اہم خبریں

’اچانک تیز ہوا چلی اور صحن میں کھیلتے بچوں پر دیوار گِر گئی‘

’میرے دو کمسن بچے گھر کے صحن میں کھیل رہے تھے۔ ان کی ماں کسی کام میں مصرف تھیں اچانک تیز ہوا چلی اور دونوں گھر کی چار دیواری کے نیچے دب گئے۔‘

یہ کہنا ہے اختر عمر کا جن کے دونوں بچے سدرہ اور آفتاب سنیچر کے روز صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کے علاقے شمئی جل میں تیز آندھی اور بارش سے دیوار گرنے سے ہلاک ہوئے۔

اختر عمر نے بتایا کہ ’میں قریب ہی موجود تھا، ہمارے پڑوسی تیز بارش اور آندھی میں ہماری مدد کو پہنچے، انھوں نے بچوں کو دیوار تلے سے نکالا مگر وہ اس سے پہلے ہی دم توڑ گئے تھے۔

روتے ہوئے اختر عمر نے یہ بتایا کہ ’میرا ہنستا بستا گھر اجڑ گیا ہے۔ اب ان کے کفن دفن کا انتظام کررہے ہیں۔‘

صوبہ خیبر پختونخوا میں سنیچر کے روز کی آندھی، طوفانی بارش اور ژالہ باری سے کم از کم 27 افراد ہلاک ہوئے ہیں اور 60 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔

پاکستان میں ہنگامی حالات سے نمٹنے والے ادارے ریسیکو 1122 نے ان ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔

بنوں میں ریسکیو کے ترجمان ابرار طارق نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ صرف بنوں میں اب تک 22 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ریسیکو 1122 کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق لکی مروت میں تین اور کرک میں دو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

سب سے زیادہ ہلاکتیں ابھی تک بنوں میں ہوئی ہیں اور ریسیکو 1122 کے مطابق اس تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔ ریسکیو اہلکاروں کے مطابق اس طوفان میں بیشتر ہلاکتیں دیواریں اور چھتیں گرنے سے ہوئی ہیں۔

اس وقت متعدد اضلاع میں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں اور زخمیوں کی طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔

ایسا طوفان اور بارش پہلی نہ دیکھی

ناصر خان بنگش چالیس سالہ تاجر رہنما ہیں دوپہر کے وقت یہ بنوں شہر میں تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ صبح اور دوپہر کے وقت بنوں میں شدید گرمی تھی۔ ہوا بالکل نہیں چل رہی تھی۔ بہت زیادہ حبس ہوچکی تھی۔ دوپہر میں آسمان پر بادل چھانا شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر کالے بادل چھا گے تھے۔ ایسے لگ رہا تھا کہ دن میں رات ہوگئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی ساڑھے تین بجے کا وقت ہوگا۔ ایک دم تیز بارش کے ساتھ ژالہ باری شروع ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہوائیں بھی چل رہی تھیں۔ بارش اتنی تیز تھی کہ پوچھو نہ میں نے تو اس سے پہلے بنوں میں اتنی شدید بارش، ہوائیں اور ژالہ باری نہیں دیکھی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بارش کوئی ایک گھنٹہ تک جاری رہی۔ بارش اور ہوا کے آغاز ہی میں گھروں، دکانوں، پلازوں کی چھتوں پر لگے ہوئے سولر پینل ہوا کے ساتھ زمین بوس ہوگے تھے۔ بنوں میں بجلی کی فراہمی بہت کم ہونے کی وجہ سے بڑی تعداد میں سولر پینل لگے ہوئے تھے۔

ناصر خان بنگش کا کہنا تھا کہ ہر کوئی اپنی اپنی جگہ پر دبک کر بیٹھ گیا تھا۔ بارش اور ہواؤں کے دوران ہی میں اطلاعات ملنا شروع ہوگئیں تھیں کہ کئی مقامات پر درخت اکھڑ چکے ہیں۔ لوگوں کی چھتیں اور دیواریں گر چکی ہیں۔ کئی مقامات پر روڈ بند ہوگئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک گھنٹے کی بارش نہیں بلکے قیامت تھی جس نے بنوں کا نقشہ بدل دیا ہے۔ ہم لوگ جب بارش کے بعد ہسپتال گئے تو راستے میں تباہی و بربادی تھی۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت راستے صاف کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ اتنی زیادہ بارش اور ہواؤں سے ہمارا خدشہ تھا کہ جانی نقصاں زیادہ ہوگا مگر شکر ہے کہ اتنا نہیں ہوا کیونکہ لوگ اپنی مدد اپ کے تحت زخمیوں کو ہسپتالوں میں پہنچا رہے تھے۔

