پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں محکمہ جنگلی حیات نے گذشتہ روز ایک گرے لنگور کو پتھر مار کر ہلاک کرنے والے ملزمان کی شناخت کے بعد اُن کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔
لنگور کو ہلاک کرنے کا یہ واقعہ کشمیر کے ضلع سدھنوتی کے شہر تراڑ کھل کے نواحی علاقے میں اس وقت پیش آیا جب لنگور ایک آبادی کے قریب گیا تو کچھ مقامی نوجوانوں نے اس کو پکڑنے کی کوشش کی، ناکامی پر انھوں نے پتھراؤ کیا جس سے وہ ہلاک ہو گیا۔
محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق لنگور کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوا دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ مقامی نوجوانوں نے کچھ عرصے قبل بھی ایک لنگور کو ہلاک کر کے اسے بجلی کے کھمبے کے ساتھ باندھ دیا تھا۔
مظفر آباد یونیورسٹی میں شعبہ زوالوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور کشمیر میں پائے جانے والے گرے لنگور پر پی ایچ ڈی کے دوران تحقیق کرنے والے ڈاکٹر ریاض عزیز منہاس کے مطابق بدقسمتی سے چند افراد نے اس جانور کو اپنی ظالمانہ تفریح کا ذریعہ بنایا ہوا ہے، جس کے دوران وہ اس جانور کو پکڑتے ہیں، تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور اس پورے معاملے کو تفریح سمجھتے ہیں۔
ڈاکٹر منہاس کے مطابق اس نوعیت کے کچھ واقعات کے بارے میں تو میڈیا اور حکام کو اطلاع مل جاتی ہے مگر بیشتر کیسز کا پتا ہی نہیں چلتا۔
ڈاکٹر ریاض عزیز منہاس بتاتے ہیں کہ سنہ 2015 میں جب وہ کشمیر میں پائے جانے گرے لنگور پر تحقیق کر رہے تھے تو اس دوران ان کا کشمیر کے مختلف علاقوں میں جانا ہوا جہاں انھیں اسی نوعیت کے تشدد اور لنگوروں کی ہلاکت سے متعلق انھیں معلوم ہوا۔
ان کے مطابق صورتحال اب بھی نہیں بدلی اور ایسے واقعات سننے کو ملتے رہتے ہیں۔
محکمہ وائلڈ لائف کشمیر کے مطابق کشمیر میں پائے جانے والے گرے لنگور کے شکار کے واقعات کم ہی پیش آتے ہیں، اور جیسے ہی محکمے کو رپورٹ موصول ہوتی ہے تو ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی ہے۔
ترجمان کے مطابق ان کے ریکارڈ کے مطابق ایسا ایک واقعہ چند ماہ قبل پیش آیا تھا، جس میں ایک نوجوان نے لنگور کا شکار کیا تھا اور اس پر سخت قانونی کارروائی کی گئی تھی۔
کشمیر کے محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق لنگور کو ہلاک کرنے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے
کشمیر کا گرے لنگور پاکستان اور انڈیا کے کچھ علاقوں تک محدود
ڈاکٹر ریاض منہاس کہتے ہیں کہ کشمیر گرے لنگور پاکستان اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاوہ انڈیا کی ریاست ہماچل پردیش کے چند علاقوں تک محدود ہے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ جانور آئی یوسی این کی ریڈ لسٹ میں شامل ہے یعنی اس کی نسل معدوم ہونے کے انتہائی خطرے کا شکار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مختلف ماہرین اور اُن کی اپنی تحقیق کے مطابق اس لنگور کی تعداد پانچ سے سات ہزار سے زیادہ نہیں ہو گی۔ انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ گرے لنگور بندر نہیں ہے تاہم یہ بندر کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے مگر اس کی اور عام بندر کی عادات میں بہت زیادہ فرق ہے۔
’بندر انسانی آبادیوں میں گھل مل جاتا ہے۔ یہ انسانی آبادیوں کے قرب و جوار میں بھی ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔ مگر کشمیر گرے لنگور انسانوں سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتا اور اس کا منھ کالا اور دُم لمبی ہوتی ہے۔‘
