انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن میں انڈین فوج کا سرچ آپریشن چوتھے دن بھی جاری ہے۔ اس سرچ آپریشن کی نگرانی فوج اور پولیس کے اعلیٰ حکام کر رہے ہیں۔
گذشتہ بدھ کو انڈین فوج اور جموں و کشمیر پولیس نے ایک خفیہ اطلاع کی بنیاد پر ضلع اننت ناگ کے گڈول علاقے میں عسکریت پسندوں کے لیے سرچ آپریشن شروع کیا۔
اس سرچ آپریشن کے دوران فوج اور پولیس پر انتہا پسندوں کی اندھا دھند فائرنگ کی وجہ سے فوج کے ایک کرنل، ایک میجر اور ایک سپاہی کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر پولیس کے ایک ڈی ایس پی مارے گئے۔
لیکن اس سے پہلے کہ فوج اور پولیس شدت پسندوں کے ٹھکانے تک پہنچ پاتی، وہاں موجود شدت پسندوں نے فوج اور پولیس پر حملہ کر دیا۔ اس حملے کے بعد سے سکیورٹی فورسز ان شدت پسندوں کی تلاش میں مصروف ہے۔
دریں اثنا آل انڈیا ریڈیو کی ٹویٹ کے مطابق ایڈیشنل کمشنر وجے کمار نے کہا ہے کہ سرچ آپریشن چوتھے دن بھی جاری ہے۔
آل انڈیا ریڈیو کی خبر کے مطابق انڈین فوج اننت ناگ ضلع کے کوکرناگ علاقے میں گڑول کے جنگلات کے پہاڑوں میں قدرتی غار میں چھپے شدت پسندوں کو نشانہ بنانے کے لیے ڈرون کا استعمال کر رہی ہے۔
جبکہ اے این آئی نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ فوجیوں کی گاڑیاں قطار در قطار اس علاقے میں آپریشن کے چوتھے دن بھی سرگرم عمل ہیں۔
یہ انکاؤنٹر کہاں ہوا؟
دریں اثنا، جموں و کشمیر پولیس نے ٹویٹ کیا جس میں بڑے واضح انداز میں کہا گیا ہے کہ ’سابق پولیس/فوج کے افسران کو ‘گھات لگا کر حملہ’ کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہیے۔ یہ مکمل طور پر اِن پُٹ پر مبنی آپریشن ہے، جو اب بھی جاری ہے اور تمام دو- تین دہشت گرد ختم کر دیے جائيں گے۔‘
یہ سرچ آپریشن سری نگر سے تقریباً 100 کلومیٹر دور جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے گھنے جنگلات میں جاری ہے۔
اس علاقے میں اونچی پہاڑیوں اور گھنے جنگلات کے نچلے حصوں میں بستیاں آباد ہیں۔ اس علاقے میں گھنے جنگلات ہیں جبکہ دائیں بائیں کھیت اور کھلیان ہیں۔
اننت ناگ کو عبور کرنے کے بعد سیاحت کے لیے معروف قصبہ کوکرناگ آتا ہے اور کوکرناگ سے تقریباً بیس کلومیٹر کے فاصلے پر گڑول کا علاقہ ہے، جہاں سرچ آپریشن جاری ہے۔
اننت ناگ اور کوکرناگ کے درمیان 30 کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور یہ انکاؤنٹر جنگلوں کے بیچ میں ہوا جہاں تک پہنچنے کے لیے اوپر چڑھنا پڑتا ہے۔
جموں خطے کے بانیہال اور رامبن علاقے اس پہاڑی کے عقبی حصے میں واقع ہیں۔
آپریشن کے دوسرے روز دن بھر جائے وقوعہ کے قریب سے گولیوں اور دھماکوں کی آوازیں آتی رہیں۔ شاید سکیورٹی فورسز نے اندازہ لگایا ہو کہ جنگل کے دائیں اور بائیں جانب شدت پسندوں کے ٹھکانے موجود ہیں اس لیے انھوں نے اسے نشانہ بنایا۔
تیسرے دن جمعے کو علی الصبح کچھ گولیوں کی آوازیں سنی گئیں۔ اس آپریشن کو شروع ہوئے تین دن سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔
یہ علاقہ کتنا مشکل ہے؟
سکیورٹی فورسز کی جانب سے ان شدت پسندوں کو قابو کرنے کی بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پورے علاقے کو گھیر لیا گیا۔
سکیورٹی فورسز نے اس علاقے میں کئی مقامات پر فلڈ لائٹس بھی لگائیں۔
لیکن ان تمام انتظامات کے باوجود ابھی تک سرچ آپریشن ختم ہوتا نظر نہیں آرہا اور نہ ہی کسی شدت پسند کے مارے جانے کی کوئی خبر ہے۔
