باربی ڈول چاند کے خلائی سفر کی تحقیق میں کیا کردار ادا کر رہی ہے؟

دنیا کی مشہور زمانہ گڑیا باربی کچھ بھی کر سکتی ہے۔ 2023 میں لگنے والی باربی فلم میں باربی ایک امریکی صدر، نوبیل انعام جیتنے والی سائنسدان، سپریم کورٹ کی جج حتیٰ کہ ایک جل پری کے روپ میں نظر آئیں۔ اس فلم میں باربی کئی روپ میں نظر آئیں جو اس گڑیا نے کئی دہائیوں میں اپنائے ہیں۔

ایک یادگار روپ ان کا بحیثیت خلاباز کا تھا۔ 1960 کی دہائی میں جب ابھی ناسا کے خلاباز چاند پر نہیں پہنچے تھے باربی بچوں کو اپنے ساتھ خلا کی سیر کرا رہی تھی۔ یہاں یہ دلچسپ حقیقت بھی آپ کو معلوم ہونی چاہیے کہ اس کے 13 سال بعد ناسا نے خواتین خلابازوں کو موقع دینا شروع کیا تھا۔

باربی ڈول فقط افسانوں میں ہی نہیں بلکہ حقیقت میں بھی خلائی مشنز میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ حال ہی میں سپیس سوٹ سے چاند کی دھول کو ہٹانے کے طریقوں کے تجربات کے لیے سائنسدانوں نے باربی ڈولز کا استعمال کیا۔

واشنگٹن سٹیٹ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے سپیس سوٹ پہنی باربی پر پہلے آتش فشائیں راکھ پھینکی اور پھر اس پر مائع نائٹروجن (لکوئڈ نائٹروجن) کا سپرے کیا۔ انھوں نے اس سے نتیجہ اخذ کیا کہ دھول صاف کرنے کا یہ طریقہ پہلے سے زیادہ مؤثر ہے۔

چاند کی دھول ایک مسئلہ کیوں ہے؟

واشنگٹن سٹیٹ یونیورسٹی کے گریجویٹ ریسرچر ایئن ویلز نے بی بی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ چاند کی دھول ’ہر جگہ موجود ہوتی ہے، کھردری ہوتی ہے اور برقی طور پر چارج ہوتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کے ذرات سپیس سوٹ کے ساتھ چپک جاتے ہیں اور انھیں اتارنا کافی مشکل ہوتا ہے۔

اپولو مشن کے دوران خلاباز برش کا استعمال کر کے دھول کو اتارنے میں ناکام رہے اور اس کے نتیجے میں سپیس سوٹ کے سِیلز کو نقصان پہنچا تھا۔

ایئن ویلز کہتے ہیں کہ ’اگر سِیلز پر کافی دھول لگ جائے اور رگڑ لگ جائے تو وہ سِیلز صحیح سے بند نہیں ہوں گی۔۔۔یا تو (سپیس سوٹ) لیک ہو جائے گا یا سِیل ہو گا ہی نہیں۔‘

دھول کو ہٹانے کے لیے مائع نائٹروجن کا استعمال

سپیس سوٹ کے علاوہ اگر چاند کی دھول سانس کے ذریعے پھیپھڑوں تک پہنچ جائے تو یہ کافی نقصان دہ ہوگی۔

ایئن ویلز بتاتے ہیں کہ چاند کی دھول میں سانس لینا پسے ہوئے فائبر گلاس کے ذرات میں سانس لینے کے مترادف ہے۔ مستقبل میں چاند کے سفر کی تیاریاں ابھی سے شروع ہیں ایسے میں یہ بات واضح ہے کہ سپیس سوٹ اور خلابازوں کو نقصان سے بچانے کے لیے صفائی کے نئے طریقوں کی ضرورت ہیں۔

اس مسئلے کے حل کے لیے ایئن ویلز اور واشٹگٹن سٹیٹ یونیورسٹی کے سائنسدان ’لائیڈن فراسٹ ایفیکٹ‘ پر تحقیق سے متاثر ہوئے۔

یہ موادی رجحان ایسا ہی ہے جیسے جب ایک گرم ساس پین میں پانی کا قطرہ پھینکا جائے تو وہ اپنے بخارات کی مدد سے ساس پین کی سطی پر اچھلتا ہے۔

ایئن ویلز بتاتے ہیں کہ جب انھوں نے مائع نائٹروجن زمین پر ڈالا تو انھوں نے مشاہدہ کیا کہ ہر قسم کی دھول اٹھ رہی تھی اور وہ سطح کے سب سے نچلے مقام کی طرف جا رہی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں معلوم تھا کہ یہ لائیڈن فراسٹ ایفیکٹ ہے، لیکن ہم نہیں جانتے تھے کہ یہ دھول کو کیوں اٹھا رہا ہے۔‘

ایئن ویلز اور ان کے ساتھیوں نے یہ سوچا کہ سپیس سوٹس پرمائع نائٹروجن اگر پھینکی جائے تو اس پر بھی ایسا اثر ہی ہو گا۔

