اہم خبریں

انڈیا کے ایل جی بی ٹی کیو جوڑے: ’میرے والدین مجھے غیرت کے نام پر قتل کرنے کے لیے تیار تھے‘

جب 17 سالہ منوج جن کی پیدائش پر جنس لڑکی ہی ریکارڈ ہوئی تھی، نے اپنے خاندان کو بتایا کے انھیں مردوں جیسا محسوس ہوتا ہے اور وہ ایک لڑکی سے محبت کرتے ہیں تو وہ قتل ہونے سے بال بال بچے۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کے والدین نے انھیں قبول کرنے سے انکار کر دیا، ان کے ہاتھ اور پیر باندھ دیے، ان پر بدترین تشدد کیا اور انھیں گھر کے ایک کمرے میں بند کر دیا۔ ان کے والد نے انھیں جان سے مارنے کی دھمکی دی۔

انھوں نے بتایا کہ ’مجھ پر جس قسم کا تشدد کیا گیا وہ میری سوچ سے بھی کہیں زیادہ سنگین تھا۔

’میں نے سوچ لیا تھا کہ میں جیسا بھی ہوں مجھے قبول کر لیا جائے گا کیونکہ آخر کار یہ ہیں تو میرے اپنے ہی لیکن میرے والدین مجھے غیرت کے نام پر قتل کرنے کے لیے تیار تھے۔‘

انڈیا کے دیہی علاقوں میں کسی خاتون کے لیے اپنی شناخت ایک ٹرانس مرد کے طور پر ظاہر کرنا یقیناً سنگین ردِ عمل کا باعث بن سکتی ہے۔

منوج کا کہنا ہے کہ انھیں انڈیا کی غریب ترین ریاست بہار کے ایک گاؤں کے سکول سے نکال کر اپنے سے دگنی عمر کے شخص کے ساتھ بیاہ دیا گیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنی جان لینے کے بارے میں بھی سوچا لیکن میری گرل فرینڈ اس سب کے دوران میرے ساتھ کھڑی رہی۔ اس کی ثابت قدمی کی وجہ سے آج زندہ ہوں اور ہم ساتھ ہیں۔‘

اس وقت ان کی عمر 22 برس ہے اور وہ گذشتہ ایک برس سے ایک بڑے شہر میں چھپے ہوئے ہیں۔ منوج اور ان کی گرل فرینڈ رشمی اپنی شادی کا قانونی حق مانگنے کی درخواست پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔

انڈیا نے سنہ 2018 میں ہم جنس پرست سیکس کو جرم قرار دینے کا قانون ختم کر دیا تھا لیکن آج بھی ہم جنس پرست شادیوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ سپریم کورٹ نے اس سال 21 ایسی درخواستیں سنی ہیں جن میں ایسی شادیوں کو قانونی قرار دینے کے حوالے سے بات ہوئی اور اس بارے میں فیصلہ جلد متوقع ہے۔

باقی جوڑوں نے تو شادی کا حق برابری کے ضمن میں مانگا ہے لیکن منوج اور رشمی کی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ شادی ان کے لیے خاندان کے بدترین جسمانی تشدد اور ذہنی اذیت سے بچنے کا ایک ذریعہ ہے۔

یہ درخواست انھوں نے دو مزید جوڑوں اور چار ایل جی بی ٹی کیو پلس فیمینسٹ سماجی کارکنان کے ساتھ مل کر دائر کی ہے۔

منوج کہتے ہیں کہ ’اپنے رشتے کی قانونی شناخت حاصل کر کے ہم اس خوف پر مبنی زندگی سے نکل پائیں گے۔‘

انڈیا میں سنہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق خواجہ سرا برادری کی تعداد پانچ لاکھ کے قریب ہے جسے اکثر سماجی کارکن اصل صورتحال سے انتہائی کم تصور کرتے ہیں۔

سنہ 2014 میں سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا تھا کہ خواجہ سراؤں کی شناخت تیسری صنف کے طور پر کی جائے گی۔

پانچ برس بعد انڈیا میں ایک قانون پاس ہوا جس میں خواجہ سراؤں کے خلاف تعلیم، روزگار، صحت کی بنیاد پر امتیاز اور ان کے جسمانی، جنسی، جذباتی اور معاشی استحصال پر سزائیں تجویز کی گئی تھیں۔

