اترے ہوئے چہرے، افسردہ آنکھیں، اور ہاتھ سے بار بار چہرہ چھپانے کی کوشش۔۔۔ یہ یقیناً کسی خوشی کے موقع پر کی جانے والی حرکات نہیں لگتیں لیکن یہ سب کچھ لاہور کے ایک ہوٹل میں استحکام پاکستان پارٹی کے لانچ پر منعقدہ تقریب میں دیکھنے کو ملیں۔
جہانگیر ترین کی جانب سے ایک علیحدہ سیاسی جماعت قائم کرنے کی بازگشت تو گذشتہ چند ہفتوں سے سننے کو مل رہی تھی لیکن گذشتہ رات پی ٹی آئی کے سابق رہنماؤں کی جہانگیر ترین کے ساتھ تصاویر، ان کی مجوزہ جماعت کا نام اور جھنڈے کی تصاویر بھی سوشل میڈیا اور نیوز بلیٹنز کی زینت بننے لگیں۔
اور پھر جمعرات کے روز صحافیوں کو ایک باقاعدہ دعوت نامہ بھیجا گیا جس کے ذریعے انھیں لاہور کے ایک ہوٹل میں جماعت کے باضابطہ اعلان کے لیے پریس کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا۔
تاہم ہوٹل میں پہنچنے کے بعد اس تقریب کے دوران پیش آنے والے مناظر خاصے غیر معمولی تھے اور جو تقریب ایک نئی پارٹی کے اعلان کے لیے منعقد کی گئی تھی اس میں ساری توجہ خاص طور پر فواد چوہدری کے اترے چہرے پر مرکوز رہی۔
یقیناً پاکستان کی تاریخ میں پہلے بھی سیاسی جماعتیں ٹوٹی ہیں اور ’کنگز پارٹیاں‘ وجود میں آئی ہیں لیکن پی ٹی آئی کے سابق رہنماؤں کے چہرے کے تاثرات، تقریب سے پہلے اور اس کے دوران پیش آنے والے واقعات بظاہر یہی تاثر دے رہے تھے کہ شاید یہ سب کچھ جلدبازی میں کیا گیا ہے۔
ہوٹل کے کرسٹل ہال میں پہنچے تو وہاں تینوں اطراف کرسیاں موجود تھیں اور پہلے سے ہی کچھ لوگ براجمان تھے جو انجان معلوم ہو رہے تھے۔ استحکامِ پاکستان پارٹی کے اکثر رہنما گذشتہ دو روز سے اسی ہوٹل میں رکے ہوئے تھے۔
سب سے پہلے ہماری ملاقات فیاض الحسن چوہان سے ہوئی جنھوں نے کہا کہ ہم جو بھی کر رہے ہیں سب کے سامنے کر رہے ہیں اور ایسا پہلے بھی کر رہے تھے۔ فردوس عاشق اعوان سے گفتگو ہوئی تو انھوں نے کہا کہ ’سیاست تو کرنی ہے، کوئی نہ کوئی پلیٹ فارم تو بننا تھا، ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی اور معاشی استحکام ہو۔‘
اتنے میں آہستہ آہستہ سب اپنے کمروں سے ہال کی جانب آنا شروع ہوئے۔ پہلے جہانگیر ترین آئے، جن کے لیے ان کے اردگرد موجود کارکنوں نے نعرے لگائے، پھر علیم خان داخل ہوئے اور ان کے لیے لگائے گئے نعروں میں اتنا جوش دکھائی نہیں دیا۔
ٹولیوں کی شکل میں ہال میں داخل ہونے پر پہلا خیال یہی آیا کہ یہ سب ایک ساتھ کیوں ہال میں داخل نہیں ہو رہے۔ جب علیم خان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ اتنا سسپنس کیوں پھیلایا جا رہا تو انھوں نے کہا کہ ’ایسی کوئی بات نہیں سب لوگ کچھ ہی دیر میں آ جائیں گے ہمارا مقصد پارٹی بنانے کے اعلان کرنا ہے اور کچھ نہیں۔‘
اس دوران تقریب کے انتظامات عون چوہدری دیکھ رہے تھے، اور مرکزی میز پر جہانگیر ترین اور علیم خان سمیت پی ٹی آئی کے دیگر سابق رہنماؤں کے نام نشستوں پر لگائے گئے تھے۔
ان میں ایک نام پی ٹی آئی کے سابق رہنما فواد چوہدری کا بھی تھا اور ایسے دیگر رہنماؤں کے نام بھی جو گذشتہ دو ہفتوں کے دوران اپنی پریس کانفرنسز میں ناصرف تحریک انصاف بلکہ سیاست ہی چھوڑنے کا اعلان کر چکے تھے۔
کسی کو نہیں پتا کہ فواد چوہدری کب اور کہاں سے ہال میں داخل ہوئے اور اپنی مقررہ نشست پر بیٹھنے کی بجائے دیگر عام مہمانوں کے لیے لگائی نشستوں کی بھی تیسری قطار میں جا بیٹھے۔
سب صحافی ایک دوسرے سے یہی پوچھتے دکھائی دیے کہ ’فواد چوہدری کہاں ہیں؟‘ اور جب ان کی نشاندہی ہوئی تو ان کے پاس جا کر ان کی تصاویر اور ویڈیوز بنائی گئیں جو اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔
فواد چوہدری کبھی اپنے چہرے کو چھپاتے، کبھی ماتھے پر ہاتھ رکھتے، اور وہ خاصے بے سکون نظر آ رہے تھے۔ صحافی آپس میں بات کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ’ان کو تو ایسا لگتا ہے کسی نے زبردستی یہاں بٹھایا ہے۔‘
