اہم خبریں

ایٹم بم کے خالق اوپن ہائیمر پر بنی ہالی وڈ فلم کے ایک سین پرانڈیا میں ہندو چراغ پا کیوں ہیں؟

انڈیا کے سینما گھروں میں ریلیز ہونے والی کرسٹوفر نولان کی فلم ‘اوپن ہائیمر’ اپنی ریلیز کے چوبیس گھنٹے کے اندر ہی تنازعات کا شکار ہو گئی ہے۔

فلم کے ایک سین میں مرکزی اداکار ایک ’سیکس سین‘ کے دوران سنسکرت زبان میں ایک جملہ ادا کرتے ہیں۔ اس منظر کا انڈین سوشل میڈیا پر شور ہے۔

خبر رساں ادارے پی ٹی آئی نے فلم دیکھنے والے لوگوں کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ یہ جملہ ہندوؤں کی مقدس کتاب بھگوت گیتا سے لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سین کو فلم سے ہٹا دینا 

جمعہ کو ریلیز ہونے والی اس فلم نے باکس آفس پر اچھی کمائی کی ہے اور اسے ناقدین کی جانب سے سراہا جا رہا ہے۔ فلم کے بزنس پر نظر رکھنے والوں کے مطابق اس فلم نے پہلے دو دنوں میں 30 کروڑ روپے کی کمائی کی ہے۔

متنازعہ منظر اور احتجاج

فلم کے ایک منظر میں اوپن ہائیمر کا کردار ادا کرنے والے سیلیئن مرفی ماہر نفسیات جین ٹیٹلر (فلورنس پگ) کے ساتھ ایک سیکس سین میں نظر آتے ہيں۔ اس سین کے دوران جین ایک کتاب اٹھاتی ہیں اور اوپن ہائیمر سے پوچھتی ہے کہ یہ کس زبان میں لکھی گئی ہے۔

وہ اوپن ہائیمر سے کتاب کا ایک صفحہ پڑھنے کو کہتی ہے۔ جین کے کہنے پر اوپن ہائیمر پڑھتے ہیں: ’میں اب کال ہوں جو دنیاؤں کو تباہ کرتا ہے۔‘

اس منظر میں یہ تو نظر نہیں آتا کہ جین نے جو کتاب اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے اس کا نام کیا ہے، لیکن جو صفحہ وہ کھول کر پڑھتے ہیں اس پر سنسکرت جیسا کچھ لکھا نظر آتا ہے۔

سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ سطریں بھگوت گیتا کی ہیں۔

انڈین حکومت کے انفارمیشن کمشنر ادے ماہورکر نے فلم کے ڈائریکٹر کرسٹوفر نولان کو کھلا خط لکھ کر اپنے احتجاج کا اظہار کیا ہے۔ ماہورکر ’سیو کلچر سیو انڈیا فاؤنڈیشن‘ کے بانی بھی ہیں۔

انھوں نے فلم کے متنازع منظر کو ’ہندوتوا پر حملہ‘ قرار دیا ہے اور نولان سے اس سین کو ہٹانے کے لیے کہا ہے۔

انھوں نے لکھا: ’لاکھوں ہندوؤں اور مقدس گیتا سے زندگی میں تبدیلی لانے والوں کی جانب سے ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ اس مقدس کتاب کے وقار کو برقرار رکھیں اور پوری دنیا سے اس فلم کے متنازع سین کو ہٹائیں۔ اس اپیل کو نظر انداز کرنے کو ہندوستانی تہذیب کی دانستہ توہین تصور کیا جائے گا۔ ہم آپ سے اس پر جلد از جلد عمل کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔‘

ایٹم بم کے خالق‘ کہے جانے والے اوپن ہائیمر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے سنسکرت زبان سیکھی تھی اور وہ بھگوت گیتا سے متاثر تھے۔

