اہم خبریں

اپنی تاریخ میں پہلی بار ومبلڈن میں ٹینِس کے مقابلوں کے دوران انتظامیہ نے اپنے ڈریس کوڈ میں نرمی کی ہے۔ یہ قواعد اتنے سخت کیوں ہیں؟ ایلی وائلٹ براملی اس موضوع پر ایک نظر ڈالتی ہیں۔

146 سال میں پہلی بار ومبلڈن نے خواتین کے لباس میں تبدیلی کی ہے لیکن اس تبدیلی کے ومبلڈن میں ہونے کی وجہ سے، اسے انقلابی تبدیلی کے بجائے ایک ارتقائی تبدیلی سمجھا جائے گا۔ کھلاڑیوں کو اب گہرے رنگ کے انڈر شارٹس پہننے کی اجازت دی گئی ہے۔

یہ اقدام مبینہ طور پر ان کھلاڑیوں کی پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے کیا گیا ہے جو اپنی ماہواری کے دنوں میں ہوتی ہیں۔

ایک بیان میں آل انگلینڈ کلب کی سربراہ سیلی بولٹن نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ نیا اصول ’کھلاڑیوں کو پریشانی سے نجات دے کر خالصتاً اپنی کارکردگی پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد دے گا۔‘

اس کا بہت سے کھلاڑیوں نے خیر مقدم کیا ہے۔ جیسا کہ امریکہ کی کوری گاف نے گذشتہ ہفتے سکائی نیوز کو بتایا تھا کہ ’مجھے لگتا ہے یہ یقینی طور پر میرے اور لاکر روم میں موجود دیگر لڑکیوں کے لیے بہت زیادہ تناؤ کو دور کرے گا۔‘

ٹینس کے تاریخ دان کرس بوورز، جنھوں نے راجر فیڈرر اور نوواک جوکووچ کی سوانح عمری لکھی ہے، سمجھتے ہیں کہ یہ تبدیلی ومبلڈن کے سماجی دباؤ کے سامنے جھکنے کا معاملہ ہے۔

وہ بی بی سی کلچر کو بتاتے ہیں کہ ومبلڈن کے پاس اب کوئی راستہ نہیں تھا۔

’ومبلڈن بہت ہی پریشان کن حالات میں تھا۔‘

یہ خیال کہ خواتین کھلاڑی صرف وہی لباس پہن سکتی ہیں جو کھیل کی نوعیت سے مطابقت رکھتا ہے، اسے اب فرسودہ سمجھا جا رہا ہے۔ یقیناً یہ قوانین قدیم اور جنس پرست تھے۔

اب جب کچھ ٹینِس کورٹس نے خاتون کھلاڑیوں کے مطالبے کو جائز تسلیم کر لیا گیا ہے، سینٹر کورٹ کی حدود میں پرانے قواعد و ضوابط ابھی تک برقرار تھے۔ کھلاڑیوں کو بتایا جاتا کہ ’انھیں ٹینس کے مناسب لباس میں ملبوس ہونا چاہیے جو تقریباً مکمل طور پر سفید ہو۔ سفید میں صرف سفید، کریم رنگ کا سفید بھی شامل نہیں۔‘

نیک لائنز، کف، ٹوپی، ہیڈ بینڈ، کلائی پر بندھے بینڈ، موزے، شارٹس، سکرٹس اور انڈر گارمنٹس پر مختلف رنگوں کے ڈیزائن کی بھی اجازت دی گئی ہے۔

لیکن اس سے پہلے کہ کھلاڑی قوسِ قزا کے رنگوں کو اپنانا شروع کریں، کوڈ واضح ہے کہ ڈیزائن ایک سینٹی میٹر سے زیادہ چوڑا نہیں ہونا چاہیے۔

اور اگر کوئی تشویش تھی کہ کھلاڑی مختلف نمونوں کا استعمال کریں گے، تو اس پر کوڈ کا حکم ہے کہ ’پیٹرن کے اندر موجود رنگ کی پیمائش اس طرح کی جائے گی جیسے یہ رنگ کا ٹھوس ماس ہے اور اسے ایک سینٹی میٹر (10 ملی میٹر) گائیڈ کے اندر ہونا چاہیے۔‘

اس کے علاوہ ’دیگر مٹیریلز یا نمونوں سے بنائے گئے کمپنی کے لوگوز قابل قبول نہیں ہیں۔‘