مراد راس بھی ایک کونے میں جا کر بیٹھے گئے، وہ بھی اس دوران خاصے خاموش تھے اور علی زیدی بھی جو اس پریس تقریب میں آئے بھی اس وقت جب جہانگیر ترین کی تقریر شروع ہو چکی تھی۔ ان کا بھی چہرہ اترا ہوا تھا، شیو بڑھی ہوئی تھی۔
پھر تقریب کے آغاز میں قومی ترانہ پڑھا گیا اور علیم خان اور جہانگیر ترین کی جانب سے تقاریر کی گئیں۔ جہانگیر ترین بھی کاغذ سے دیکھ کر اور رک رک کر بات کر رہے تھے اور یہ تقریر بھی کچھ پرجوش نہیں تھی۔
انھوں نے اپنی تقریر میں عمران خان کا ذکر نہیں کیا، نو مئی کے واقعات کی بات ضرور کی اور پرتشدد واقعات میں ملوث افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا کہا۔
جیسے ہی انھوں نے بات ختم کی، تو صحافیوں نے سوال جواب کرنا شروع کیے لیکن کسی نے کوئی جواب نہیں دیا اور کہا گیا کہ فی الحال سوالات کے جواب نہیں دیے جائیں گے۔ اس کے بعد تمام رہنما وہاں سے اٹھ کر واپس اپنے کمروں میں چلے گئے۔
ہال میں موجود ایک سینیئر صحافی نے اس موقع پر کہا کہ بظاہر ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ یہ سب ایک پلیٹ فارم پر تو اکٹھے ہوئے ہیں لیکن ان کی باڈی لینگویج، چہروں کا تاثرات اور تقریب کے دوران دیکھے جانے والے مناظر یہ بتا رہے ہیں کہ جیسے وہ کسی ایسے ’کام کی تکمیل‘ کر رہے ہیں جن کی ان کی ذمہ داری دی گئی ہے۔
ہماری جتنے بھی افراد سے بات چیت ہوئی کہ پارٹی کا نظریہ کیا ہے، اس کا منشور کیا ہو گا تو وہ اس سے لاعلم دکھائی دیے اور بس یہی کہنے پر اکتفا کیا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کی بہتری ہو۔‘
یوں بظاہر انتہائی جلد بازی میں کی گئی جماعت کی لانچ کی تقریب کا اختتام ہوا جس کے بعد سوشل میڈیا پر بحث شروع ہوئی اور ٹاک شوز پر نئی نویلی جماعت کا دفاع کرنے رہنما پہنچے۔
فواد چوہدری کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو لوگ یہ سوال پوچھتے دکھائی دیے کہ کیا فواد چوہدری استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہونے پر خوش ہیں بھی یا نہیں؟
استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما اور جہانگیر ترین کے قریبی ساتھی اسحاق خان خاکوانی نے اے آر واے نیوز کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’فواد چوہدری صاحب کے لیے ہم نے سٹیج پر جگہ بھی رکھی تھیں شاید انھوں نے اسے اپنے لیے مناسب نہیں سمجھا۔
’میرے ذہن میں تو کوئی وجہ نہیں سمجھ آتی، وہ آئے اور کہیں دور جا کر بیٹھ گئے جہاں لوگوں نے ان کی تصاویر لی ہیں، ملاقات ان سے میری بھی نہیں ہوئی، جہانگیر ترین کی بھی نہیں ہوئی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’فواد چوہدری جب پارٹی چھوڑنے لگے تھے اس دن بھی ملے تھے، پتا نہیں ان کے ذہن میں کوئی کشمکش ہے جو وہی بہتر بتا سکتے ہیں۔‘
تقریب میں موجود مراد راس نے بی بی سی سے سے بات کرتے ہوئے نو مئی کے واقعات کا ذکر کیا اور کہا کہ ’جب سے خان صاحب زمان پارک آئے تو ان کو مشورہ دینے والوں نے پوری طرح سے زمان پارک پر قبضہ کر لیا اور ان کے مشوروں نے جماعت کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’جو مشورہ دینے والے تھے اس کے بعد خان صاحب سے ملنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔‘
انھوں نے اس بات کو دہرایا کہ ’ہمارا مقصد پاکستان کی بہتری ہے اور اسی لیے ہم اس جماعت میں شامل ہوئے ہیں ہم نے آگے بڑھنا ہے، یہ نہیں ہے کہ ہم گھر بیٹھ جائیں گے سب کچھ چھوڑ کے۔‘
پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے ’لوٹا‘ کہنے پر ردِ عمل دیتے ہوئے مراد راس نے کہا کہ ’گھر بیٹھ کر تنقید کرنا بہت آسان ہے، مجھے پر وہ تنقید کر سکتا ہے جس کی 15 سال کی جدوجہد ہے، گھر بیٹھ کر فونز کے ذریعے تنقید کرنے والے اس پوزیشن میں نہیں ہیں۔‘