تاہم سکیورٹی فورسز نے شدت پسندوں کی تلاش کے لیے ڈرون کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی شروع کر دیا ہے۔
رہائشی علاقوں میں شدت پسندوں کو تلاش کرنا اور ان کا مقابلہ کرنا اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا پیچیدہ جغرافیائی علاقوں میں ہوتا ہے۔
جموں و کشمیر پولیس کے سابق ڈی جی شیشپال وید کا کہنا ہے کہ ’جس جگہ آپریشن جاری ہے وہ بہت مشکل جگہ ہے۔ یہاں جنگلات، اونچی پہاڑیاں اور چڑھائیاں ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہاں موجود سکیورٹی فورسز کی جگہ دوسرے سکیورٹی اہلکاروں کو جگہ لینا پڑتی ہے کیونکہ ایک سپاہی 24 گھنٹے کام نہیں کر سکتا۔ دوسری بات یہ کہ وہاں کھانا پہنچانا پڑتا ہے، لائٹس لگانی پڑتی ہیں، اسلحہ لانا پڑتا ہے اور دیگر ضروری چیزیں بھی ٹھکانے تک پہنچانی پڑتی ہیں۔ ایسے حالات میں دہشت گردوں کی تلاش میں بھی وقت لگتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں: ’میرا خیال میں یہ ممکن ہے کہ حکام کو خود اس جگہ کا علم نہ ہو جہاں یہ شدت پسند چھپے ہوئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ان کے جال میں پھنس گئے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ مارے جانے والے افسران علاقے کو گھیرے میں لینے کے بعد سیدھے ادھر چلے گئے ہوں اور انھیں شدت پسندوں کی پوزیشن کا علم نہیں ہو۔‘
خدشات
فوج کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جب بھی عسکریت پسندوں کے خلاف کوئی آپریشن شروع کیا جاتا ہے تو کچھ نہ کچھ ہونے کا خدشتہ لگا رہتا ہے۔
شیشپال وید کہتے ہیں: ’یہاں مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپریشن جس کے ان پٹ پر کیا گیا تھا، کبھی کبھار وہ ڈبل ایجنٹ ہوتا ہے۔ مخبر دوسری طرف (شدت پسند) سے بھی ملے ہوتے ہیں۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ جس نے بھی معلومات دی، کیا اس کا تعلق شدت پسندوں سے تو نہیں تھا؟ آپریشن کے بعد اس پر غور کرنا چاہیے۔‘
’ایک اور اہم بات یہ ہے کہ آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد کشمیر سے دہشت گردی ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اب شدت پسندوں نے شہروں کے بجائے جنگلوں میں رہنا شروع کر دیا ہے تاکہ وہ سکیورٹی فورسز کو زیادہ نقصان پہنچا سکیں۔ اسے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ شدت پسندوں کو یہ اطلاع کیسے ملی کہ سکیورٹی فورسز آرہی ہیں؟‘
جموں و کشمیر پولیس نے اس سے قبل اننت ناگ آپریشن کے اگلے دن یعنی بدھ کو ٹویٹ کیا: ’کرنل منپریت سنگھ، میجر آشیش دھونچک اور ڈی ایس پی ہمایوں بھٹ کی غیر متزلزل بہادری کو حقیقی خراج عقیدت، جنھوں نے اس دوران فرنٹ قیادت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کیں۔ ہماری افواج عزم کے ساتھ عزیر خان سمیت لشکر کے دو دہشت گردوں کو گھیرنے میں مصروف ہیں۔‘
پولیس نے جس شدت پسند عزیر خان کا ذکر کیا ہے وہ کوکرناگ علاقے کا مقامی رہائشی ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق عزیر خان نے 2022 میں شدت پسند گروہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔
13 جون 2023 سے اب تک کشمیر میں کل آٹھ انکاؤنٹر ہو چکے ہیں۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ان مقابلوں میں 15 شدت پسند مارے گئے ہیں۔ پولیس نے کہا ہے کہ ان شدت پسندوں میں کچھ غیر ملکی بھی شامل تھے۔
ان آٹھ مقابلوں میں تین فوج اور پولیس افسران سمیت چھ فوجی مارے گئے ہیں۔ یہ انکاؤنٹر کشمیر کے کپواڑہ، پلوامہ، کولگام اور اننت ناگ میں ہوئے۔