بی بی سی کو انھوں نے اسے ’کریوجینک کار واش‘ کے طور پر بیان کیا، جہاں چاند کی سطح سے اپنے خلائی جہاز میں داخل ہوتے ہی خلابازوں پر مائع نائٹروجن کا چھڑکاؤ کیا جا سکتا ہے۔

سائنسدانوں کی ٹیم نے چاند جیسے ہوا کے بغیر ماحول اور عام ماحول میں اپنے مائع نائٹروجن سپرے کا تجربہ کیا۔ البتہ چاند کی دھول تک رسائی کے لیے انھیں تخلیقی ہونا پڑا۔

ایئن ویلز نے بتایا کہ ’اصلی چاند کی دھول رکھنا غیر قانونی ہے۔ ہم نے سینٹ ہیلن آتش فشاں کی راکھ کا استعمال کیا جس پر ہم تجربہ کرنا چاہتے تھے اس کی خصوصیات اُس سے کافی ملتی جلتی تھیں۔‘

مائع نائٹروجن سپرے ’لائیڈن فراسٹ افیکٹ‘ اور’بلیوی ایفیکٹ‘ کا استعمال بھی کرتا ہے۔ بلیوی ایفکٹ کی وجہ سے مائع نائٹروجن گیس میں تبدیل ہوتی ہے اور چاند کی دھول کو ارد گرد کی ہوا میں پھینک دیتی ہے۔

ایئن ویلز بتاتے ہیں کہ اس سوال کا ابھی تک جواب نہیں ملا کہ خلابازوں کے سپیس سوٹ اتارنے سے پہلے یہ دھول ہوا سے کیسے خارج کی جائے گی۔

ایئن ویلز کہتے ہیں ’ورنہ پھیپھڑوں میں جانے کا خطرہ ہو جائے گا۔‘

ایکٹا ایسٹرانیکا میں شائع کی گئی تحقیق میں بتایا گیا کہ اس سپرے نے عام ماحول میں 97 فیصد مواد ہٹایا جبکہ ویکیوم یعنی چاند جیسے ماحول میں 98.4 فیصد مواد ہٹایا۔

ابتدائی کامیابی کے بعد ایئن ویلز اور ان کے ساتھیوں نے باربی کے چھوٹے ماڈلز پر مائع نائٹروجن کا تجربہ کرنے کا ارادہ کیا۔ یہ موقع تھا جب ایک بار پھر باربی کو سپیس سوٹ پہننا پڑا۔

ایئن ویلز نے بتایا ’ہم نے باربی کو سوٹ پہنایا اور اس پر دھول پھینکی اور پھر سپرے کا استعمال کیا۔ ایک ایئر لاک میں موجود خلا باز کی طرح ہم باربی کو ہر زاویے سے موڑ سکتے تھے۔ ہم نے کافی مواد ہٹایا اور سب سے اہم بات تھی کہ سپیس سوٹ کو کم سے کم نقصان ہوا۔‘

’روزی‘ باربی اب ریٹائر ہو گئی ہے

ایئن ویلز کے مطابق واشنگٹن سٹیٹ یونیورسٹی کی ٹیم نے اپنی باربی کا نام ’روزی‘ رکھا۔ یہ نام امریکی شخصیت ’روزی دی ریویٹر‘ کے نام پر رکھا۔ روزی نے دوسری جنگ عظیم کے دوران فیکٹری میں ملازمت کرنے والی خواتین کی تشہیری مہم میں نمائندگی کی تھی۔

ایئن ویلز بتاتے ہیں کہ ’ذاتی طور پر میں اس کا نام باربی کے نام پر بارب رکھنا چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ اپنی ذاتی آئڈیل باربرا مورگن کے نام پر۔ وہ میری آبائی ریاست ایڈاہو سے تعلق رکھنے والی خلاباز تھیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ مورگن جیسی خلاباز باربی کے مستقبل کے ارتقائی عمل پر اثر انداز ہوں گی۔

2022 میں دو ’سپیس ڈسکوری باربیز‘ خلا میں گئیں اور انھوں نے بین الاقوامی سپیس سٹیشن پر وقت گزارا۔ تحقیق کے اگلے مرحلے میں امید کی جا رہی ہے کہ چاند کے ماحول کی بہتر نقل میں تجربہ کیا جائے گا۔ جس میں چاند کی دھول میں موجود سٹیٹک چارج کی نقل بھی کی جائے گی۔

ایئن ویلز کا کہنا ہے کہ انھیں امید ہے کہ مائع نائٹروجن سپرے کے طریقے کا تجربہ چاند پر باربی کے بجائے اصلی خلاباز پر کیا جائے گا۔

ایئن ویلز نے بتایا کہ ’باربی ہمارے ہی پاس ہے اور ہم اسے کانفرنسز پر لے کر جاتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا وہ مزید تجربوں میں حصہ لے گی۔ میرے خیال سے اس نے اپنا کام کر لیا ہے۔ لیکن ہم یقیناً اصلی خلابازوں کی جانب دیکھیں گے۔‘

روزی باربی مستقبل کے تجربات میں حصہ لینے سے تو ریٹائر ہو گئی ہے لیکن اس تحقیق میں ان کا کردار ہمیں یہ دکھاتا ہے کہ کیسے ایک پلاسٹک کا کھلونا بھی مستقبل کے خلائی سفر میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