اہم خبریں

انڈیا میں گرمی کی لہر سے ہلاکتوں کا معاملہ سیاسی تنازع کیوں بن گیا؟

انڈیا کی شمالی ریاست اتر پردیش میں حکام درجنوں افراد کی ہلاکتوں کی تفتیش کر رہے ہیں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ گرمی کی شدت سے ہلاک ہوئے۔

واضح رہے کہ ریاست کے دارالحکومت لکھنو سے 170 میل دور ایک ضلع میں جمعرات اور اتوار کے درمیان 68 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔

اسی دوران ایک ضلعی ہیلتھ افسر، جس نے پہلے بیان دیا تھا کہ ان ہلاکتوں کی وجہ گرمی کی شدت ہو سکتی ہے، کو ٹرانسفر کر دیا گیا جس کے بعد ایک سیاسی تنازع کھڑا ہو گیا۔

ریاستی حکومت کو ان ہلاکتوں پر باقاعدہ ایک پینل بنانا پڑا جسے ان ہلاکتوں پر جامع رپورٹ پیش کرنے کو کہا گیا ہے۔

گزشتہ ہفتے کے دوران اترپردیش کے مختلف مقامات پر درجہ حرارت 42 سے 47 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہا اور اس دوران حکومت نے عمر رسیدہ افراد کو گھروں میں رہنے کی تاکید کی۔

اتر پردیش کے ساتھ ہی بہار ریاست میں مقامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق 31 مئی سے اب تک 40 افراد گرمی کی شدت سے ہلاک ہو چکے ہیں لیکن ریاستی حکام اس کی تردید کر رہے ہیں۔

بہار ڈیزاسٹر کنٹرول روم کے انچارج ڈاکٹر امیش کمار نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ گرمی کی شدت سے صرف ایک شخص کی ہلاکت کی تصدیق کر سکتے ہیں جو جہان آباد ضلع میں ہوئی۔

لیکن اتر پردیش ریاست میں تنازع اتنی آسانی سے ختم ہونے والا نہیں۔

اس تنازعے کا آغاز جمعے کے دن اس وقت ہوا تھا جب بالیا ضلع کے سرکاری ہسپتال کے چیف دیواکر سنگھ نے صحافیوں کو بتایا کہ 25 کے قریب افراد کی ہلاکت کی ایک وجہ گرمی کی شدت ہو سکتی ہے۔

انھوں نے بیان دیا تھا کہ زیادہ تر مریضوں کی عمر 60 سے زیادہ تھی جو پہلے ہی بیمار تھے لیکن ’گرمی کی شدت سے ان کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ طبی امداد کے باوجود ان افراد کی موت واقع ہوئی۔

اس بیان کے ایک ہی دن بعد ان کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ ریاست کے نائب وزیر اعلی برجیش پاٹھک نے ڈاکٹر سنگھ کے بیان کو ’لاپرواہی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت اس معاملے کو کافی سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ دو سینئر افسران کو اس واقعے کی تفتیش کے لیے بھجوایا گیا ہے۔

ان افسران میں سے ایک اے کے سنگھ کے مطابق اس وقت ان ہلاکتوں کی وجوہات پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ ’کسی اور ضلع سے ایسی ہلاکتوں کی اطلاعات نہیں ملیں۔‘

انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ’گرمی کی لہر میں جس طرح بخار پھیلتا ہے، اس بار ایسا بھی نہیں ہے۔‘

حکام کا کہنا ہے کہ وہ انفیکشن کی ممکنہ دیگر وجوہات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں۔ اب تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ہلاک ہونے والوں کا تعلق ایک ہی علاقے سے تھا۔

تاہم اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے رویے کو ’غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیتے ہوئے تنقید کی کہ حکومت نے عوام کو گرمی کی لہر کے بارے میں بروقت آگاہ نہیں کیا۔

ریاست کے سابق وزیر اعلی اکلیش یادو نے الزام لگایا کہ ’جو لوگ اپنی جان سے گئے وہ غریب کسان تھے، ان کو وقت پر خوراک ملی، نہ دوائی اور نہ ہی علاج۔‘

شمالی انڈیا میں مئی اور جون کے مہینوں میں گرمی کی لہر آتی رہتی ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ لہریں وقت کے ساتھ ساتھ پہلے سے زیادہ شدت اختیار کر رہی ہیں اور طویل ہوتی جا رہی ہیں۔

اپریل کے مہینے میں مہاراشٹرا ریاست میں اس وقت ایک درجن افراد گرمی کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے جب ایک کھلے میدان میں ایوارڈ تقریب کا انعقاد کیا گیا۔

گذشتہ سال دی لانسٹ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق سنہ 2000 سے 2004 اور پھر سنہ 2017 سے 2021 کے درمیان انڈیا میں گرمی کی شدت سے ہونے والی ہلاکتوں میں 55 فیصد اضافہ ہوا۔