تاہم خاندان کی جانب سے تشدد اب بھی ایک پیچیدہ چیلنج ہے۔

پرتشدد خاندان

ممبئی میں مقیم فیمینسٹ وکیل وینا گاؤڈا کہتی ہیں کہ ’خاندانی تشدد ہم میں سے کسی کے لیے بھی نیا نہیں۔ چاہے وہ بیوی پر ہو، بچوں پر یا خواجہ سراؤں پر۔‘

’تاہم اسے جان بوجھ کر چھپا دیا جاتا ہے کیونکہ اسے دیکھنا یا اس کی حقیقت تسلیم کرنا دراصل ’فیملی‘ کے ادارے پر سوال اٹھانے کے برابر ہے۔‘

گوڈا اس پینل کا حصہ تھیں جس میں ایک ریٹائرڈ جج، وکیل، محققین، سماجی کارکنان اور ایک سرکاری ملازم شامل تھے جو 31 افراد کی جانب سے خاندانی تشدد کے واقعات کی بند دروازے کے پیچھے ایک عوامی سماعت میں ان کی شہادتیں سن رہے تھے۔

اس سماعت کے نتائج ایک رپورٹ میں رواں سال اپریل میں شائع ہوئے تھے جس کا نام تھا ’اپنوں کا بہت لگا ہے‘ یعنی اپنے جب تکلیف پہنچائیں تو زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اس رپورٹ میں تجویز دی گئی کہ ایل جی بی ٹی کیو کمیونیٹیز سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنا خاندان چننے کا حق دیا جائے۔

گوڈا کہتی ہیں کہ ’جس قسم کے تشدد کے بارے میں ہمیں ان افراد نے بتایا اس سے انھیں جینے اور پروقار طریقے سے زندگی گزارنے کے حق سے محروم رکھا جا سکتا ہے تھا، اگر انھیں اپنے خاندانوں کا انتخاب کرنے کا موقع نہ دیا جائے۔‘

’شادی کرنے کا حق دینا انھیں ایک نیا خاندان بنانے کا موقع دے سکتا ہے اور اس کی تعریف دوبارہ کرنے کا بھی۔‘

منوج نے اپنی زبردستی کی شادی کے چند ماہ بعد رشمی سے دوبارہ ملنے کی کوشش کی تو ان کے ’شوہر‘ نے انھیں ڈھونڈ لیا اور ان کے مطابق دونوں کو جنسی تشدد کی دھمکی دی۔

تاہم دونوں قریبی ریلوے سٹیشن تک فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور پہلی ٹرین پر سوار ہو گئے تاہم منوج کے مطابق انھیں ان کے خاندان نے دوبارہ ڈھونڈ لیا جس کے بعد ان پر دوبارہ تشدد کیا گیا۔

رشمی بتاتی ہیں کہ ’منوج کو ’خودکشی سے پہلے لکھا گیا خط‘ لکھنے پر مجبور کیا جا رہا تھا جس میں انھیں اپنی موت کی وجہ مجھے قرار دینے کا منصوبہ تھا۔‘

منوج کی جانب سے مزاحمت کے باعث انھیں دوبارہ کمرے میں بند کر دیا گیا اور ان کا موبائل فون لے لیا گیا۔

جب رشمی نے ایک ایل جی بی ٹی گروپ اور پولیس سٹیشن سے رابطہ کیا تو انھیں تحفظ دیا گیا اور وہ منوج کے خاندان سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئیں۔

اس کے بعد انھیں ایک سرکاری پناہ گاہ میں منتقل کر دیا گیا تھا تاہم وہاں سے انھیں جلد منتقل کرنا پڑا کیوں رشمی خواجہ سرا نہیں۔

فرار اور بچنے کی امید

منوج بھی طلاق لینے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن ایسے سپورٹ سسٹمز بہت کم ہیں جو پرتشدد خاندانوں سے بچنے اور نئی زندگی بنانے میں مدد کرتے ہیں۔

کوئل گوش جو اپنے نام کے ساتھ مؤنث یا مذکر استعمال نہیں کرتے، سافو نامی تنظیم میں بطور مینجینگ ٹرسٹی کام کر رہے ہیں۔

یہ تنظیم مشرقی انڈیا میں میں ہم جنس پرست اور خواجہ سرا افراد کے لیے دو دہائی قبل بنائی گئی تنظیم ہے۔

انھیں اچھی طرح یاد ہے کہ سنہ 2020 میں انھیں ہیلپ لائن پر ایک ایسے جوڑے کی کال موصول ہوئی جو مشرقی انڈیا کے ایک شہر میں فرار ہو کر آئے تھے لیکن پھر انھیں سات روز تک فٹ پاتھ پر سونا پڑا تھا۔