’ہسپتال میں کہرام مچا ہوا تھا‘

محمد جلال شاہ ایڈووکیٹ الخدمت فاؤنڈیشن ضلع بنوں کے صدر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کوئی ساڑھے تین بجے کے قریب بہت تیز آندھی چلی، یہ بہت تیز تھی۔ اس وقت میں الخدمت ہسپتال بنوں میں تھا۔ ہمارے بنوں ہسپتال کا سائن بورڈ بھی اس میں ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اڑ گیا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ آندھی کوئی دس، پندہ منٹ چلی ہوگی مگر مت پوچھیں کہ کتنی تیز تھی۔ اس کے ساتھ بارش اور ژالہ باری کا سلسلہ جاری رہا تھا۔ بارش کا سلسلہ ابھی تھما ہی نہیں تھا کہ بنوں کے مختلف علاقوں سے جانی و مالی نقصانات کی اطلاعات ملنا شروع ہوگئیں تھیں۔

جلال شاہ کا کہنا تھا کہ ہم لوگ ہسپتال پہنچے تو وہاں پر عوام کا جم غفیر تھا۔ وہاں پر لاشیں اور زخمی لائے جا رہے تھے۔ مختلف مقامات سے اطلاعات موصول ہو رہی تھیں کہ زخمیوں کو ایمبولینس کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر نجی، سرکاری اور الخدمت فاؤنڈیشن کی چار ایمبولینسز حرکت میں آئیں تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بڑا حادثہ تھا اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ حادثہ بڑا اور طبی عملہ کم تھا مگر انھیں عوام اور رضا کاروں کی مدد حاصل ہوگئی تھی، جس کی وجہ سے زخمیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے علاوہ ڈسڑکٹ ہسپتال سے خلیفہ نواز ہسپتال اور پشاور منتقل کرنے میں مدد ملی تھی۔

جلال شاہ کا کہنا تھا کہ زخمیوں میں زیادہ تر کو سر اور دماغ پر چوٹ لگی تھی، جس کی وجہ سے اکثر بے ہوش تھے۔ ان کو ہر صورت میں فوری طبی مدد کی ضرورت تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ رات بارہ بجے کے بعد بھی زخمی افراد ہسپتال میں لائے جا رہے تھے جس سے خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ مجموعی نقصان ابتدائی اندازوں سے بہت زیادہ ہے۔

بنوں میں ہوا کیا؟

محکمہ موسمیات پشاور کے مطابق سنیچر کے روز دوپہر کے وقت بنوں میں 27 ملی میٹر بارش اور چالیس ناٹ ہوا چلی ہے۔

پشاور میں بارش نہیں ہوئی مگر 26 ناٹ ہوا چلتی رہی۔ ایبٹ آباد 38 ملی میٹر بارش، 32 ناٹ ہوا اور ژالہ باری ہوئی۔ سیدو شریف 30 ملی میٹر بارش 26 ناٹ ہوا چلی تھی اور46 ملی میٹر بارش ہوئی۔

محکمہ موسمیات پشاور کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد فہیم کے مطابق محکمہ موسمیات کی سنیچر سے متعلق یہ پیش گوئی تھی کہ خیبر پختونخوا کے کچھ علاقوں میں تیز بارش کے ساتھ آندھی اور طوفان آسکتا ہے۔ اس کی وجہ گذشتہ چند دنوں سے گرمی کی زیادہ شدت بتائی گئی تھی۔ ان کے مطابق ’پری مون سون‘ میں جب گرمی کی شدت میں اضافہ ہو، حبس پیدا ہوجائے تو موسم میں زیادہ انرجی پیدا ہوتی ہے جو پھر بارش، آندھی طوفان کی صورت میں نکلتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ مغربی ہوائیں بھی تھیں۔ جب مغربی ہوائیں چلیں تو موسم غیر معمولی ہوجاتا ہے اور اس سے نقصان کا خدشہ بھی رہتا ہے۔

