میں صبح کے ساڑھے چار بجے پرندوں کی چہچہاہٹ سنتے اور درختوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے چلتے ہوئے ڈھول کی آواز کو سُن سکتی تھی۔ مندر کی سیڑھیاں اُتر کر میں ننگے پاؤں چلتی ہوئی بہترین ساڑھیوں میں ملبوس خواتین کے ایک چھوٹے سے ہجوم کے ساتھ جا ملی۔
کچھ ہی لمحوں بعد، ایک فنکار جو کڑھائی والے سرخ لباس میں ملبوس تھا اور جس کے چہرے پر نارنجی رنگ کے پیچیدہ نمونے بنے ہوئے تھے، مندر کے پیچھے سے نمودار ہوا۔
ایک چاندی سے جڑا تاج اس کے سر پر رکھا گیا تھا جسے ’مڈی‘ کہا جاتا تھا، اس نے چھوٹے بچوں کی طرح ناچنا شروع کیا اور ایک انسان سے دیوتا میں بدلنے لگا۔
تقریباً 1.5 ارب لوگوں اور 330 ملین ہندو دیویوں اور دیوتاؤں والے انڈیا میں مذہبی تہواروں اور پرفارمنس کی کوئی کمی نہیں ہے۔
اس کے باوجود سب سے قدیم اور مسحور کن چیزوں میں سے ایک رسم ’تھیام‘ ہے، جو جنوبی ریاست کیرالہ اور کرناٹک کے کچھ حصوں میں ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے ’خدا یا خدا کا اوتار۔‘
یام ایک قدیم لوک رسم ہے جس میں تھیٹر، مائم اور پوجا شامل ہے جو ہندو مت سے پہلے سے چلی آ رہی ہے لیکن اس میں ہندو افسانوں کو شامل کیا گیا ہے۔
یہ ایک ایسے وقت کی طرف اشارہ کرتی ہے جب قبائلی دور کا راج تھا اور اس کا خاتمہ اس وقت ہوتا ہے جب چمکدار رنگوں کے پیسٹ اور وسیع و عریض ہیڈ ڈریس سے مزین فنکار ٹرانس جیسی حالت میں رقص کرتے دیوتا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔
آج پورے شمالی کیرالہ اور کرناٹک میں 400 سے زیادہ مختلف قسم کے شیام ہیں۔
یہ پرفارمنس اکتوبر سے اپریل تک شام سے صبح کے درمیان زیادہ تر راتوں میں منعقد کی جاتی ہیں، اس کے وقت کا تعین نجومیوں کے مشورے سے کیا جاتا ہے جو مقامی ملیالم کیلنڈر کا استعمال کرتے ہوئے اچھی تاریخوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اگرچہ ہر تقریب میں جانے پر کوئی ٹکٹ یا پیسے نہیں لیے جاتے، لیکن یہ سیاحتی تماشا نہیں ہیں بلکہ تاریخ اور ایمان رکھنے والوں کے لیے مقدس اور خدا سے تعلق محسوس کرانے والے شوز ہیں۔
چہرے پر پینٹنگ کا فن
پہلی بار میں نے اس رسم کا تجربہ کنور شہر سے بیس کلومیٹر دور ایک دیہی مقام پر کیا۔ میں اس مقام پر پہنچی تو کچھ آرٹسٹ پتلے برش کی مدد سے پرفارمنس کرنے والوں کے چہروں پر ڈیزائن تیار کر رہے تھے۔
واضح رہے کہ ہر بار رسم ایک جیسی نہیں ہوتی۔ کرداروں کا لباس مختلف ہو سکتا ہے۔ تاہم کچھ قواعد کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔
تھیام کے ماہر پی ایس کوریان کا کہنا ہے کہ اس رسم میں صرف قدرتی مواد ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس رسم کے دوران لال رنگ اہم ہوتا ہے جو ایکشن اور توانائی کے ساتھ ساتھ غصے کی بھی علامت ہے۔ یہ رنگ لائم سٹون اور ہلدی کی مدد سے حاصل کیا جاتا ہے۔
