سعودی عرب کی کیمل سپورٹس فیڈریشن نے کہا کہ رواں برس سعودی عرب میں ہونے والا اونٹوں کی دوڑ کا میلہ اب تک کا دنیا کا سب سے بڑا میلہ ہو گا جس کا آغاز یکم اگست سے ہو گا۔
طائف شہر میں منعقد ہونے والا یہ میلہ 38 روز تک جاری رہے گا۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی سرپرستی میں منعقد ہونے والے اس ایونٹ کا مقصد اونٹوں کی دوڑ کو سعودی ثقافت کے ایک لازمی پہلو کے طور پر دنیا میں فروغ دینا ہے۔
اس میلے کے دوران اونٹوں کی دوڑ کے کم از کم 600 مقابلے ہوں گے جو کہ ایک ایسا ریکارڈ ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
سعودی فیڈریشن کے مطابق یہ ایونٹ دنیا کے امیر ترین ایونٹس میں سے ایک ہے جس کا اندراج چار برس قبل گنیز ورلڈ ریکارڈز میں بھی ہوا تھا، اور اس کی وجہ یہ تھی معلوم تاریخ میں پہلی مرتبہ ایونٹ میں حصہ لینے والے 13 ہزار سے زائد اونٹ مقابلے کے لیے موجود تھے۔
اونٹوں کی دوڑ کروانے کا کھیل صدیوں پرانا ہے اور یہ خلیجی ممالک بشمول سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور عمان میں اب بھی جوش و خروش کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔
جزیرہ نما عرب کا خطہ قدیم زمانے سے ہی اونٹوں کی افزائش کے لیے مشہور ہے اور یہ ایک ایسا پیشہ ہے جو جدیدیت اور وقت گزرنے کے ساتھ مختلف ممالک خاص کر سعودی عرب میں ختم نہیں ہو سکا۔
سعودی عرب نے حال ہی میں ایک الیکٹرانک پلیٹ فارم لانچ کیا ہے، جس کا مقصد اونٹوں کی نسلوں کے ریکارڈ کو ڈی این اے کی تفصیلات کی مدد سے محفوظ کرنا اور ہر اونٹ کو شناختی کارڈ جاری کرنا ہے۔
یہ پلیٹ فارم، جو کہ ایک بہت بڑے ڈیٹا بیس پر مشتمل ہے، اونٹوں کے جینیاتی کوڈز کو جمع کرتا ہے۔
یہ پلیٹ فارم اونٹوں کی نسلوں کے ریکارڈ کو محفوظ کرنے اور ان کے فیملی ٹری (شجرہ) کو ترتیب دینے کے لیے قائم کیا گیا ہے اور کسی بھی اونٹ کی فروخت کے وقت نسل سے متعلق یہ ریکارڈ اونٹ خریدنے والے کو دیا جاتا ہے۔ حکام کے مطابق اس کا مقصد اونٹوں کی قدیم اور نایاب نسلوں کو محفوظ رکھنا ہے۔
تکنیکی اور طبی نقطہ نظر سے اس پلیٹ فارم کی نگرانی سعودی کیمل کلب اور کنگ فیصل ریسرچ سینٹر کرتے ہیں۔
اس پلیٹ فارم کے انچارج سعودی عرب میں اونٹوں کی دوڑ کے میلوں میں داخلے اور شرکت کی شرط کے طور پر کسی بھی اونٹ کی نسل کے دستاویزی نظام کو متعارف کروانا چاہتے ہیں، جہاں ہر مالک کو اس کے اونٹ کے ساتھ ایک دستاویزی کارڈ دیا جائے گا جس میں اونٹ کی نسل سے متعلق ضروری معلومات ہوں گی اور اس نسل کی خصوصیات کی تفصیلات بھی درج ہوں گی۔
اس پلیٹ فارم کے انچارج کا خیال ہے کہ مالکان کا اپنے اونٹوں کی رجسٹریشن کرنے کے عمل میں زبردست ردعمل اس اقدام کی کامیابی کی بنیاد بنے گا، جس سے ہر ایک کو فائدہ ہو گا۔
یاد رہے کہ ماضی میں اونٹوں کی دوڑ کے مقابلوں میں چھوٹے بچوں کو اونٹوں پر سوار کیا جاتا تھا۔
دوڑنے والے اونٹوں کے مالک ہلکے وزن والے اونٹ سواروں کو ترجیح دیتے تھے تاکہ سوار کا وزن اونٹ کے ریس جیتنے کے امکانات کو متاثر نہ کر سکے۔
تاہم بچوں کے حقوق کی تنظیموں نے متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک میں بچوں کو اونٹوں کی دوڑ میں استعمال کرنے کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھایا جس کے بعد اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔
عالمی تنظیموں نے بتایا کہ کیسے ان بچوں کی نشوونما پر کنٹرول رکھا جاتا ہے، یہ بچے اپنے خاندانوں سے دور رہتے ہیں اور اونٹوں کے مالکان کی طرف سے ان پر خوراک کے استعمال کے حوالے سے عائد پابندیوں کی وجہ سے یہ بچے عمر میں تو بڑے ہو رہے ہوتے تھے لیکن جسمانی نشوونما اور وزن میں نمایاں اضافہ کے بغیر۔
اور یہ صورتحال بلآخر ان بچوں کو ان کی زندگی کے آخری مراحل میں جسمانی یا نفسیاتی معذوری سے دوچار کرنے کا باعث بنتی تھی۔
تاہم، یہ معاملہ اس وقت رُک گیا جب بچوں کے اس استحصال میں ملوث خلیجی خطے کی بڑی اور معروف شخصیات سمیت بہت سے لوگوں کے خلاف بچوں کی اسمگلنگ اور انھیں غلامی میں رکھنے جیسے الزامات کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔
اس وقت اونٹوں کی دوڑ میں بچوں کی بجائے روبوٹ استعمال کیے جاتے ہیں اور انھیں ریموٹ سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
خلیجی خطے میں بالخصوص سعودی عرب، عمان، قطر اور متحدہ عرب امارات میں اونٹوں کے بہت سے میلے اور اونٹوں کی دوڑ کا انعقاد کیا جاتا ہے، جن کے انعامات لاکھوں ریال تک ہوتے ہیں۔
ایسے ہی ایک مقابلے میں جیتنے والے کو ملنے والی انعامی رقم ایک کروڑ ریال (یا 2.75 ملین امریکی ڈالر) تھی۔