اپنے چار بچوں کے قتل کے جرم میں 20 سال جیل میں گزارنے والی ماں جن کی رہائی سائنس کی بدولت ممکن ہوئی

کیتھلین فولبیگ نامی خاتون کو بہت سے ناموں سے پکارا جاتا ہے: جیسا کہ ’بچے کی قاتل‘، ’ڈائن‘ اور ’آسٹریلیا کی بدترین ماں۔‘

اپنے چار بچوں کو قتل کرنے کے جرم میں انھوں نے گذشتہ 20 سال قید میں گزارے ہیں۔ اور 20 سال کی قید کے بعد انھیں اب عدالت نے معافی دے دی ہے اور رہائی کے وقت انھوں نے کہا کہ وہ عدالت کی ’انتہائی شکرگزار‘ ہیں۔

ان کے وکلا نے رہائی کے فیصلے کے بعد کہا ہے کہ ان کو ناکردہ جرم میں سزا سنایا جانا آسٹریلیا کی عدالتی تاریخ کی بدترین مثال ہے، جو ظاہر کرتی ہے کہ کیسے سنہ 2003 میں انھیں ناقابل اعتبار ثبوتوں کی بنیاد پر مجرم قرار دیا گیا۔

یہ ایک ایسا کیس تھا جس نے دنیا بھر کے میڈیا میں ایک ہیجان کی سی فضا پیدا کر دی تھی اور پھر وہ وقت بھی آیا جب دنیا نے کیتھرین فولبیگ کے شوہر کو اس مقدمے کی سماعت میں اپنی اہلیہ کے خلاف گواہی دیتے ہوئے بھی دیکھا۔

اصل سزا کا دوبارہ جائزہ لینا

کیتھلین فولبیگ نے ہمیشہ سے ہی اپنے آپ کو ’بے گناہ‘ قرار دیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بچپن سے ہی انھوں نے انتہائی بدحال اور پریشان زندگی گزاری ہے۔

ان کی دوسری سالگرہ سے پہلے، اُن کے والد نے کیتھلین کی والدہ کو چھرا گھونپ کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس کے بعد کے چند برسوں میں انھوں نے اپنا بچپن کبھی ایک رشتہ دار تو کبھی دوسرے رشتہ دار کے گھروں میں گزارا۔ اس کے بعد نیو ساؤتھ ویلز کے ایک جوڑے کے ہاں ان کی پرورش ہوئی۔

یہ ایک ایسا واقعہ ہے جسے بعد میں استغاثہ نے ان کے بچوں کے قتل کے مقدمے کی سماعت کے دوران کیتھلین فولبیگ کے خلاف استعمال کرتے ہوئے یہ دلیل دی کہ وہ بچپن ہی سے تشدد کا شکار رہی تھیں یا تشدد سے آشنا تھیں۔

سنہ 2003 میں انھیں اپنے بچوں سارہ، پیٹرک اور لاورا کے قتل کے ساتھ ساتھ اپنے پہلے بیٹے کالیب کے اقدامِ قتل کے الزام میں 40 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

ان کے چاروں بچے سنہ 1989 سے سنہ 1999 کے دوران اچانک انتقال کر گئے تھے۔ ان بچوں کی عمریں 19 دن اور 18 ماہ کے درمیان تھیں۔ پراسیکیوٹرز نے الزام لگایا کہ کیتھلین نے ان کو دم گھونٹ کر قتل کیا تھا۔

ان کے ایک بچے کالیب کی 1989 میں نیند میں موت ہو گئی، جو لیرینگومالاسیا میں مبتلا تھا، ایک ایسی حالت جس سے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔

پیٹرک، جسے کارٹیکل بینائی (اندھا پن) اور مرگی کے دورے پڑتے تھے، دورہ پڑنے کے فوراً بعد ہی اس کی موت ہو گئی۔ سارہ اور لورا دونوں سانس کے انفیکشن میں مبتلا تھیں ان کی بھی موت ہو گئی۔