برطانیہ میں ٹینس کی سماجی تاریخ کے مصنف رابرٹ لیک نے بی بی سی کلچر کو بتایا کہ سب سے سفید لباس کا کوڈ ہمیشہ سے ہے۔ ’سفید رنگ پسینہ سب سے بہتر انداز میں چھپاتا ہے، صاف، تیز اور صاف نظر آتا ہے، اچھائی کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کی کرکٹ سے جڑی تاریخ کو دیکھتے ہوئے، تاریخی طور پر اعلیٰ متوسط طبقے کے مسرت کے لمحوں کی بھی عکاسی کرتا ہے۔‘

رابرت لیک کے مطابق اس کا کچھ طریقوں سے وکٹورین دور کے اواخر میں ارتقا ہوا جس میں خواتین سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ ’ ثقافتی توقعات کے مطابق مناسب لباس پہنیں گی، یعنی شائستگی والا لباس۔‘

ان کا کہنا ہے کہ جنگ کے دوران یہ فیشن کے بارے میں زیادہ تھا، 1950 کی دہائی میں یہ ’افادیت، کام، آرام‘ کے بارے میں زیادہ ہو گیا، اور، پھر بعد کے اوپن دور میں خواتین کی کشش کے روایتی معیارات، یعنی شاید جنسی کشش کے لیے بھی اِن لباس کا استعمال جاری رہا۔ یہ وہ باتیں تھیں جن کی وجہ سے کھلاڑیوں نے ٹینس کا روایتی لباس پہننا جاری رکھا۔

یہ صرف ومبلڈن ہی نہیں ہے جو ڈریس کوڈ کو نافذ کرتا ہے۔

ہائی پروفائل کھلاڑیوں کی جانب سے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی ایک حالیہ مثال سرینا ولیمز نے 2018 میں فرنچ اوپن جیتنے کے لیے وکنڈا سے متاثر کیٹ سوٹ پہنتے ہوئے دیکھی تھی۔

یہ ان کی زندگی کا پہلا گرینڈ سلیم میچ تھا۔ اس لباس کی وجہ سے اُس پر مستقبل کے ٹورنامنٹس میں اِسے پہننے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ جیسا کہ ایک مبصر نے اس وقت لکھا تھا: ’یہ حقیقت میں خواتین کے جسموں پر پابندی ہے اور خاص طور پر، یہ اسی طرح ہے جس طرح سے سیاہ فام خواتین کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔‘

لیکن یہاں تک کہ اگر دوسرے ٹورنامنٹ ڈریس کوڈز کو نافذ کرتے ہیں، تو ومبلڈن تو اپنے قوانین کی سختی کے لحاظ سے اور بھی زیادہ سخت ہے۔

جیسا کہ کیرن بین ہورین، فیشن کی تاریخ دان اور ’شی ہیز گوٹ لیگز‘ کی شریک مصنفہ، بی بی سی کلچر کو بتاتی ہیں کہ ’ٹینس کورٹ ہمیشہ سے ایک ایسا میدان رہا ہے جس میں خواتین نے ان حدود کو چیلنج کیا ہے اور ان کو پیچھے دھکیلا ہے جو معاشرے نے عائد رکھیں۔

’کیونکہ ومبلڈن اپنے امریکی یا فرانسیسی ہم منصبوں کے مقابلے میں ہمیشہ سے زیادہ روایتی اور قدامت پسند ٹورنامنٹ رہا ہے، یہ ایک ایسا میدان بن گیا ہے جس میں انفرادیت کے چھوٹے سے چھوٹے اظہار پر بہت زور دیا جاتا ہے۔‘

اصول اور اصول توڑنے والے

تاہم بوورز کے مطابق جس چیز کی تعریف نہیں کی جاتی وہ یہ ہے کہ ’80 کی دہائی سے ومبلڈن میں مردوں اور خواتین دونوں پر عائد پابندیاں بہت زیادہ سخت ہو گئیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ یہ کوڈ سفید سے مزید سفید ہوگیا۔ یہ قوائد 90 کی دہائی میں بہت سخت ہو گئے اور پچھلی چند دہائیوں سے ان قواعد کو برقرار رکھا گیا۔