ڈاکٹر محمد فہیم کا کہنا تھا کہ بنوں کا علاقہ میدانی علاقہ ہے۔ وہاں پر چلنے والی ہوا کو کوئی رکاوٹ نہیں ملتی جس طرح پہاڑی علاقوں میں ہوتی ہے جب وہاں پر چالیس ناٹ کی ہوا چلے گی تو رکاوٹ کے بغیر تیزی سے سفر کرتی رہے گئی، جس کا دباؤ کچے انفرسٹرکچر کے لیے برداشت کرنا ممکن نہیں رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ بنوں میں تقریباً ایک گھنٹہ کے دورانیہ میں 27 ملی میٹر کی بارش کافی زیادہ ہے، جس کا مطلب تیز بارش اور ہوا ہے۔ جس سے کچا انفراسٹرکچر زیادہ دباؤ برداشت نہیں کرسکا تھا جبکہ اس کے مقابلے میں ایبٹ آباد اور سوات نے بارش اور ہوا کی شدت کو برداشت کیا۔

ڈاکٹر محمد فہیم کے مطابق لکی مروت میں بھی اس طرح کی صورتحال رہی ہے مگر ہمارے پاس وہاں پر مانیٹر کرنے کے لیے سسٹم موجود نہیں۔ یہ صورتحال موسمی تبدیلی کی ہے، جس میں یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم ایک ماہ کی بارش ایک دن یا چند گھنٹوں میں برس جاتی ہے۔

’آندھی کی پیش گوئی موجود تھی، کچے اور کمزور انفراسٹرکچر نقصان کا باعث بنے‘

محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر ظہیر بابر نے بی بی سی کی نامہ نگار آسیہ انصر سے بات کرتے ہوئے یہ تصدیق کی کہ بنوں سمیت خیبرپختونخوا کے بعض علاقوں میں شدید آندھی اور بارش کے حوالے سے بتایا ہے کہ محکمہ موسمیات کی پیش گوئی موجود تھی تاہم بعض دفعہ محدود علاقے میں موسمی صورت حال شدت احتیار کر جاتی ہے جس کو پہلے سے شناخت نہیں کیا جا سکتا۔‘

ڈائریکٹر محکمہ موسمیات ظہیر بابرنے بی بی سی کو بتایا ’کافی دنوں سے درجہ حرارت بڑھے ہوئے تھے جس کے باعث یہ پیش گوئی موجود تھی کہ پنجاب، خطہ پوٹھوہار، اسلام آباد،خیبر پختونحوا اور بلوچستان میں بعض مقاماتپر آندھی اور گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے اور چند مقا مات پر ژالہ باری بھی ہو سکتی ہے۔‘

ڈائریکٹر محکمہ موسمیات ظہیر بابر کے مطابق ’عام طور پر مون سون سے پہلے ڈسٹ سٹارم(آندھی) کے امکانات ذیادہ ہوتے ہیں کیونکہ درجہ حرارت بڑھا ہوا ہوتا ہے اس دوران آندھی کتنی شدت اختیار کر جائے گی، یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہوتا ہے۔

ان کے مطابق ’آندھی کی وجہ سے کچے اور کمزور انفراسٹرکچر نقصان کا باعث بن جاتے ہیں اور یہی کچھ آج ہوا۔‘

ڈائریکٹر محکمہ موسمیات کے مطابق ’آنے والے چند دنوں میں بھی موسم گرم اور خشک رہے گاجس سے دن کے اوقات میں شدید گرمی پڑے گی جبکہ خیبرپختونحوا، اسلام آباد اور پنجاب کے بعض میدانی علاقوں میں شام اور رات کے وقت آندھی اور بعض مقامات پر گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان موجود ہے۔‘

محکمہ موسمیات کے مطابق خیبرپختونخوا میں ان دنوں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے ذیادہ تھا اور اس کے تناظر میں پیش گوئی موجود تھی۔

محکمہ موسمیات کے مطابق جس وقت بنوں میں آندھی آئی اس وقت ہوا کی رفتار 40 ناٹ یا تقریبا 75 کلو میٹر فی گھنٹہ تھی جبکہ وہاں 27 ملی میٹر بارش بھی ریکارڈ کی گئی۔