40 سال قید کی سزا کے خلاف اپیل کے نتیجے میں کیتھلین کی سزا کم کر کے 30 سال کر دی گئی اور اس کے بعد کی جانے والی اپیلوں میں انھیں کوئی ریلیف نہیں مل سکا۔ سنہ 2019 میں کیس کی دوبارہ انکوائری کے دوران صرف اُن شواہد کو زیادہ اہمیت دی جو انھیں مجرم قرار دینے کے لیے استعمال کیے گئے تھے۔

تاہم اس ہفتے ریٹائر ہونے والے جج ٹام باتھرسٹ کی سربراہی میں ایک تازہ انکوائری نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کیتھلین فولبیگ پر لگنے والے الزامات پر معقول شکوک و شبہات موجود ہیں۔

نئے سائنسی شواہد کی وجہ سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ ان کے بچے ناقابل یقین حد تک جینیاتی خرابیوں کی وجہ سے قدرتی وجوہات کی وجہ سے مر سکتے تھے۔

اس تحقیق کی سربراہی آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی میں امیونولوجی اور جینومک میڈیسن کی پروفیسر کیرولا وینوسا نے کی۔ طبی ماہرین کے بڑھتے ہوئے خدشات کے درمیان انھوں نے سب سے پہلے 2018 میں اس کیس پر تحقیقات شروع کی۔

کیتھلین کے ڈی این اے کو ترتیب دینے کے بعد، پروفیسر وینیسا اور ان کی ٹیم نے ایک جینیاتی نقشہ بنایا، جسے وہ مسخ شدہ جین کی شناخت کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ان میں سب سے اہم مسخ شدہ جین ان کی دو بیٹیوں میں موجود تھیں جسے CALM2 G114R کہا جاتا ہے۔

حیرت انگیز طور پر، تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ ہر 35 ملین افراد میں سے ایک میں پایا جاتا ہے، اور دل کی سنگین بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ CALM G1142R جینیاتی تغیر خلیات میں کیلشیم کے یونٹس کی گردش میں مداخلت کر سکتا ہے، جو بالآخر دل کی دھڑکن بند کر سکتا ہے۔

پروفیسر وینیسا کی ٹیم کی تحقیق نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ان کے دو بچوں کالیب اور پیٹرک میں ایک مختلف جینیاتی تغیر پایا گیا، جو مرگی سے منسلک تھا۔ نتائج سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے بچوں کے دل کی خرابی سے مرنے کے امکانات بچپن میں ہی بہت زیادہ تھے۔

ایک نیا انکشاف اور دیگر خامیاں

یہ اس وقت کی بات ہے جب کیتھلین نے اپنی ایک بیٹی لورا کی ہلاکت ہو رہی تھی۔

اپنے گھر سے انھوں نے ایمبولینس ایمرجنسی سروس کو کال کر کے بتایا تھا کہ ’میری بچی سانس نہیں لے رہی ہے۔‘

ایمبولینس آپریٹر سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے ہی میرے تین بچوں کی اچانک موت ہونے کے واقعات ہو چکے ہیں۔‘ ان کی یہ ریکارڈنگ بعد میں ان کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران چلائی گئی۔

لورا کی موت کا مطلب یہ تھا کہ فولبیگ اور ان کے شوہر کریگ فولبیگ اپنے تمام بچے کھو چکے تھے یعنی یہ مرنے والی ان کی چوتھی اولاد تھی۔

ابتدائی طور پر تفتیش کی غرض سے اُن کے شوہر کو گرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتاری کے بعد جلد ہی انھوں نے پولیس کو اپنی بیوی کے خلاف باتیں بتانی شروع کر دیں جس کی بنیاد پر پولیس کے شبہات بڑھتے گئے اور ان کے خلاف کیس بنانے لگے۔

انھوں نے پنی بیوی کی ذاتی ڈائریوں کے حوالے دینے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف گواہی دینے میں مدد کرنا شروع کر دی تھی۔