سٹیفی گراف اور بورس بیکر نے جس قسم کے سٹائل پہن رکھے تھے وہ آج سینٹر کورٹ میں پیش ہوتے، ان کا کہنا ہے کہ انھیں کبھی اجازت نہیں دی جائے گی۔

تو پھر ایک قدم پیچھے کیوں لیا جا سکتا ہے؟

بوورز کا خیال ہے کہ یہ ’ومبلڈن اپنے برانڈ کے بارے میں بہت فکر مند ہے۔۔۔ ومبلڈن کے لیے اس بات پر اصرار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ آپ کو رائل باکس میں جیکٹ اور ٹائی پہننی ہوگی، لیکن وہ ایسا کرتے ہیں۔‘

’ومبلڈن برانڈ کا وہ تمام حصہ جسے ہم قبول کرتے ہیں اور سٹرابیری اور کریم کے ساتھ اتنا ہی جوڑتے ہیں جتنا کہ ہم ٹینس کے ساتھ کرتے ہیں۔‘

ان قواعد کو چیلینج کرنے والے بھی موجود رہے ہیں۔ بوورز نے مے سوٹن کی طرف اشارہ کیا جس نے 1905 میں ’تھوڑی سی جِلد دکھائی اور وہ ایسے ہی تھا کہ جیسے تھوڑی سے خوشبو سنگھائی گئی ہو۔‘

1919 میں فرانسیسی کھلاڑی سوزان لینگلن کے ’غیر مہذب‘ لباس پر تنازع ہوا جس میں انھوں نے پیٹی کوٹ نہیں پہنا اور مقابلوں کی فاتح قرار پائیں۔

ایلین بینیٹ 1934 میں وہ پہلی خاتون کھلاڑی تھیں جنھوں نے شارٹس پہن کر ٹینس کھیلا اور اس سے ابتدائی طور پر ومبلڈن میں ٹینس کے شائقین کو ’صدمہ‘ پہنچا۔

سنہ 1949 میں گرٹروڈ ’گسی‘ موران نے ڈیزائنر ٹیڈ ٹنلنگ کا لباس پہنا تھا، جو سنہ 1920 کے آخر سے ٹورنامنٹ میں کام کر رہی تھیں۔

بین ہورین، جنھوں نے ٹنلنگ کے ڈیزائنز کا مطالعہ کیا ہے، کا کہنا ہے کہ’یہ جانتے ہوئے کہ ٹورنامنٹ میں سفید کے سوا کسی رنگ کے لباس پہننے کی اجازت نہیں ہے، ٹنلنگ نے اپنے زیر جامہ میں لیس ٹرم کا اضافہ کیا جو منتظمین کے لیے میڈیا سکینڈل کا باعث بنا اور اس کی برطرفی کا بظاہر سبب بن گیا۔‘

اگرچہ وہ کہتی ہیں کہ ’اپنی یادداشت میں ٹنلنگ نے اشارہ کیا ہے کہ سکینڈل سے پہلے انھوں نے اپنے بھڑکتے انداز سے منتظمین کو تشویش میں ڈال دیا تھا۔‘

سنہ 1985 میں امریکی کھلاڑی این وائٹ پر ان کے تمام سفید رنگ کے کیٹ سوٹ پر سامعین کی جانب سے آوازیں کسی گئیں۔ شائقین نے اُنھیں وہ لباس دوبارہ نہ پہننے کا کہا۔

سنہ 2017 میں وینس ولیمز کو کہا گیا کہ وہ بارش کے وقفے کے دوران اپنا لباس تبدیل کریں کیونکہ ان کا برا سٹریپ ظاہر ہو رہا تھا۔

وہ لوگ جو ماضی میں ومبلڈن کے سخت ڈریس کوڈ کی وجہ سے مشکل میں آئے، وہ اس نئی پیشرفت کو کیسے دیکھتے ہیں؟

این وائٹ کی رائے ہے کہ یہاں سوال ومبلڈن کے برانڈ کا ہے۔ ’ومبلڈن کے تمام اصول ہی اسے پیشہ ورانہ ٹینس کھیلنے کے لیے ایک خاص اور چیلنجنگ مقام بناتے ہیں۔

’میں حیران ہوں کہ آل انگلینڈ کلب نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ خواتین کے لباس کو کچھ رنگ پہننے کی اجازت دے دی ہے۔ میں حیران ہوں کہ اب آگے کیا ہوگا؟