ڈاکٹر منہاس کے مطابق ’کشمیر گرے لنگور انتہائی گھنے یا ایسے جنگلات میں پایا جاتا ہے جہاں پر مون سون کی بارشیں ہوتی ہیں۔ ’سردیوں میں یہ جنگلات سے اوپر کم از کم پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر آجاتے ہیں جبکہ گرمیوں میں یہ کم از کم دس ہزار فٹ بلندی پر چلے جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں یہ کبھی سوات کے علاقوں میں پایا جاتا تھا مگر کافی عرصے سے وہاں پر اسے نہیں دیکھا گیا۔ ’اسی طرح یہ کوہستان میں دریائے سندھ کے کنارے دوبھیر کے علاقے میں بھی کافی عرصے سے نہیں دیکھا گیا ہے۔ تاہم یہ کشمیر کے علاوہ ضلع مانسہرہ کے ان علاقوں جن کا کشمیر کے جنگلات کے ساتھ رابطہ ہے اور کوہستان کی وادی پالس، ضلع بٹگرام کے علاقے الائی میں اب بھی پائے جاتے ہیں۔‘
ڈاکٹر منہاس کا کہنا ہے کہ وہ جنگلی جانور، درندے، پرندے، پودے یا درخت جو ایک محدود علاقے تک محدود ہوں، جیسا کہ گرے لنگور، تو ان کی معدومیت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی ان پر خطرناک حد تک اثر انداز ہوتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ گرے لنگور کا ماحولیات میں بہت بڑا کردار ہے اور دیگر جانوروں کی طرح یہ جنگلات کے پھیلاؤ کا بڑا سبب ہیں اور اب ان کی تعداد کا کم ہونا یا معدومیت کے خطرے میں ہونا ماحولیات کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
ماحولیات میں کردار
ڈاکٹر ریاض منہاس کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں گرے کشمیر لنگور کی بڑی تعداد مچھیارا نیشنل پارک میں ہے اور 37 قسم کے پودے اس کی خوراک ہیں، جن کے علاوہ یہ پتے، پھل فروٹ، جڑی بوٹیاں اور درختوں کی چھال بھی کھاتے ہیں۔
’یہ جنگلات میں مختلف مقامات پر اپنا پاخانہ خارج کرتے ہیں جو جنگلات کے قدرتی پھیلاؤ کا بڑا سبب ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے بالوں میں بھی بیج پھنستے ہیں۔‘
ڈاکٹر ریاض کے مطابق گرے لنگور پولی نیشن کا بڑا ذریعہ ہے، جب درختوں پر پھول لگتے ہیں تو ایک نر اور مادہ ہوتا ہے اور پھل، فروٹ کے لیے نر اور مادہ پھولوں کا ملنا ضروری ہوتا ہے۔ ’یہ لنگور جب پھولوں والے درخت پر منھ مارتے ہیں تو اس وقت اس کے ہاتھوں اور بالوں سے مختلف پھول چمٹ جاتے ہیں اور جب یہ دوسرے درخت پر منھ مارتا ہے تو یہ دوسرے درخت پر منتقل ہو کر نر اور مادہ کے ملاپ کا ذریعہ بنتے ہیں۔‘
ان کی تحقیق کے مطابق گرے لنگور کا قدرتی فوڈ چین میں بھی بہت بڑا کردار ہے کیونکہ یہ گوشت خور درندوں جیسا کہ کشمیر میں پائے جانے والے تیندوؤں کا مرغوب شکار ہے، اگر اس کی تعداد مناسب ہو گئی تو سمجھ لیں کہ تیندوا کی تعداد بھی مناسب رہے گی اور جنگلات بھی مناسب رہیں گے۔
’اگر یہ لگے کہ تیندوا آبادیوں میں مال مویشیوں پر حملے کر رہا ہے تو اس غالب امکان یہی ہے کہ اسے جنگل سے مناسب مقدار میں شکار نہیں مل پا رہا اور ماحولیات میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔‘
خطرات
ڈاکٹر ریاض کہتے ہیں کشمیر گرے لنگور کو سب سے زیادہ خطرہ انسانوں ہی سے ہے۔ ’یہ انسانوں سے دور بھاگتا ہے۔ مگر کم ہوتے جنگلات اور بڑھتی انسانی نقل و حرکت کے باعث لنگور کی آبادیاں مزید پیچھے ہٹ رہی ہیں اور اس کی آمجگاہیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایک اور اہم وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔ ’بہار، گرما، مون سون اور خزاں کے موسموں کا پیٹرن تبدیل ہو رہا ہے اور دروانیہ بھی بدل رہا ہے۔ ’یہ لنگور موسم بہار اور گرما میں پتے، پھل، فروٹ استعمال کرتا ہے جبکہ خزاں کے موسم میں درختوں کے چھال۔ اب جب یہ موسم تبدیل ہو رہے ہیں تو اس سے اس کی افزائش نسل اور خورک کے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔‘
ڈاکٹر ریاض عزیز منہاس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس جانور کو ظالمانہ تفریح کے لیے استعمال کرنا بھی بہت ہولناک ہے۔ ’انڈیا میں تو اس کی مذہبی اہمیت ہے جس کی وجہ سے اس کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کرتا ہے مگر پاکستان میں معاملہ الٹا ہے۔‘
کشمیر وائلڈ لائف کی افسر شائستہ علی کہتی ہیں کہ کشمیر میں گرے لنگور کے لیے موافق ماحول موجود ہے۔ ’محکمہ جنگلی حیات مقامی آبادیوں میں جنگلی حیات کے حوالے سے شعور بیدار کرنے کی مہمات چلاتا ہے۔ محکمے کے عملے میں اضافہ کیا گیا ہے۔ گرے لنگور کو ہراساں کرنا خلاف قانون ہے جس پر سخت ترین کارروائی ہوتی ہے۔‘