کوئل بتاتی ہیں کہ ’ہم نے انھیں کرائے پر جگہ فراہم کی اور انھیں وہاں رکھا تاکہ ان کے پاس تین ماہ کے لیے عارضی پناہ گاہ ہو اور وہ نوکری تلاش کر سکیں کیونکہ یہ زندگی بنانے کا واحد طریقہ تھا۔‘

معاشی طور پر برا سمجھے جانے، گھر پر تشدد، تعلیم میں رکاوٹ اور جبری شادیوں کے علاوہ اکثر خواجہ سراؤں کو مستحکم روزگار حاصل کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انڈیا کی آخری مردم شماری میں خواجہ سراؤں کی شرح خواندگی 49.6 فیصد انڈیا کی مجموعی شرح یعنی 74.04 فیصد سے کم تھی۔

دہلی اور اترپردیش میں 900 خواجہ سراؤں پر سنہ 2017 میں نیشنل ہیومن رائٹس کمشین کیے گئے سروے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 96 فیصد کو یا تو نوکری نہیں ملی تھی یا انھیں بھیک مانگنے اور سیکس ورک کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔

سافو تنظیم نے ایک پناہ گاہ بنا کر ایسے مفرور جوڑوں کو اپنی زندگیوں کا دوبارہ آغاز کرنے میں مدد دی تھی۔ 35 جوڑوں کو گذشتہ دو برس میں یہاں پناہ دی جا چکی ہے۔

یہ ایک مشکل کام ہے۔ کوئل کو ہر روز ایسی تین سے پانچ کالز موصول ہوتی ہیں جس کے بعد وہ امدادی نیٹ ورکس اور وکلا سے حل ڈھونڈنے کے لیے مدد مانگتی ہیں۔

کوئل بتاتی ہیں کہ انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملی ہیں، گاؤں میں پرتشدد ہجوم کا سامنا بھی کرنا پڑا اور پولیس سٹیشنز میں تشدد کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ میں اپنی مختلف شناخت کے بارے میں کھل کر بات کرتی ہوں اور انھیں یہ معلوم نہیں کہ وہ اس سے کیسے نمٹ سکتے ہیں۔‘

جب ایک خواجہ سرا آصف اور ان کی گرل فرینڈ سمینا نے کوئل سے رابطہ کیا تو وہ دونوں مشرقی انڈیا کے ایک گاؤں کے مقامی پولیس سٹیشن میں موجود تھے۔ سمینا کا دعویٰ ہے کہ انھیں ایک کانسٹیبل نے ہیجڑا کہا اور ان کو یہ بھی کہا کہ اس رشتے کے بارے میں عوامی طور پر بات کرنے سے پہلے انھیں مر جانا چاہیے تھا۔

آصف اور سمینا بچپن کے دوست تھے جن کو جوانی میں محبت ہوئی اور اب تک وہ اپنے خاندان سے دو مرتبہ بھاگ چکے ہیں لیکن انھیں واپس لایا گیا تھا۔ یہ ان کا بھاگنے کا آخری موقع تھا اور انھیں مدد کی ضرورت تھی۔

سمینا بتاتی ہیں کہ ’جب کوئل وہاں پہنچیں تو پولیس کا برا رویہ ختم ہوا۔ ایک سینیئر پولیس افسر نےجونیئرز کو بطور سرکاری ملازم قوانین سے لاعلمی اور ذاتی عناد کو بیچ میں لانے پر ڈانٹا۔‘

اب دونوں ایک بڑے شہر میں محفوظ زندگی گزار رہے ہیں، یہ دونوں منوج اور رشمی کے ساتھ سپریم کورٹ میں درخواست گزاروں میں سے ہیں۔

آصف کہتے ہیں کہ ’اب ہم خوش ہیں لیکن ہمیں ایک کاغذ کا ٹکڑا درکار ہے، ایک میرج سرٹیفیکیٹ جس سے خاندانوں اور برادریوں کو پیچھے ہٹایا جا سکے اور جرمانوں یا پولیس سٹیشنز سے بچا جا سکے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر سپریم کورٹ نے ہماری مدد نہ کی تو شاید ہمیں مرنا پڑے۔ ہمیں اس طرح تسلیم نہیں کیا جائے گا جیسے ہم ہیں اور ہم ہمیشہ کے لیے فرار کا راستہ ہی اپنائیں رکھیں گے اور جدائی کا خوف ہمارا پیچھا کرتا رہے گا۔‘