقید کا سامنا رہا ہے۔

تو آخراتنی بڑی فلم انڈسٹری میں یہ صنفی بنیاد پر تعصب کیوں بڑھتا جا رہا ہے؟

یہی جاننے کے لیے ممبئی میں ٹِس (ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز) کے محققین نے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ ہندی سنیما پر پدر شاہی سوچ کا کتنا غلبہ موجود ہے؟

اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق میں محققین نے 2019 (کورونا کی عالمی وبا سے قبل) کی 25 سب سے بڑی باکس آفس ہٹ فلموں کا انتخاب کیا اور ساتھ ہی 2012 اور 2019 کے درمیان کی دس ایسی فلمیں منتخب کیں جن کا موضوع خواتین کی زندگی کے گرد گھومتا تھا۔

اس مدت کو منتخب کرنے کی وجہ درحقیقت یہ جاننا تھا کہ 2012 میں دلی میں طالبہ کے ساتھ بس میں ہونے والے گینگ ریپ کے بعد خواتین کے خلاف جرائم سے نمٹنے کے لیے جو سخت نئے قوانین متعارف کروائے گئے تھے اس نے خواتین کے حوالے سے موجود سوچ اور بیانیے کوکتنا تبدیل کیا۔

سنہ 2019 کی منتخب کی جانے والی کامیاب فلموں کی فہرست میں وار، کبیر سنگھ، مشن منگل، دبنگ 3، ہاؤس فل 4 اور آرٹیکل 15 شامل تھیں جبکہ خواتین کی زندگی کے موضوع پر مبنی فلموں میں رازی، کوئین، لپ اسٹک انڈر مائی برقعہ اور مارگریٹا ود اے اسٹرا سمیت دیگر شامل رہیں۔

’ایک مضبوط عورت کا کردار دیکھنے والوں کو نہیں پسند آئے گا۔‘

تحقیق کرنے والوں نے فلموں میں آنے والے تقریباً دو ہزار کرداروں کا مطالعہ کیا۔ انھوں فلموں میں کرداروں کا پیشہ اور اس کے ساتھ ساتھ فلمی مناظر میں رائج جنسی رویے، باہمی رضامندی سے جنسی تعلقات اور ہراسانی کے منظر کا بھی مطالعہ کیا۔

انھوں نے ان معلومات کو بھی تحقیق کا حصہ بنایا کہ اداکاروں کے علاوہ کتنی خواتین نے ان فلموں میں کام کیا اور اس میں کتنے کردار ہم جنس پرستوں پر مبنی تھے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ خواتین کے گرد گھومتی فلمیں خوش آئند ہے لیکن باکس آفس پر راج کرنے والی اکثریت فلموں میں جنسی تعصب، رجعت پسندی نظر آتی ہے جبکہ خواتین اور ایل جی بی ٹی کمیونٹی کی نمائندگی کم ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر، جن فلموں کا تجزیہ کیا گیا ان میں 72 فیصد کردار مردوں نے ادا کیے، 26 فیصد خواتین اور دو فیصد ایل جی بی ٹی کیو پلس اداکاروں نے ادا کیے۔

اس تحقیق کی سربراہی کرنے والی پروفیسر لکشمی لنگم کا کہنا ہے کہ بالی وڈ میں مرد اداکاروں والی فلموں میں پیسہ ہے اور فلم ساز کہتے ہیں کہ ’ایک مضبوط عورت کا کردار دیکھنے والوں کوپسند نہیں آئے گا۔‘

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کچھ مختلف کرنے کی بہت کم کوشش کی جاتی ہے کیونکہ لوگوں کے ذہنوں میں پدرشاہی رویے کہانی کو رنگ دیتے ہیں اور انھیں یقین ہوتا ہے کہ یہی چیز انھیں پیسہ دے سکتی ہے۔‘

لہٰذا وہ کہتی ہیں کہ فلم ساز اس ’فارمولے‘ پر قائم ہیں۔

خواتین کردار کو کن پیشے سے منسلک دکھایا جاتا ہے؟

انھوں نے بتایا کہ فلموں میں ’ہیرو مرد اور اعلیٰ ذات کا ہونا چاہیے۔ ہیروئن کو پتلا اور خوبصورت ہونا چاہیے۔ اسے ملنسار ہونا چاہیے اور اسے اپنی رضامندی الفاظ سے نہیں بلکہ اشاروں سے دینی ہوتی ہے جب کہ اسے شہوت انگیز نیم برہنہ لباس پہننے ہوتے ہیں۔ اسے نئے دور کا بھی دکھانا ہوتا ہے تاکہ اسے شادی سے پہلے مرد کے ساتھ تعلق رکھتے دکھایا جا سکے۔‘