کیس کی 2019 کی دوبارہ انکوائری کے دوران، انھوں (شوہر) نے اپنا ڈی این اے کا نمونہ فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ مسٹر فولبیگ کے وکلا کا کہنا ہے کہ وہ آج تک اپنی سابقہ بیوی کے جرم پر قائل ہیں۔

سنہ 2003 کے مقدمے میں استغاثہ کی بنیادی دلیل یہ تھی کہ یہ ایک حادثاتی امکان نہیں تھا کہ کیتھلین کے اتنے زیادہ بچے حادثاتی طور پر مر گئے ہوں۔

اپنے استدلال میں، انھوں نے ایک قانونی تصور کا حوالہ دیا جسے ’میڈو کے قانون‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جسے اب بدنام قانون قرار دیا جاتا ہے۔

اس اصول کا نام رائے میڈو کے نام پر رکھا گیا ہے، جنھیں کبھی برطانیہ کا سب سے نامور ماہر اطفال کہا جاتا تھا۔ لیکن ان کے نظریے پر بھروسہ کرنے والے مقدمات میں غلط سزاؤں کے بعد اب عدالتی نظام میں اس اصول کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔

ایما کنلف، برٹش کولمبیا یونیورسٹی میں قانون کی پروفیسر ہیں جنھوں نے مس فولبیگ کے کیس کی جانچ کرتے ہوئے ایک کتاب لکھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میڈو کے قانون کو اپنے آغاز سے ہی ’طبی تحقیق کے حوالے سے بہت زیادہ چیلنج کا سامنا تھا‘ اور ’ہمیشہ اس اصول سے متصادم تھا کہ کسی بھی معقول شک سے بالاتر ہو کر جرم کو ثابت کرنے کی ذمہ داری ریاست پر ہوتی ہے۔‘

کنلف وضاحت دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’دولت مشترکہ کے ممالک میں ایک خاندان میں بچوں کی موت کے انداز کے بارے میں شک کی بنیاد پر ماؤں پر الزام دینے کا رواج، کم و بیش 2004 کے بعد مکمل طور پر ختم ہو گیا۔‘

فولبیگ کے مقدمے میں یہ واحد خامی نہیں تھی۔ استغاثہ کی جانب سے استعمال کیے گئے شواہد مکمل طور پر حالات پر مبنی تھے، جن کا انحصار فولبیگ کی ذاتی ڈائریوں کے حوالوں پر تھا اور جن کا کبھی بھی ماہر نفسیات یا سائیکاٹرسٹ نے مقدمے کے دوران جائزہ نہیں لیا تھا، کہ انھیں ایک ایسی ماں کے طور پر ظاہر کیا جا سکے جو غصیلی ہے اور جس کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں۔

ان کی ڈائری کے ایک حوالے میں جو انھوں نے اپنی بیٹی لاورا کے جنم کے کچھ ہی عرصے بعد سنہ 1997 میں لکھا تھا، ’ایک دن (وہ) چھوڑ جائے گی۔ دوسروں نے ایسا کیا، لیکن یہ ان کی طرح نہیں جائے گی۔ اس بار میں تیار ہوں اور جانتی ہوں کہ اپنے آپ پر نظر رکھنے کے لیے مجھے کیا کرنا ہے۔‘

ڈائری میں لکھی گئی اس طرح کی باتوں کو ’جرم کا اعتراف‘ قرار دیا گیا تھا۔ لیکن اس کیس کی 2022 کی انکوائری میں، نفسیاتی اور ذہنی ماہرین نے اس تصور کو مسترد کر دیا تھا۔

این ایس ڈبلیو کے اٹارنی جنرل مائیکل ڈیلی نے رواں ہفتے فولبیگ کی معافی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈائری میں درج حوالوں کا جائزہ لینے کے بعد شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک افسردہ ماں کی تحریریں تھیں، جو ہر بچے کی موت کے لیے خود کو ذمہ دار ٹھہراتی ہیں، جیسا کہ یہ اس اعتراف سے مختلف ہے کہ اس نے انھیں قتل کیا یا کسی اور طرح سے نقصان پہنچایا۔‘