کالا رنگ چاول کے دانوں کو جلا کر ناریل کے تیل میں ملا کر حاصل ہوتا ہے جبکہ سفید رنگ کے لیے چاول کی پیسٹ اور پیلے رنگ کے لیے بھی ہلدی استعمال ہوتی ہے۔
رسم کی تیاری
اس رسم کے شرکا کو تیار کرنا ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے جو کافی وقت طلب بھی ہوتا ہے۔ یہ کام مندر سے کچھ ہی فاصلے پر کسی خیمے میں کیا جاتا ہے۔
شرکا کے سر کے تاج ہلکے مواد سے تیار ہوتے ہیں جن میں ناریل اور مور کے پر اور شیل استعمال ہوتے ہیں۔
رسم کے لیے شرکا کی آمد سے پہلے ان کو بھوکا رہنا ہوتا ہے، عبادت کرنی ہوتی ہے اور اکیلے کچھ وقت بتانا پڑتا ہے۔
ان کا مقصد صرف اپنے کردار میں ڈھلنا نہیں، جو ایک دیوتا ہوتا ہے، بلکہ ان کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی پرفارمنس سے دیکھنے والوں کو بھی خداؤں سے قریب تر ہونے میں مدد فراہم کریں۔
تاریخی اعتبار سے کم تر سمجھی جانے والی ذات کے لیے اہم کردار
ہر پرفارمنس سے قبل میں نے دیکھا کہ کولام لوگ ڈھول کی تھاپ پر تھرتھراتے تھے۔ ڈھول کی تھاپ کے ساتھ ہی باجے کی زوردار آواز گونجتی ہے جو ناچنے والوں کے چہروں کے تاثرات کے ساتھ ساتھ ان کے قدموں کی تھاپ کی رفتار کو بھی طے کرتی ہے۔
کوریان نے بتایا کہ یہ رسم ہندو مذہب سے بھی پرانی ہے لیکن ہندو مت کا ایک اہم اصول اس پرفارمنس پر لاگو ہوتا ہے اور وہ ذات کا نظام ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس رسم میں صرف مرد ہی شامل ہو سکتے ہیں اور وہ بھی دلت ذات کے 15 مخصوص گروہوں سے تعلق رکھنے والے اراکین۔
ان کے مطابق ڈھولچیوں کا تعلق دلت ذات کے سب سے نچلے طبقے سے ہے۔ یہ روایت سے کافی الٹ معاملہ ہے کیوں کہ ان شرکا کو اعلی ذات کے لوگ بھی عزت دیتے ہیں۔
مردوں اور خواتین کے لیے مقدس رسم
اس رسم کی طوالت بھی ہر بار ایک جیسی نہیں ہوتی۔ زیادہ طویل رسم سورج غروب ہونے پر شروع ہوتی ہے اور صبح تک جاری رہتی ہے۔
ایک دن صبح صبح میں کنور کے ایک اور مندر پہنچی جہاں میں نے ہندو مذہب میں موت اور انصاف کے بھگوان یاما کا روپ دھارے دو کرداروں کو ناچتے، گھومتے اور مستی کی حالت میں پایا۔
چونکہ یہ رسم مردوں تک محدود ہے، اس لیے دیویوں کا کردار بھی مردوں کو ہی نبھانا ہوتا ہے۔
تاہم کوریان نے بتایا کہ ایک مندر ایسا ہے جہاں عورتیں ہر دو سال بعد یہ رسم ادا کرتی ہیں۔
اس کے علاوہ دیگر مقامات پر عورتیں کافی شوق سے یہ رسم دیکھنے آتی ہیں۔ وہ اپنی پسندیدہ ساڑھی زیب تن کرتی ہیں اور رسم کے بعد دعائیں کرتی ہیں۔
