کرکٹ کے ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ فائنل میں آسٹریلیا نے انڈیا کو 209 رنز کے بڑے مارجن سے شکست دے کر ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ جیت لی ہے۔
انڈیا کو میچ کے پانچویں روز جیت کے لیے 280 رنز درکار تھے اور مایہ ناز بلے باز وراٹ کوہلی اور اجنکیا رہانے کریز پر موجود تھے۔ انڈیا 444 رنز کے پہاڑ جیسے ہدف کا تعاقب کر رہا تھا اور آخری دن کے کھیل میں چاروں نتائج آنا ممکن تھے۔
تاہم انڈین ٹیم کو آغاز سے ہی آسٹریلیا کے فاسٹ بولرز کی بہترین بولنگ کا سامنا تھا اور سکاٹ بولینڈ کی عمدہ بولنگ کے نتیجے میں پہلے وراٹ کوہلی اور پھر رویندرا جڈیجا ایک ہی اوور میں آؤٹ ہوئے اور یوں انڈیا کا اس ہدف کے تعاقب اور ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ جیتنے کا خواب ٹوٹ گیا۔
انڈیا کی ٹیم اس سے قبل بھی سنہ 2021 میں ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ فائنل میں کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہوئی تھی تاہم تب اسے نیوزی لینڈ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
یہ پہلی مرتبہ ہے کہ آسٹریلیا نے ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ جیتی ہے۔ یوں آسٹریلیا اب تک تمام آئی سی سی ٹورنامنٹس میں کامیابی حاصل کرنے والی ٹیم بن چکی ہے۔
تاہم اس سب کے دوران پاکستان مداح سوشل میڈیا پر خاصے پرجوش دکھائی دے رہے ہیں اور انڈیا کی آسٹریلیا سے شکست کے آسٹریلیا کے دورہ پاکستان اور خصوصاً کراچی ٹیسٹ کے درمیان موازنے کیے جا رہے ہیں۔
اسی طرح ایسے موقعوں پر وراٹ کوہلی اور بابر اعظم کے درمیان بھی موازنے کیے جاتے ہیں، اور اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا۔
تاہم اس وقت انڈیا میں سوشل میڈیا پر انڈین ٹیم پر خاصی تنقید ہو رہی ہے۔ اسی کی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ 10 برسوں کے دوران انڈیا نے کوئی آئی سی سی ٹرافی اپنے نام نہیں کی ہے۔ اس میں چار ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ، دو ون ڈے ورلڈ کپ، ایک چمیپئنز ٹرافی اور دو آئی سی سی ٹیسٹ چیمپیئن شپس شامل ہیں۔
خیال رہے کہ انڈیا آخری مرتبہ ایم ایس دھونی کی کپتانی میں سنہ 2013 میں چیمپیئنز ٹرافی جیتنے میں کامیاب ہوا تھا۔
بولینڈ کی گیند پر سمتھ نے کوہلی کا ایک خوبصورت کیچ پکڑا
میچ میں کیا ہوا؟
لندن کے اوول گراؤنڈ میں کھیلے گئے ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل کے آخری روز انڈین ٹیم 444 رنز کے ہدف کے تعاقب میں 234 رنز بناکر آؤٹ ہو گئی، ٹیسٹ کے آخری روز انڈیا کی سات وکٹیں صرف 70 رنز پر گر گئیں۔
انڈیا کی دوسری اننگز میں وراٹ کوہلی 49 رنز بنا کر نمایاں رہے جبکہ اجنکیا رہانے نے 46 اور روہت شرما نے 43 رنز کی اننگز کھیلی۔
خیال رہے کہ انڈین کپتان روہت شرما نے آسٹریلیا کے خلاف ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا تھا۔
آسٹریلیا نے مڈل آرڈر بلے باز سٹیو سمتھ اور ٹریوس ہیڈ کی شاندار سنچریوں کی بدولت پہلی اننگز میں 469 رنز بنائے تھے جس کے جواب میں انڈین ٹیم صرف 296 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی تھی۔
آسٹریلیا نے دوسری اننگز میں 270 رنز بنا کر ڈکلیئر کر دی تھی اور انڈیا کو جیت کے لیے 444 رنز کا ہدف دیا، جس کے تعاقب میں پوری انڈین ٹیم 234 رنز بنا کر ڈھیر ہو گئی۔
کراچی ٹیسٹ سے موازنے کیوں؟
اسی ٹیسٹ چیمپیئن شپ سائیکل میں جب آسٹریلیا کی ٹیم تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنے سنہ 2022 کے اوائل میں پاکستان آئی تھی تو اس نے یہ سیریز ایک صفر سے جیتی تھی۔
تاہم کراچی میں کھیلے جانے والے سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کو آخری دن کے کھیل میں 506 رنز کے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے 314 رنز درکار تھے اور کریز پر بابر اعظم اور عبداللہ شفیق موجود تھے۔
اس دن بابر اعظم کی 196 رنز کی تاریخی اننگز پاکستان کو فتح کے بہت قریب لے آئی تھی اور محمد رضوان کی سنچری اور عبداللہ شفیق کے 96 رنز کی اننگز کے باوجود پاکستان وہ میچ صرف ڈرا کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔
یہی وجہ پاکستان مداح کراچی ٹیسٹ کو یاد کر رہے ہیں جس میں بابر اعظم کو بہت ڈسپلن سے بیٹنگ کرنے پر سراہا گیا تھا تاہم آج وراٹ کوہلی کو ایک جارحانہ سٹروک کھیلنے پر تنقید کا سامنا ہے۔
انڈین لیجینڈ بلے باز سنیل گواسکر نے کوہلی پر تنقید کی اور کہا ہے کہ اتنے اہم موقع پر انھیں ایسی سٹروک نہیں کھیلنی چاہیے تھی۔
سابق انڈین فاسٹ بولر عرفان پٹھان نے طنزیہ انداز میں ٹویٹ کیا کہ ’اچانک پڑوسی میری ٹائم لائن میں آ گئے ہیں، میں ان کے بارے میں صحیح سوچتا تھا۔‘
دراصل عرفان پٹھان کی جانب سے گذشتہ برس انڈیا کی پاکستان کے خلاف میلبورن میں فتح پر ایک ٹویٹ میں کیا گیا تھا کہ ’پڑوسیو اتوار کیسا رہا۔‘ جس پر اب پاکستانی ٹوئٹر صارفین انھیں جواب دے رہے ہیں۔
ایک صارف نے انڈین کوچ راہل ڈراوڈ اور کپتان روہت شرما کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا قصور ہے۔
ادھر وراٹ کوہلی کی گذشتہ چند برسوں سے انڈیا کے باہر فارم کے بارے میں بھی صارفین تنقید کر رہے ہیں۔ انھوں نے سنہ 2019 کے بعد سے انڈیا کے باہر ٹیسٹ میچوں میں 27 کی اوسط سے رنز سکور کیے ہیں۔
جہاں ایک جانب پاکستانی مداح خوش ہو رہے ہیں وہیں کچھ صارفین یہ بات بھی کر رہے ہیں کہ پاکستان اس ٹیسٹ چیمپیئن شپ سائیکل کے فائنل میں آنے کے لیے فیورٹ سمجھا جا رہا تھا تاہم اس نے اپنی ہوم سیریز میں ہی اتنی بری کارکردگی دکھائی کہ وہ فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