پروفیسر کنلف کا استدلال ہے کہ 2003 میں بنیادی طور پر فولبیگ کی سزا کا انحصار ’غلط پدرانہ سوچ‘ اور ’خواتین کے بارے میں دقیانوسی تصورات‘ پر تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ایک فوجداری مقدمے میں جب ماں پر بچوں کو نقصان پہنچانے کا شبہ ہوتا ہے، تو اچھی ماں بننے کا تصور بہت زیادہ تنگ ہو جاتا ہے، اس لیے جن رویوں کو دنیاوی طور پر دیکھا جاتا ہے، انھیں مشکوک قرار دیا جاتا ہے۔‘

پروفیسر کنلف نے مزید کہا کہ استغاثہ نے ’امتیازی وجوہات‘ کا استعمال کرتے ہوئے فولبیگ کو ایک غیر موزوں ماں کے طور پر دکھایا، تاکہ اسے قاتل کے طور پر پیش کیا جا سکے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ وہ ہفتہ کی صبح سارہ کو گھر والوں کے ساتھ چھوڑ کر پارٹ ٹائم جاب پر کام کرنے جا رہی تھی تاکہ گھر کے لیے زیادہ پیسے کمائے جا سکیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ سارہ سے محبت نہیں کرتی تھی، اس کی دیکھ بھال نہیں کرنا چاہتی تھی اور اس وجہ سے سارہ کو قتل کر سکتی تھیں۔‘

’20 سالوں میں پہلی بار سکون کی نیند‘

اپنی رہائی کے بعد ایک ویڈیو بیان میں فولبیگ نے کہا کہ وہ معافی ملنے پر ’شکر گزار ‘ہیں، لیکن وہ اپنے چار بچوں کے لیے ’ہمیشہ غمزدہ رہیں گی۔۔۔ اور انھیں یاد کریں گی۔‘

جیل سے باہر ان کی پہلی رات ان کی سب سے پرانی دوست ٹریسی چیپ مین کے ساتھ پیزا کھاتے ہوئے گزری تھی، جس نے فولبیگ کی رہائی کی مہم کی قیادت کی تھی۔

ان کی دوست چیپ مین نے بعد میں رپورٹروں کو بتایا کہ ’وہ ایک اصل بستر پر سوئی تھیں۔ انھوں نے حقیقت میں کہا ہے کہ وہ 20 سالوں میں پہلی بار ٹھیک سے سوئی ہیں۔‘

اگرچہ فولبیگ کو معافی دے دی گئی تھی، لیکن ان کی سزائیں برقرار ہیں، مطلب یہ کہ اگر وہ ان کو ختم کرنا چاہتی ہیں اور معاوضہ لینا چاہتی ہیں تو انھیں اب بھی ایک طویل قانونی راستے کا سامنا ہو گا۔

اس صورت میں پہلا قدم ریٹائرڈ جج ٹام باتھرسٹ کے لیے یہ ہو گا کہ وہ اس کیس پر مکمل رپورٹ درج کریں، اس سے پہلے کہ اسے این ایس ڈبلیو کی کورٹ آف کریمنل اپیل کے حوالے کیا جائے جہاں اس کا حتمی فیصلہ ہو گا۔

پروفیسر کنلف کہتی ہیں کہ ’آسٹریلیا میں ایسے حالات میں معاوضے کے سوالات کا جائزہ لینے کے لیے کوئی اچھا خودکار نظام نہیں ہے۔‘

جہاں تک کیس کے اثرات کا تعلق ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ فولبیگ کی معافی نے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ آسٹریلیا کا قانونی نظام نئی سائنسی دریافتوں کا جواب دینے میں کتنا سست ہے۔

آسٹریلین اکیڈمی آف سائنسز نے اس ہفتے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’اب یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہیے: ہم ایک ایسا نظام کیسے بنائیں گے جہاں پیچیدہ اور جدید سائنس نظامِ انصاف کو زیادہ آسانی سے آگاہ کر سکے؟‘