عام طور پر اس رسم کی تفصیلات لوگ اپنے والدین سے سیکھتے ہیں جو صدیوں پرانی روایت ہے۔
میں کالی کوڈان خاندان کے گھر پہنچی جہاں نندنا راجیش نے مجھے بتایا کہ عورتیں اس رسم سے قبل اہم تیاری کا حصہ ہوتی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ان کی والدہ اور دادی راہب اور ان کے اسسٹنٹ کو مختلف مواد فراہم کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم جانتے ہیں کہ یہ رسم روایتی طور پر مرد ہی ادا کرتے ہیں اور ہم اسے تسلیم کرتے ہیں۔ یہ روایت ہے۔‘
کیرالہ کی رہائشی وی ایس سمی نے مجھے بتایا کہ ’ہمارے لیے یہ صرف ایک رسم نہیں بلکہ ایک طاقتور فن ہے جو ہمیں توانائی بھی دیتا ہے اور بھگوان کی برکتیں بھی۔‘
لکشمی وجائن نے کہا کہ ’کیرالہ کی عظیم کہانیاں تھیام جیسے فنون کے ذریعے سنائی جاتی ہیں اور اسی طرح ہمارا ماضی زندہ ہو جاتا ہے۔‘
ایک مذہبی قربانی
کولام کرداروں کے علاوہ اس رسم کے دوران کئی ہندو دیوتا اور بھگوان شامل ہوتے ہیں۔ ان میں ہنومان، یا شیوا بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
تاہم سب سے ڈرامائی کردار کولام کے ہوتے ہیں۔
اس رسم میں آگ کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ اس رسم کے دوران آگ پر چلنا یا آگ میں کودنا بھی شاید ہندو روایت سے کسی قصے کو دہرانے کے لیے ہوتا ہو۔
ایک دن کوریان کے ساتھ میں نے شائجو سے ملاقات کی جو تھیام رسم کے رقاص ہیں۔ جب انھوں نے دروازہ کھولا تو میں نے دیکھا کہ ان کے ناک اور تھوڑی پر جلنے کے نشان تھے۔
انھوں نے بتایا کہ یہ نشان تھیام کی ایک ایسی رسم کے دوران پڑے جس میں کولام ناریل کے پتوں سے بنے سکرٹ پہنے جلتے ہوئے کوئلوں پر چہرے کو جھونکتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ وہ پانچ سال کی عمر سے اس رسم کا حصہ بنے جس کا علم انھوں نے اپنے والد سے سیکھا۔
انھوں نے اپنے گھر میں اپنی ٹرافیاں دکھاتے ہوئے بتایا کہ اب وہ 12 مختلف کردار ادا کر سکتے ہیں۔
جلتی ہوئی آگ میں
چند دن بعد میں نے ایک اور رسم کا مشاہدہ کیا جس میں ایک مندر کے سامنے آگ جلائی گئی۔ پنڈت اور ان کے ساتھی کوئلوں کو بھڑکا رہے تھے۔
آگ کو بے قابو ہونے سے روکنے کے لیے پانی کا استعمال بھی کیا جا رہا تھا۔
جب کولام کو لایا گیا تو انھوں نے ناریل کے سبز پتوں کا لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ انھوں نے اپنا چہرہ جلتے ہوئے کوئلوں میں جھونکا تو شعلے اور بھڑکے، دھواں اٹھا اور ہجوم نے چلانا شروع کر دیا۔
پنڈت کے ساتھیوں نے فورا کولام کو آگ سے دور کیا۔ لیکن چند ہی منٹ بعد وہ بار بار یہی طریقہ دہرا رہے تھے۔
میں حیران اور پریشان اپنے گیسٹ ہاؤس کی جانب لوٹ گئی جبکہ مجھ سے کچھ فاصلے پر ڈھول کی تھاپ تیز تر ہوتی جا رہی تھی۔