فلم کے پردے پر بھی کام کو ایک صنفی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ پروفیسر لنگم نے بتایا کہ اگرچہ فلموں میں 42 فیصد خواتین مرکزی کردار ادا کرتی ہیں لیکن انھیں دقیانوسی پیشے سے منسلک دکھایا جاتا ہے۔

انھوں نے بتایا ’دس میں سے نو مردوں کے کردار طاقت سے منسلک تھے جیسے کہ فوجی افسر، پولیس اہلکار، سیاست دان اور مجرموں کا سرغنہ جبکہ خواتین زیادہ تر ڈاکٹر، نرس، استاد اور صحافی کا کردار ادا کرتے ہوئے نظر آئیں۔ دس میں سے ایک خاتون کو طاقتور کردار ملا۔‘

تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایل جی بی ٹی کیو پلس کمیونٹی سے منسلک کرداروں کی نمائندگی بہت پریشان کن ہے۔ انھیں کبھی طاقتور پیشے میں نہیں دکھایا جاتا اور اکثر ان پر جنسی لطیفے کسے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ صفر اعشاریہ پانچ فیصد کردار معذور ہوتے ہیں اور انھیں ہمدردی یا مزح کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

پروفیسر لنگم بتاتی ہیں کہ ’فلم بنانے والے کہتے ہیں وہ حقیقت ہی دکھا رہے ہیں۔ لیکن اس سے بڑھ کر بھی حقائق ہیں جو وہ نہیں دکھاتے۔ وہ اپنے خیالات کا جواز پیش کرنے کے لیے حقیقت اور افسانے کے درمیان جھولتے رہتے ہیں۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ انڈسٹری میں خواتین اور ہم جنس پرستوں کی تصویر کشی کو بدلنا چاہیے کیونکہ جو ہم سنیما میں دیکھتے ہیں اس سے اصلی زندگی پر بھی اثر پڑتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انڈیا جیسے ملک جہاں سکولوں میں کم ہی سیکس ایجوکیشن اور رضامندی کے ساتھ جنسی تعلقات کے بارے میں معلومات دی جاتی ہیں یہاں لوگ کتابوں اور سینیما سے متاثر ہوتے ہیں۔ لہذا یہ ایک تشویش کی بات ہوتی ہے جب کبیر سنگھ جیسی فلم میں مرکزی کردار ہیروئین کو آمادہ کرنے کے لیے اس کا پیچھا کرتا ہے اور ہراساں کرتا ہے۔

وہ کہتی ہیں ایسی فلمیں ’ زہریلی مردانگی کو عام سی بات بنا دیتی ہیں۔ اس لیے جب سڑک پر کسی عورت کا پیچھا کیا جاتا ہے یا ہراساں کیا جاتا ہے، تو سب کہتے ہیں کہ یہ معمول کی بات ہے۔ اور شاذ و نادر ہی کوئی اس کے خلاف کھڑا ہوتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کچھ فلموں کے پلاٹ معمول سے ہٹ کر ہیں۔ مثال کے طور پر مشن منگل میں ودیا بالن ایک راکٹ سائنسدان کا کردار ادا کرتی ہیں اور ان کا شوہر ان پر کام پر زیادہ اور گھر میں بچوں پر کم دھیان دینے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بناتا ہے تو وہ مڑ کر اس سے پوچھتی ہیں کہ کیا بچے اُس کی ذمہ داری نہیں۔

کوئین اور لپ اسٹک انڈر مائی برقعہ اُن مٹھی بھر فلموں میں شامل تھیں جن میں مرکرزی کردار خواتین اداکاراؤں نے ادا کیا اور ان کی کہانیاں طاقتور خواتین کرداروں کے گرد گھومتی تھیں۔ لیکن ایسی فلموں کی تعداد اب بھی بہت کم ہے۔

پروفیسر لنگم کہتی ہیں کہ فلمیں نئے بیانیے لا سکتی ہیں لیکن تبدیلی ایک رات میں نہیں آئے گی اسے وقت لگے گا۔

وہ کہتی ہیں کہ کورونا اور لاک ڈاؤن نے ہمیں مستقبل کا راستہ دکھا دیا ہے۔ ’معاشرے میں تبدیلی آئی ہے اور لوگ مختلف قسم کے کانٹینٹ کے ذریعے اسے دکھا رہے ہیں۔ او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر بہت سارا دلچسپ کانٹینٹ ہے جو اچھا چل رہا ہے‘