فلم کے بائیکاٹ کی اپیل

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق فلم کو سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن (سی بی ایف سی) نے یو/اے ریٹنگ دی ہے۔ فلم کا دورانیہ کم کرنے کے لیے کچھ مناظر کو ہٹا دیا گیا ہے جس کے بعد 13 سال سے زیادہ عمر کے بچے بھارت میں یہ فلم دیکھ سکتے ہیں۔

امریکہ میں اسے آر۔ ریسٹرکٹڈ (محدود) ریٹنگ ملی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اگر کسی کی عمر 17 سال سے کم ہے تو اس کے ساتھ فلم دیکھنے کے لیے کسی سرپرست یا بالغ کا ہونا ضروری ہے۔

یہ کرسٹوفر نولان کی پہلی ’آر‘ ریٹیڈ فلم ہے۔

ماہورکر نے فلم کے سرٹیفیکیشن پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ سی بی ایف سی نے اس سین کے ساتھ فلم کی نمائش کی اجازت کیسے دی؟

سی بی ایف سی کے چیئرپرسن پرسون جوشی اور سینسر بورڈ کے دیگر ارکان نے ابھی تک اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

ادھر کچھ لوگوں نے انڈیا میں فلم کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے۔

ایک صارف نے سوشل میڈیا پر لکھا: ’مجھے معلوم ہوا کہ فلم میں ایک متنازع سین ہے جس میں بھگوت گیتا کو بھی شامل کیا گيا ہے۔ میں یہاں دہرانا نہیں چاہتا لیکن یہ ایک قابل اعتراض سین ہے۔ آپ ہندوتوا کو مثبت اور درست طریقے سے دکھانے کے لیے ہالی وڈ یا مغرب پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔

ایک اور صارف نے لکھا کہ ’ہندو اس بات سے خوش ہیں کہ اوپن ہائیمر نے بھگوت گیتا کا ذکر کیا ہے، لیکن وہ ناراض ہیں کیونکہ ہالی وڈ نے گیتا کی کھلے عام بے عزتی کی ہے۔ جنسی تعلقات کے دوران مقدس سطروں کو پڑھنا بے عزتی اور نسلی امتیاز ہے۔ فلم کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔‘

کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کرسٹوفر نولان فلم میں کہیں بھی گیتا کا سین ڈال سکتے تھے لیکن انھوں نے اس سین کا ہی انتخاب کیوں کیا۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اوپن ہائیمر گیتا سے متاثر تھے، لیکن اس منظر میں اسے دکھانا ضروری نہیں تھا۔

ایک اور شخص نے لکھا کہ وہ اوپن ہائیمر کے بجائے کنّڑ (زبان) سنیما دیکھنا چاہیں گے۔

اس صارف نے لکھا: ’ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ اوپن ہائیمر ایک شاہکار ہے لیکن یہ جاننے کے بعد کہ بھگوت گیتا کا ایک جنسی منظر میں ذکر ہے، میں نے سوچا کہ میں کنّڑ فلم دیکھوں۔‘

ایک اور صارف نے لکھا کہ فلم کے ایک سین میں ایک برہنہ لڑکی بھگوت گیتا لاتی ہے اور اوپن ہائیمر سیکس کے دوران اس کی چند سطریں پڑھتے ہیں۔ یہ منظر بہت ذلت آمیز ہے۔

فلم کی تشہیر کے دوران سیلیئن مرفی کا کہنا تھا کہ انھوں نے فلم کی تیاری کے دوران گیتا پڑھی تھی۔ انھوں نے کہا کہ یہ کتاب ’بہت خوبصورتی سے لکھی گئی‘ اور متاثر کن ہے۔

یونیورسل پکچرز کی فلم میں سیلیئن مرفی اور فلورنس پگ کے علاوہ رابرٹ ڈاؤنی جونیئر، میٹ ڈیمن، ایملی بلنٹ، جوش ہارٹنیٹ، کیسی ایفلیک، رامی مالک، اور کینتھ برانا شامل ہیں۔